ایک اور بجٹ

بجٹ کے اعدادوشمار سے شروع ہونے والی بات کہیں سے کہیں نکل گئی لیکن یہ سب وہ باتیں ہیں جو کسی حکومتی بجٹ سے منسلک ہیں۔


Abdul Qadir Hassan June 15, 2019
[email protected]

اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ایک بار پھر قوم کے سامنے پیش کر دیا گیا ۔ہمیشہ کی طرح اس برس بھی یہی کہا گیا ہے کہ بجٹ سے غریب آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جب کہ وہ لوگ جو اس ملک میں ٹیکس نہیں دیتے ان کو لازمی ٹیکس دینا پڑے گا۔

اعدادوشمار کے اس کھیل میں کس کو کیا حاصل ہو گا اس کا علم تو بہت جلد ہو جائے گا کیونکہ جیسے ہی حکومت بجٹ میں عوام کے استعمال کی اشیا پر ٹیکس لگاتی ہے تو ہمارے دکاندار بجٹ کی اسمبلی سے منظوری سے قبل ہی اشیا کے نرخوں میں اضافہ کر دیتے ہیں بلکہ ابھی تک پہلے سے موجود اشیا پر نئی قیمتیں لگانے کا عمل مکمل بھی ہو چکا ہو گا۔

میرا کام سیاست کے موضوع پر تبصرہ کرنا اور کالم لکھنا ہے ۔ صحافت کے پیشے سے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے وابستہ ہوں اور میرا اوڑھنا بچھونا اور روزی روز گار کا بنیادی ذریعہ یہی پیشہ ہے۔ میں کوئی معاشی تجزیہ نگار نہیں ہوں کہ حکومت کی جانب سے بجٹ پر اپنی رائے دے سکوں کیونکہ مجھے معیشت کی کوئی شد بد نہیں ہے۔ البتہ میں ایک پاکستانی شہری ضرور ہوں جس کی ضروریات اس ملک میں دوسرے رہنے والے شہریوں کی طرح ہیں مجھے بھی گھر کا راشن خریدنا ہوتا ہے اور حکومت کی جانب سے موصول ہونے والے ظالمانہ بل بھی ادا کرنے ہوتے ہیں ۔

اگر میں بل ادا کرنے سے انکار کردوں تو متعلقہ محکموں والے اپنی فراہم کردہ سروس فوری منقطع کر دیتے ہیں جب کہ راشن کے بغیر گھر میں فاقے ہوتے ہیں۔ میری یہ دونوں مجبوریاں ہیں اور ان سے مفر نہیں ہے اس لیے مجھے بھی ہر سال بجٹ کا اتنا ہی انتظار ہوتا ہے جتنا کہ ایک عام پاکستانی کو ہوتا ہے کیونکہ میں نے بھی اپنے روزمرہ اخراجات کا حساب کتاب رکھنا ہوتا ہے تا کہ کسی مشکل کے بغیر ایک آسان زندگی گزار سکوں۔

مجھے بھی بجٹ متاثر کرتا ہے جہاں تک غریبوں کے بجٹ کی بات ہے تو اب صورتحال یہ ہے کہ اس ملک میں دو ہی طبقے بچ گئے ہیں جن میں سے ایک بہت امیر لوگ ہیں جن کو کوئی بجٹ متاثر نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان کو خبر ہوتی ہے کہ بجٹ کب پیش ہوا اور اس میں حکومت نے عوام کے ساتھ کیا سلوک کیا کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو اشرافیہ کہلاتاہے اور یہ لوگ خریداری کے وقت قیمت نہیں پوچھتے بلکہ اپنے کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کر دیتے ہیں اور ان کے کریڈٹ کارڈ کے بل ان کاکوئی ملازم جا کر بینک میں جمع کرا دیتا ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو کوئی سروکار نہیں کہ ملک کے عوام کے ساتھ کیا بیت رہی ہے ۔

دوسرا متوسط طبقہ ہے جس کو اس اشرافی طبقے نے اس قدر مار ماری ہے کہ وہ متوسط طبقہ سے اب غریب طبقے میں شامل ہو چکے ہیں اور کچھ عرصہ پہلے تک متوسط طبقے کے لوگ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی کوشش کرتے تھے جو کہ اب معاشی حالات کی وجہ سے سفید پوش سے غربا میں شامل ہو چکے ہیں اور انھوں نے اپنی سفید پوشی کو ترک کر دیا ہے اور حالات کو قبول کرتے ہوئے جیسے تیسے کر کے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

میں جب اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو وہ لوگ جو کبھی ایک خوشحال زندگی بسر کرتے تھے ان کے گھروں میں آسودگی تھی ان کے پاس اچھی گاڑی اور ان کے بچے نسبتاً شہر کے معقول تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے تھے اب ان کے حالات بدل چکے ہیں۔ سب سے پہلے تو مشترکہ خاندانی نظام کو ٹھوکر لگی اور گھر کے ایک فرد کے کمانے کا تصور ختم ہوا کیونکہ وقت کے ساتھ مہنگائی اور ملک کے معاشی حالات کی وجہ سے اخراجات اس قدر بڑھ گئے کہ مشترکہ گھروں میں ایک خاندان کے طور پر رہنے والوں نے پہلے تو اپنے چولہے الگ کیے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے بزرگوں سے اپنا وراثتی حصہ وصول کر کے بڑے گھروں سے چھوٹے گھروں میں منتقل ہو گئے ۔ مشترکہ خاندانی نظام کی جو برکت تھی وہ ختم ہو گئی اور نفسا نفسی کے اس دور میں بھائی بھائی سے باپ بیٹے سے اور ماں جس نے ان کو اپنی کوکھ سے جنا تھا اولاد اس سے علیحدہ ہو گئی۔

ایسا کیوں ہواکہ ہمارے ہاں سے برکت ہی اٹھ گئی اس کی وجہ وہی رہی کہ ہمارے امیر ملک کو ایسے لوگ چمٹ گئے جنھوں نے اپنی تجوریاں تو بھر لیں لیکن عوام کی تجوری خالی کر دی اور ملک کو غریب کر دیا ۔ عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے نام پر ایسے ایسے اقدامات کیے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی سادہ لوح پاکستانی اپنے عیاش حکمرانوں کا شکار بن گئے اور آرام طلبی نے ان کو کہیں کا نہ چھوڑا۔

مجھے کل کی طرح یہ بات یاد ہے کہ اسی لاہور میں جس میں اب ایئر کنڈیشنر کے بغیر گزارہ ممکن نہیں یہاں پر ہم کشادہ گھروں میں صحن میں اور اندرون شہر میں لوگ چھتوں پر سوتے تھے اور ٹھنڈی اور صحت بخش ہوا کے جھونکے نصیب ہوتے تھے مگر اب یہ حال ہے کہ کشادہ گھروں میں رہنے والے دروازے بند کر کے بند کمروں میں ایئر کنڈیشنر چلا کر سونے کے عادی ہو چکے ہیں اور اگر اپنے بچوں کو بچپن کی کوئی ایسی بات سنائی جائے تو وہ یقین ہی نہیں کرتے بلکہ اس کو الف لیلوی داستان سمجھتے ہیں۔

بجٹ کے اعدادوشمار سے شروع ہونے والی بات کہیں سے کہیں نکل گئی لیکن یہ سب وہ باتیں ہیں جو کسی حکومتی بجٹ سے منسلک ہیں اور عوام ان پر صدقناً و آمناً آمین کرنے پر مجبور ہیں۔ میں نے تو حکومت کے بجٹ کو مان لیا ہے آپ بھی کڑھنے کے بجائے اس کو مان لیں اور اگر نہیں بھی مانیں گے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی اور آپ کی دہائی کون سنے گا کیونکہ حکومت کے پاس عوام کی آواز سننے والے کان اور ان کے حالات دیکھنے والی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ عوام کی حالت صرف اللہ تعالیٰ کی ذات دیکھتی ہے اور وہی مسبب الاسباب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں