صرف بالغان کے لیے

کہتے ہیں گیا وقت پلٹ کر نہیں آتا، مگر ہمارے ہاں مارشل لاء کی صورت میں کئی دفعہ پلٹ چکا ہے۔


توقیر چغتائی June 15, 2019

اسی کی دہائی میں انگریزی فلموں کا دور دورہ تھا۔ کچھ سینماؤں میں ساٹھ اور سترکے دور کی انگریزی فلمیں بھی چلتی تھیں اورکچھ پر نئی آنے والی فلموں کے ٹریلرکئی ہفتے قبل ہی دکھانا شروع کر دیے جاتے تھے۔

جاسوسی، رومانوی اور جنگی فلمیں دیکھنے والے فلم بینوں کے الگ الگ گروپ ہوتے جو چھٹی والے دن اپنی اپنی پسندکی فلم دیکھنے کے لیے ٹولیوں کی شکل میں سینماؤں کا رخ کرتے۔ بازار بند ہونے کے باوجود اتنی بھیڑ ہوتی کہ چھوٹی چھوٹی سڑکوں پرکسی جلسے یا جلوس کا گمان ہوتا ۔ بھیڑ میں ایسے کم عمر لڑکے بھی شامل ہوتے جو جوان ہونے سے قبل ہی جوانوں جیسی حرکتیں کرتے ہوئے ایسے سینماؤں کا رخ کرتے جن پر رومانوی فلموں کے بور ڈ آویزاں ہوتے اور جلی حروف میں ''صرف بالغان کے لیے'' درج ہوتا۔

ویسے تو ساٹھ کی دہائی کے بعد بننے والی تقریبا ہر انگریزی فلم اس جملے کی محتاج دکھائی دینے لگی تھی، مگر جن بدنام زمانہ سینماؤں پر دکھائی جانے والی فلموں میں انگریزی عشق کی آگ دل کے ساتھ دماغ کو بھی بھسم کر سکتی تھی ان کے نیم عریاں پوسٹرز پر یہ جملہ ضرور درج ہوتا تھا اس کے باوجود لڑکے بالے نظر بچا کر یا ٹکٹ بیچنے والے کو دھوکا دے کر سینما ہال میں گھس ہی جاتے تھے۔

زمانہ بدلا اور سینما ٹی وی کی شکل میں ہرگھر کی زینت بن گیا مگر ٹی وی پر چلنے والی فلمیں دیکھتے وقت شرمانے یا گھبرانے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس نہ ہوتی کہ گیت گاتے ، اچھلتے کودتے ہیرو اور ہیروئن کوسوں دور سے دوڑتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف انتہائی جذباتی انداز میں تو بڑھتے لیکن قریب آ کر یوں چپ چاپ کھڑے ہو جاتے جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہی نہ ہوں ۔ موجودہ فلموں کے ہیرو ہیروئن کی طرح نہ تو بلاوجہ اُن کے ہاتھ پیر چلتے اور نہ ہی ہونٹوں اور آنکھوں سے غیر ضروری مشقت لی جاتی تھی۔ رات کے وقت ایک آدھ انگریزی فلم بھی ٹی وی پر دکھائی جاتی مگر اسے اتنی مہارت سے سینسر کیا جاتا کہ کوتاہ لباس چہرے بھی با لباس و با حیا دکھائی دیتے ۔

وقت نے پلٹا کھایا اور وی سی آر کے ذریعے غیر ملکی فلمیں دیکھنے کا دور شروع ہوا، مقامی فلم انڈسٹری تباہی کی طرف گامزن ہوئی اور انڈین فلموں پر پابندی کے باوجود دبئی کے راستے وی سی آر پر وڈیو کیسٹ کی ایسی یلغار ہوئی کہ فلم بینوں کا معیار ہی بدل گیا۔ اس دور میں جہاں وجنتی مالا، نرگس، مینا کماری اور مدھو بالا کی یاد میں آہیں بھرنے والی نسل کو کچھ قرار نصیب ہوا وہاں ایسی نسل بھی وجود میں آئی جو زینت امان، ریکھا اور پروین بوبی کی دیوانی بن گئی اور اگلی نسل چولی کے پیچھے کیا ہے '' اور '' چما چما دے دے چما'' تک جا پہنچی ۔

پھر وقت نے کیبل کے زمانے میں قدم رکھا اور ہالی ووڈ کے ساتھ بالی ووڈ اس شان سے گھروں میں داخل ہوا کہ ہم اسے روک ہی نہ پائے اور نہ روکنے کی سکت رکھتے تھے اس لیے کہ کچھ لوگوںنے صدیوں پرانی ثقافت، لوک رقص ، موسیقی اور گیتوںکو مذہب کے منافی قرار دے کر ''لوک ورثہ '' کی دیواروں میں قید کر دیا اور اجنبی دیسوں کی ثقافت کو نوجوان ذہنوں کے ساتھ دھما چوکڑی کی کھلی چھٹی دے دی ۔ اب گھروں میں چلنے والی فلموں پر سینما میں چلنے والی فلموں کی طرح '' صرف بالغان کے لیے'' لکھا ہوا تو ملنا مشکل تھا ہاں اُس کی جگہ +18 ضرور لکھا ہوتا، مگر بہت کم فلم بین ہی جانتے تھے کہ اس کا مطلب کیا ہے اور جس ملک میں یہ فلمیں بنی ہیں وہاں اس پر کتنی سختی سے عمل ہوتا ہے۔ جب گھروں میں افراتفری کا دور شروع ہوا تو بزرگ بچوں سے، جوان بوڑھوں سے اور شوہر بیویوں سے ریموٹ کے ساتھ نظریں بھی چرانے لگے۔

وقت کے ساتھ میڈیا نے بھی ترقی کی اور نئی صدی نے ہمارے لیے دنیا بھرکی خبروں اور مقامی سیاست میں بحث و مباحثہ کے دروازے کھول دیے۔ سیاست دانوں کا وہ انداز بدلنے لگا جو پی ٹی وی سے شروع ہوا تھا اور سیاسی پارٹیوں کی گفت گو، لڑائی جھگڑے ، باہمی الزام تراشی اور گلے شکوے سے ہوتی ہوئی گالم گلوچ تک جا پہنچی۔

سیاست کے طالب علم خوب جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں ملک کو طویل آمریت کے بعد جمہوریت کا منہ دیکھنا نصیب ہوا تو اسمبلی میں بیٹھے حزب اختلاف کے ممبران نے نظریاتی اختلافات کے باوجود نہ تو کبھی حکومتی اراکین پر اوچھے وار کیے اور نہ ہی ایک دوسرے پر ایسے الزامات عائد کیے جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا تھا ۔ باہمی رضامندی سے ملک کا پہلا آئین بھی وجود میں آیا اور ملکی تعمیر و ترقی کا پہیہ بھی تب تک گردش میں رہا جب ایک طالع آزما نے منتخب وزیر اعظم کو تختہ دار پر نہ کھینچ دیا۔ وقت نے دو تین بار چھلانگ لگائی اور نئی صدی کے شروع میں سرکاری ٹی وی کے مقابلے میں نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا مگر سیاسی گفتگو کا انداز نہ نواب زادہ نصراللہ اور مفتی محمود جیسا رہا نہ ولی خان اور پروفیسر غفور جیسا اور نہ ہی بزنجو اور شیر باز مزاری جیسا تحمل کہیں نظر آیا۔

کہتے ہیں گیا وقت پلٹ کر نہیں آتا، مگر ہمارے ہاں مارشل لاء کی صورت میں کئی دفعہ پلٹ چکا ہے۔ ملک میں کچھ ایسی طاقتیں بھی موجود ہیں جو گئے وقت کے ساتھ آنے والے وقت کو بھی مٹھی میں قید کرنے کا فن خوب جانتی ہیں۔ ایسی ہی طاقتوں نے وقت کو دھوبی پٹڑا لگایا تو دھرنے کی شکل میں سیاسی سرکس کا آغاز ہوا اور بازاری گفتگو نے گلی محلے سے منہ موڑ کر نجی ٹی وی چینلزکو اپنا مسکن بنا لیا ۔ چور، بے ایمان، دغا باز، غدار، مکار ، جھوٹھا، فریبی اور ان سے ملتے جلتے تقریبا تمام غیر مہذب الفاظ اتنے تواتر سے دہرائے گئے کہ ماں باپ کو بچوں کی تربیت کے لالے پڑ گئے اور انگریزی فلموں پر بے حیائی کی تہمت دھرنے والے شرفا ٹی وی کی اسکرین پر سیاسی اکھاڑے کے دوران +18 کی ضرورت محسوس کرنے لگے۔

دنیا بھر کے فلمی اور سیاسی ادارے وقت کے ساتھ عروج کی طرف بڑھے، مگر ہمارے ہاں ان دونوں اداروں کو اپنی مرضی سے چلانے کی ضد نے زوال کو مزید زوال کی طرف دھکیلا۔ اس زوال نے اب ہماری اخلاقی تباہی کی طرف بھی بڑھنا شروع کر دیا ہے جسے دیکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی ہے کہ صوبائی و قومی اسمبلیوںکے دروازوں پر بھی ''صرف بالغان کے لیے '' تحریر ہونا چاہیے ۔ اس لیے کہ اس دفعہ قوم سے نظریں بچا کر انگریزی فلموں کے شوقین لڑکوں بالوں کی طرح چند ایسے ارکان بھی اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں ، جوبالغ ہوتے ہوئے بھی ذہنی بلوغت سے بہت دور ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں