وفاقی جماعتوں کے پاس بلوچستان کے لیے کوئی باضابطہ پالیسی نہیں

وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کی قومی اکائی کو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیا ہے۔


بلوچستان نیشنل پارٹی کے راہ نما اور سرکردہ سیاست داں نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں بلوچستان کے قبائلی معاشرے اور سیاسی حوالے سے اُن کے گھرانے کی قدآور حیثیت ہے۔ ان کے والد شہید نواب میر غوث بخش رئیسانی گورنر بلوچستان اور وفاقی وزیر رہے جب کہ ان کے بڑے بھائی چیف آف سراوان نواب محمد اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیر کے عہدے پر فائر رہے ہیں اور اب بھی رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔ نوابزدہ لشکری رئیسانی صوبائی وزیر اور سینیٹر رہے۔

نوابزادہ لشکری رئیسانی نے 1993ء میں پی این پی کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑا اور کام یابی حاصل کی ان کا شمار صوبے کے بالغ نظر، زیرک، سنجیدہ اور بااصول سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں بھی شامل ہوئے مگر اصولی اختلافات کی بنیاد پر زیادہ عرصہ قومی جماعتوں کے ساتھ نہیں چل سکے۔ جب وفاق اور صوبے میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور وہ سینیٹر اور پارٹی کے صوبائی صدر بھی تھے، اس وقت بھی انہوں نے اصولی موقف پر نہ صرف سینیٹر شپ چھوڑی بلکہ حکم راں پارٹی کی صوبائی صدارت اور پارٹی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔

نوابزادہ لشکری رئیسانی ملکی وبین الاقوامی سیاست پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ قومی جماعتوں سے مایوس ہونے کے بعد انہوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اپنی قبائلی و سیاسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی بلوچستان پیس فورم کے پلیٹ فارم سے تعلیم کے فروغ کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔ گذشتہ دنوں حاجی لشکری رئیسانی کے ساتھ ہماری ایک نشست ہوئی اور ملکی و صوبائی معاملات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، جو نذر قارئین ہے۔

نوابزادہ لشکری رئیسانی وفاقی جماعتوں سے مستعفی ہوکر قوم پرستانہ سیاست کی راہ اختیار کرنے سے متعلق کہتے ہیں کہ وفاقی پارٹیوں کے پاس بلوچستان سے متعلق کوئی باضابطہ پالیسی نہیں ہے، اس لیے انہوں نے قوم پرستی کی سیاست کا راستہ اپنا یا تاکہ صوبے کے لوگوں کی خوش حالی کے لیے وہ اپنا کرادا کرسکیں۔ لشکری رئیسانی کہتے ہیں کہ وفاقی پارٹیوں میں ان کا تنازعہ ہمیشہ بلوچستان رہا ہے۔ صوبے میں جب فوج کشی اور انسانی حقوق کی پامالی ہورہی تھی تو اس وقت کے حکومتی عہدے داروں کی اس جانب عدم توجہی پر وہ احتجاجاً سینیٹ کی نشست سے مستعفی ہوکر بلوچستان لوٹے۔

ان کا موقف ہے کہ وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کی قومی اکائی کو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیا ہے۔ صوبے سے متعلق وفاقی جماعتوں کے پاس پالیسی نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان خوش حال ہوگا تو فیڈریشن مضبوط ہوگی۔ لشکری رئیسانی محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کو آئیڈیل شخصیت مانتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ایک جرأت مند اور حقیقی لیڈر تھیں۔ ان کی موجودگی میں سیاست کا ایک رخ تھا۔ ان کی شہادت کے بعد سے سیاسی لوگوں نے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

2018ء کے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر شکست کے باوجود وہ کوئٹہ کے شہریوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئٹہ سٹی میں رہنے والے کسی بھی رنگ نسل و طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے نہ صرف انہیں ووٹ دیا بلکہ ان کی انتخابی مہم کو کام یاب بنایا مگر مجھے افسوس ہے کہ بالادست طبقے نے میر ے موقف اور سیاسی جدوجہد کا راستہ روک کر قومی اسمبلی کی اس نشست سے عوام کو نمائندگی سے محروم رکھا ہے۔ انتخابات میں ایک ایسے شخص کو لایا گیا جس کا تعلق اس صوبے کی جدوجہد سے کبھی نہیں رہا ہے۔

اپنے لوگوں کا نمائندہ ہونے کے توسط سے میرا سوال ہے کہ ایک غیرسیاسی شخص کو جعلی طریقے سے منتخب کراکے اسٹیبلشمنٹ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ میر ے خیال میں اس کی کام یابی کی وجہ بلوچستان کے مسائل پر پردہ ڈال کر بلوچستان کے حقوق کی آواز کو دبانا ہے۔ انتخابی عذرداری سے متعلق کیس کے فیصلے پر لشکری رئیسانی کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ووٹرز کے حق کا دفاع کرنے کے لیے انصاف کی توقع نہ ہونے کے باجود عدالت کے دروازے پر دستک دی تاکہ میرے حلقے انتخاب کے لوگ یہ نہ کہیں کہ میرے دل میں ان کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے میں خود کئی ماہ تک سماعتوں پر پیش ہوتا رہا مگر میرے ووٹر کو انصاف نہیں ملا۔

بی این پی کے مرکزی راہ نماء وفاقی حکومت کے ساتھ ہونے والے 6 نکاتی معاہدے کو بلوچستان اور وفاق میں موجودہ دوریوں میں کمی کا سبب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو ملک کے اندرونی حالات کا علم ہے نہ ان کے پاس فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ ہمارے اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں صدر مملکت جو ملک کے کمانڈران چیف ہیں ان کے دستخط بھی موجود ہیں، اس کے باوجود صوبے سے متعلق معاملات کو پارلیمان کی آئینی کمیٹیوں کو بھیج کر ان کے حل کی راہ تلاش کرنے کی بجائے حکومت نے جہانگیر ترین کے ذریعے ان معاملات کو الجھا رکھا ہے ۔ حکومت اور بی این پی کے درمیان ہونے والے معاہدے پر پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ہماری پارٹی نے حکومت کو معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے تحریک انصاف کو ایک سال کا وقت دیا ہے اپنے قول پر قائم ہیں حکومت کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ پارٹی کے آئینی ادارے کریں گے۔

نیب میں اپنے پیش ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی لوگوں کی کردارکشی، انہیں بلیک میل کرکے سیاسی عمل میں ان کا راستہ روکنے کے علاوہ ملک کی تاریخ میں نیب نے کوئی ایسا بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا جس کا تذکرہ کیا جائے، جس دن میں اپنے بھائی کو دفنانے رہا تھا اسی شام نیب کی جانب سے مجھے پیش ہونے کا نوٹس ملا اور اپنے بھائی کی شہادت کے تیسرے روز میں نیب کے دفتر میں ایک گم نام کیس کا جواب دینے کے لیے پیش ہوا۔

میں نہ ٹھیکے دار ہوں نہ میری کوئی پوشیدہ جائیداد ہے، نہ کبھی وزارت لی ہے نہ کوئی فنڈ میرے کہنے پر تقسیم یا جاری ہوئے ہیں، جن میں کرپشن کی ہو، اس کے باوجود میرے بھائی کی فاتحہ کے دن میر ی کردار کشی اس لیے کی گئی تاکہ میرے لوگوں کے سامنے میرے کردار کو داغ دار بناکر ایک جعلی شخص کو قومی اسمبلی کی اس نشست پر جہاں سے میں الیکشن میں حصہ لے رہا تھا وہاں سے جتوایا جائے۔ نیب کے اس عمل سے شدید نفرت کا اظہار کرتا ہوں۔ لشکری رئیسانی نے واضح کیا کہ وہ اپنی عزت کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا خاندان پشت درپشت اس سرزمین کا محافظ رہا ہے اور ایک محافظ کی کردارکشی اس لیے کی گئی کیوںکہ وہ بوٹ پالش کرنے والوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرتا رہتا ہے۔

2018ء کے انتخابات میں شکست کے بعد 2023ء کے انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی لوگ سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا تعلق ایک پارلیمانی سیاسی جماعت سے ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں امن ترقی اور خوش حالی پارلیمانی نظام اور پالیسیوں کے ذریعے ہی آئی ہے۔ اس لیے وہ اور ان کے ساتھی اپنی جدوجہد کے راستے سے نہیں ہٹیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ گوکہ ہمارے اداروں میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کو جمہوری جدوجہد سے ہٹا کر ان کا رخ پہاڑوں کی طرف کیا جائے اور پھر انہیں دہشت گرد قرار دے کر قتل کیا جائے، لیکن ہم گلی کوچوں میں اپنی پُرامن جدوجہد جاری رکھیں گے تاکہ ایک بالادست پارلیمنٹ معرض وجود میں آئے۔

بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے کردار اور ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے نواب اسلم رئیسانی کے وزیراعلیٰ بننے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں حزب اختلاف بھی اتنا ہی موثر کردار ادا کرسکتی ہے جتنا حزب اقتدار۔ دنیا کے کئی ممالک میں حزب اقتدار کی ناکام طر ز حکم رانی پر آئندہ انتخابات میں حزب اختلاف کو عوام ووٹ دے کر اقتدار میں لائے ہیں۔ بحیثیت سیاسی کارکن میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور نواب محمد اسلم خان رئیسانی صوبے کے عوام کی ایک موثر آواز بن چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف اقتدار پر مسلط سازشی ٹولے کا راستہ کیسے روکے گی اقتدار کی کرسی پر کوئی بھی بیٹھے کیا اس کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ جام حکومت کی پالیسیوں کو رول بیک کرکے صوبے کی خدمت کرپائیں؟ اگر ایسا ہم کرپائیں گے تو پھر ہمیں ضرور اقتدار میں آنا چاہیے ورنہ حزب اختلاف میں رہ کر ہی ہم اپنا موثر اور بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔

پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے سے متعلق حکومتی دعوؤں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں مال غنیمت میں تقسیم ہونے والے کپڑے سے متعلق ایک شخص بھری محفل میں امیر المومنین عمر بن خطابؓ سے سوال کرتا ہے کہ یہ جو آپ نے قمیص پہنی ہے آپ کا کپڑا تو اتنا زیادہ نہیں تھا جس سے قمیص بن سکے، تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے بیٹے سے یہ سوال کیا جائے تو ان کے بیٹے نے جواب دیا کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا بھی اپنے والد کو دیا تاکہ قمیص بن سکے۔ کیا پاکستان میں کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ ایک آمر خود کو ملک کے آئین وقانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ جانے کی بجائے کیوں بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ مدینہ کی ریاست کا ڈراما بااختیار قوتوں کی ایک اور ایجاد تھی۔ اگر عمران نیازی مساوات پر مبنی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ ملک کے دفاعی بجٹ میں کٹوتی کرکے یہ رقم پس ماندہ عوام پر خرچ کریں۔

ملک کو درپیش معاشی بحران سے متعلق لشکری رئیسانی کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے نظام چلانے کے لیے اکثر غیرمنتخب افراد کا انتخاب کیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس ملک چلانے کا اختیار ہے نہ ان کی خواہش ہے کہ ملکی معاملات درست ہوں۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں قیادت کا اہم کردار ہوتا ہے مگر وزیراعظم کی اہلیت وصلاحیت کے مظاہرے کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے انہوں نے ایران کے دورے کے موقع پر جاپان اور جرمنی کی سرحدوں کو ملا دیا جس پر دنیا میں تبصرے ہوئے چائنا گئے تو کہا کہ پانچ بلین درخت لگائیں گے، جس شخص نے کہا کہ میں بلین آف ڈالر ملک میں واپس لاؤں گا اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرکے یہاں پیٹرول سستا کروں گا۔ آج آئی ایم ایف کے سامنے کشکول لیے گھوم رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں جس کے ذریعے وہ ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکال پائیں جس خانہ جنگی، بدحالی اور افراتفری کی طرف ہم جارہے ہیں خدانخواستہ ہماری آئندہ کئی نسلیں افغانستان، شام اور لیبیا کی طرح اس کو بھگتیں گی یہاں بیمار اور ناخواندہ افراد کا ایک لشکر رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی سمجھتی ہے کہ اس خطے اور فیڈریشن کے وسیع تر مفاد میں تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایک نیشنل ایجنڈے کا تعین کرنا چاہیے اور جس پر عمل کرکے ہم اس ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکال پائیں اور جو سیاسی جماعتیں اس نیشنل ایجنڈے کی مخالفت کریں ان کا سیاسی بائیکاٹ کیا جائے۔ بی این پی اس نیشنل ایجنڈے پر کانفرنس کی میزبانی کرنے کے لیے تیار ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایٹمی قوت کو ایک منظم طریقے سے معاشی اور انتظامی بدحالی کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ ملک میں گذشتہ 70 سال کے دوران ایسے خوف ناک حالات پیدا نہیں ہوئے۔ ہمسایہ ملک افغانستان کیساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد نفرت پر ہے۔ ایران میں وزیراعظم نے خود جاکر کہا کہ دہشت گرد ہمارے ملک سے ایران پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات اصلی ہیں یا مصنوعی جو گذشتہ 70 سالوں سے درست نہیں ہوپارہے ہیں۔ ہمسایوں کے ساتھ عدم اعتماد اور عدم تعاون کے ہمارے رویے نے ہمیں عالمی سطح پر تنہا کردیا ہے۔ ایرانی صدر اپنے دورۂ پاکستان پر واقعات کا ذکر کرتے ہیں اور پاکستانی وزیراعظم جب ایران کے دورے پر جاتے ہیں تو بھی واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔

اپوزیشن کی جانب سے موجودہ حکومت کو سلیکٹڈ حکومت قرار دینے سے متعلق لشکری رئیسانی کہتے ہیں کہ اپوزیشن میں شامل دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت مسلسل کہہ رہی ہے عمران خان سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی وزیراعظم ہیں اگر وہ سلیکٹڈ ہیں تو کون سی قوت ہے جس نے ان کو سلیکٹ کیا ہے اور کٹھ پتلی کی ڈوریں ہلانے والے کون ہیں عمران خان کو کٹھ پتلی بنانے اور سلیکٹ کرنے والوں کا نام چھپانے والے اپنے لوگوں اور اس ملک کے کے ساتھ سنجیدہ نہیں۔ ہمیں کھل کر بات کرنی چاہیے جب تک بیماری کی تشخیص نہیں ہوگی تب تک اس کا علاج نہیں ہوگا۔

افغان مہاجرین کو روزگار فراہم کرنے سے متعلق اپنے ایک بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت نے ان کے موقف کو سیاق وسباق سے ہٹ کر سوشل میڈیا پر ان کے نام کے ساتھ منسوب کرنے کی کوشش کی۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک خبر کا تعلق ہے تو یہ یو این ایچ سی آر کے ذیلی ادارے کی جانب سے منعقدہ ورکشاپ میں میری تقریر ہے جس میں میرے الفاظ یہ تھے کہ مغربی دنیا نے افغانیوں کو روس کے ساتھ لڑاکر ان کا بوجھ پاکستان پر ڈال دیا ہے۔ یو این ایچ سی آر اور مغربی دنیا کو چاہیے کہ ان کو روزگار فراہم کریں تاکہ یہاں بدامنی میں کمی آسکے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی میں اپنی مخالفت سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی کو آخری لمحے تک صوبے کے لوگوں کی خوش حالی کے لیے وقف کررکھا ہے، اپنے اصولی موقف کے آگے میں نے سینیٹ کی نشست اور وزارتوں کو اہمیت نہیں دی۔ مجھے اب تک محسوس نہیں ہوا کہ پارٹی کے اندر میری کوئی مخالفت ہورہی ہے۔ پارٹی کے اندر میرے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نہ کبھی ایسے مسئلوں پر توجہ دی ہے۔

بلوچستان میں پی ایس ڈی پی میں مختص رقم کے لیپس ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو گذشتہ 70 سال سے بطور کالونی ٹریٹ کیا جارہا ہے۔ صوبے کی وہ سیاسی قیادت جو اپنے حقوق کی بات کرتی ہے یا جو لوگ مزاحمت کرتے ہیں ان کا راستہ روکا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت سے قبل دو حکومتوں کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے کھربوں روپے لیپس کیے ہیں جس کا مطلب ہے کہ باقاعدہ ایک ڈیزائن اور پالیسی کے تحت بلوچستان کو پس ماندہ رکھا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی قیادت وہ شخص کر رہا ہے جو ن لیگ کے دور حکومت کے میں آخری سیکنڈ تک نوازشریف کی کابینہ میں شامل تھا۔ موجودہ صوبائی حکومت راتوں رات بننے والی ایک سرکاری ملازم کی جماعت ہے۔

اس پارٹی کو راتوں رات بناکر وزیراعلیٰ کے حوالے کرنے والوں نے یقیناً ان کو کوئی نہ کوئی ایجنڈا دیا ہوگا جس کے ذریعے بلوچستان کو پس ماندہ رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت صوبے اور عوام سے مخلص ہوتی تو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے پی ایس ڈی میں شامل منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملات کو طے کرکے آگے لے جاتی تاکہ پی ایس ڈی پی میں موجود خامیوں کو درست کرکے آگے بڑھایا جاتا۔ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کی جماعتوں اور نواب اسلم رئیسانی کی پیشکش کے باوجود انہیں اعتماد میں نہ لے کر حکومت خفیہ ایجنڈے پر عمل کررہی ہے۔

ملک میں صدارتی نظام سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صدارتی نظام لانا اگر سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا ہوتا تو 2018ء کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں اسے اپنی پارٹی منشور کا حصہ بناکر لوگوں سے ووٹ لیتیں۔ صدارتی نظام لانے کا پروپیگنڈا کرنے والے کا مقصد لوگوں کی توجہ اصل معاملات سے ہٹا نا ہے۔ جس کٹھ پتلی کو وزیراعظم بنایا گیا اس کو صدر بنایا جائے گا۔ کیا ملکی حالات کوئی کٹھ پتلی درست کر سکتا ہے یا ایک سیاسی عمل آزاد خودمختار طاقتور پارلیمنٹ جسے فیصلہ کرنے کی صلاحیت حاصل ہو وہ کرسکتی ہے۔

بلوچستان کی پس ماندگی سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان پس ماندہ نہیں بحران زدہ صوبہ ہے۔ اپنے سماج کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کے لیے یہاں بسنے والے ہر شخص کو اپنا انفرادی کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کو اس لیے پس ماندہ نہیں سمجھتا کیوںکہ پس ماندہ سماج کے لوگ اپنی ترقی کا سفر شروع کرتے ہیں۔ ہم ایک ایسے سماج میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں غربت، بھوک و افلاس، بیماریاں، کرپشن، سیاسی ومعاشرتی مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے میں بہتری کی سوچ رکھنے والے افراد کو سماج کی راہ نمائی کے لیے اپنا انفرادی کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک خاص طبقے نے شارٹ کٹ کلچر کو فروغ دیا ہے اور لوگ اپنے ذاتی مفادات اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے اس راستے پر چلتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بحران زدہ سماج میں رہنے والے افراد کے لیے اس سے بڑا قومی المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ انسداد پولیوویکسین میں بھی ملاوٹ کی جارہی ہو۔ بلوچستان میں کئی لاکھ افراد نشے اور صوبے کا ایک بہت بڑا حصہ کام نہ کرنے کا عادی ہوچکا ہے۔ یہ لوگ صوبے کے بحرانوں میں کمی کی بجائے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

نوابزادہ لشکری رئیسانی نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے بعد کسی نئی سیاسی جماعت میں شمولیت سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ہم جہاں ہیں وہیں رہیں گے، مگر ہمارے موقف اور جدوجہد میں تبدیلی نہیں آئے گی۔

نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی انتہائی پُرعزم ہیں کہ جہد مسلسل کی بدولت انہیں منزل جلد ملے گی۔ راستے میں طوفان اور بھنور آئیں گے کالی گھٹائیں بھی خوف زدہ کریں گی، مگر مستقل مزاجی سے کی جانے والی جدوجہد ضرور پار لگے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔