مریم نواز شریف ظفروال میں
فر وال میں ایک سنار خاندان کا ذکی نامی نَو عمر بیٹا سرطان کے مرض میں مبتلا ہے۔
ظفر وال ، ضلع نارووال کی ایک ماٹھی سی تحصیل ہے۔ نارووال کو ضلع اور ظفروال کو تحصیل بنانے کا فیصلہ نواز شریف نے کیا تھا۔ نارووال کبھی ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ہُوا کرتی تھی۔ نواز شریف کی مہربانی سے ضلع بننے کے بعد اس کی شان و شکوہ میں خاصا اضافہ ہُوا ہے۔ احسن اقبال نے نارووال کی ترقی اور شان میں اضافہ کیا ہے ۔
یہ کہنا شائد مبالغہ نہ ہوگا کہ مقتدر احسن اقبال ہی نے نارووال کو ضلع سیالکوٹ سے بڑھ کر خوبصورت بنا ڈالا ہے۔ وہ میاں نواز شریف کے وزارتِ عظمیٰ میں دو بار وفاقی وزیر بنے اور دونوں بار ہی انھوں نے اپنے انتخابی ضلعے، نارووال، کو ترقی کی نئی منازل سے روشناس کروایا۔ آج نارووال میں ایک شاندار اور جدید اسپتال ہے ۔ نیا ریلوے اسٹیشن ہے ۔ عالمی معیار کا اسپورٹس کمپلیکس اور اسٹیڈیم ہے۔ دوماڈرن یونیورسٹیاں اور جدید ترین کمپیوٹر کالج ہیں۔ شہر بھر میں ایسی شاندار سڑکیں اور سرکاری عمارتیں بن چکی ہیں کہ سیالکوٹ شہر شرماتا ہے۔ شائد یہ اِنہی خدمات کا صلہ ہے کہ گزشتہ برس کے عام انتخابات میں ضلع نارووال اور ضلع سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کا صفایا ہو گیا اور نون لیگ کامیاب ہوئی ۔
اس ضلع نارووال کی تحصیل ظفر وال میں محترمہ مریم نواز شریف نے گزشتہ روز قدم رکھا تو اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ ظفر وال میں ایک سنار خاندان کا ذکی نامی نَو عمر بیٹا سرطان کے مرض میں مبتلا ہے ( اللہ تعالیٰ اُسے صحتِ کاملہ و عاجلہ سے نوازے) بتایا جاتا ہے کہ کمسنی کے باوجود وہ نواز شریف کا متوالا ہے۔ وہ سوشل میڈیا کے توسط سے نواز شریف تک اپنی محبتوں اور عقیدتوں کے پیغامات پہنچاتا رہتا ہے۔
آج کل ذکی صاحب کی طبیعت شائد زیادہ ہی خراب ہے ؛ چنانچہ ذکی نے نواز شریف سے خود ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ ذکی کے محبوب قائد خود پسِ دیوارِ زنداں ہیں اور بیمار ذکی کا لاہور آنا مناسب نہیں۔ایسے میں محترمہ مریم نواز شریف نے اپنے قیدی والد کے حکم پر خود بیمار ذکی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ اسے ایک غیر معمولی فیصلہ اور اقدام کہا جانا چاہیے۔
مریم نواز شریف 12جون کی تپتی دوپہر کو ایک قافلے کے ہمراہ ظفر وال پہنچیں تو اُن کی آمد ایک بڑے اور پُر شکوہ جلسے کا رُوپ دھار گئی ۔ نارووال کے مضافات میں مریم نواز کو جس طرح خوش آمدید کہا گیا، یہ شائداُن کی سیاسی زندگی کا پہلا واقعہ ہوگا۔ بیمار ذکی سے مریم نواز نے جس محبت اور مادرانہ شفقت سے ملاقات کی ہے، یہ مناظر ناقابلِ فراموش ہیں۔ ہمارے مغرور اور متکبر سیاستدان اپنے چاہنے والوں (اور وہ بھی بیمار)سے ایسی محبت کہاں کرتے ہیں ۔
ظفروال شہر کے مین چوک سے متصل، کنگرہ روڈ پر، ایک وسیع خلالی پلاٹ میں مریم نواز شریف کا یہ جلسہ ظفروال کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کہا گیا ہے ۔ نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کھل کر خطاب کیا۔اُن کے خطاب کے کئی نکات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ خطاب موجودہ حکمرانوں کو بہت گراں گزرا ہے ۔مریم نواز اگرچہ محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح زبردست مقرر نہیں ہیں لیکن اُن کا سادہ اسلوب بھی سامعین کے لیے کم کشش کا باعث نہیں ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ظفروال میں مریم نواز کے اس جلسے کو پُرجوش اور کامیاب بنانے میں سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز اور اُن کی اہلیہ و نون لیگی ایم این اے محترمہ مہناز عزیز نے مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ مہناز عزیز ہی مریم نواز کے ساتھ ساتھ نظر آتی رہیں ۔ یقیناً مریم نواز نے مہناز عزیز کا شکریہ بھی ادا کیا ہوگا۔ مریم نواز کے جلسے کو کامیاب بنانے میںمقامی نون لیگی ایم پی اے مولانا غیاث الدین اورکئی بار انتخابات لڑنے والے ڈاکٹر حافظ شبیر وغیرہ نے بھی دامے درمے حصہ ڈالا ہے ۔
لیکن ایم این اے احسن اقبال اور اُن کے بھتیجے و نون لیگی ایم پی اے رانا عبدالمنان ظفروال کے اس جلسے میں شریک نہیں تھے ۔ یقیناً اس کی خبر مریم نواز کو بھی ہوگی ۔ احسن اقبال نون لیگ کے سیکریٹری جنرل ہیں اور نواز شریف کے معتمد ۔ اُن کا مریم نواز کے جلسے میں نہ آنا کئی شکوک و شبہات کو جنم دے گیا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ میڈیا کے ایک سیکشن نے یہ خبر بھی چلا دی کہ ظفروال میں مریم نواز کا جلسہ نون لیگ کے اندر دھڑے بازی کو مزید نمایاں کر گیا ۔ ساتھ ہی یہ بھی در فنطنی چھوڑی گئی کہ نارووال میں احسن اقبال کا دھڑا لوگوں کو مریم نواز کے جلسے میں جانے سے روکتا رہا ۔
رات گئے راقم نے جناب احسن اقبال کو فون کیا اور اس خبر کے بارے استفسار کیا ۔ اُنہو ں نے اس کی سختی سے تردید بھی کی اور ساتھ ہی یہ کہا: ''جس وقت ظفروال میں یہ جلسہ ہو رہا تھا، مَیں نون لیگ کے صدر کے زیر صدارت اسلام آباد میں ہونے والی اکنامک ایڈوائزری گروپ کی ایک نہایت ضروری میٹنگ میں شریک تھا۔ ہم تازہ بجٹ پر بات چیت کررہے تھے۔ ظفروال کے اس جلسے میں نون لیگ کے صوبائی صدر کو بھی مدعو کیا گیا تھا نہ مجھے۔ بغیر دعوت کے کسی جلسے میں شریک ہونا، خواہ وہ اپنا ہی کیوں نہ ہو، اخلاقی طور پر بھی شائد مناسب نہیں ہے۔''یہ تھی اصل بات جسے میڈیا نے ''نون لیگ میں دھڑے بازی'' بنا کر قوم کے سامنے پیش کر دیا ۔
ظفر وال میں مریم نواز شریف کا شاندار جلسہ ایک بار پھر یہ ثابت کر گیا ہے کہ مریم نوازنے اپنا تشخص منوایا اور مستحکم کیا ہے ۔اُن کی اپنی پہچان اب محض یہ نہیں رہی ہے کہ وہ پاکستان کے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم، نواز شریف، کی صاحبزادی ہیں ۔ انھیں اس امر کا فخر اور مان تو ضرور ہے، آگے بڑھنے کے لیے انھیں اپنے والد صاحب کی شخصیت کا سہارا بھی ملا ہے لیکن مریم نواز نے اپنی علیحدہ پہچان کروائی ہے ۔
اس میں اُن کی اپنی محنت اور کمٹمنٹ شامل ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب نون لیگ کی مرکزی قیادت نے انھیں پارٹی کی نائب صدر بنایا تو اس نئے فیصلے کو سبھی نے خوش دلی سے قبول کر لیا۔اُن کا کامیابی سے آگے بڑھنا بعض لوگوں کے لیے ناپسندیدہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس زمینی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ مریم نواز شریف اب حزبِ اختلاف کی مرکزی شخصیت بن چکی ہیں ۔
آج اگر کہیں اپوزیشن کی اجتماعی بیٹھک ہوتی ہے تو مریم نواز میڈیا کے لیے مرکزِ نگاہ ٹھہرتی ہیں۔اُن کے ٹویٹس تک قومی اخبارات کی اہم خبر بنتے ہیں۔ اُن کے ٹویٹس اگر خاموش ہوتے ہیں تو یہ بھی ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی خبر بنتے ہیں ۔ اس خاموشی پر بحثیں ہوتی ہیں ۔ اور اگر وہ ٹویٹ کرتی ہیں تو یہ نجی ٹی ویوں کے ٹاک شوز کا محبوب موضوع بنتا ہے ۔ آخر کوئی بات تو ہے ۔مریم نواز کے ٹویٹس کی اثر پذیری کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ایک درمیانے درجے کی اداکارہ کو کسی نے میدان میں اُتارا ہے لیکن بات نہیںبن رہی ۔ ٹویٹس کے میدانوں میں متحرک رہنے والوں نے اس اداکارہ کے مریم نواز مخالف ٹویٹس کو شرفِ قبولیت نہیں بخشا ہے۔