سبطین خان کی گرفتاری اور پنجاب کا سیاسی منظر نامہ
کیا سبطین خان کی گرفتاری سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کمزور ہوئی ہے؟
نیب نے پنجاب کے ایک اور وزیر سبطین خان کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ پنجاب کے دوسرے وزیر ہیں جو گرفتار ہوئے ہیں۔ پہلے علیم خان گرفتار ہو چکے ہیں۔ انھوں نے بھی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اب سبطین خان نے بھی وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ رہائی کے بعد علیم خان ابھی تک دوبارہ وزیر بننے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ جب کہ انھیں تحریک انصاف میں نہایت اہم حیثیت حاصل ہے۔ سبطین خان کا تعلق میانوالی ہے۔ وہ میانوالی کی سیاست میں بہت اہم ہیں۔ میانوالی عمران خان کا آبائی شہر ہے۔ جب عمران خان پورے ملک سے ہار جاتے تھے تب بھی میانوالی سے جیت جاتے تھے۔ تب سبطین خان عمران خان کے ساتھ نہیں تھے۔ لیکن جیسے جیسے اقتدار عمران خان کے قریب آتا گیا ویسے ہی سبطین خان تحریک انصاف میں شامل ہوئے ۔ سبطین خان کہہ سکتے ہیں کہ وہ 2013میں ہی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے۔ اقتدار تو 2018میں آیا ہے۔ لیکن 2013میں اقتدار تحریک انصاف کی دہلیز پر پہنچ گیا تھا۔
سبطین خان اور علیم خان کی گرفتاری میں میں جہاں یہ مماثلت ہے کہ دونوں اس وقت پنجاب کابینہ کے رکن تھے۔ وہاں دونوں میں یہ مماثلت بھی ہے کہ دونوں مشرف دور میں ق لیگ میں شامل تھے اور چوہدری پرویز الہیٰ کی کابینہ کے رکن تھے۔ دونوں پر اسی دور میں کرپشن کا الزام ہے۔
ایک اور دلچسپ مماثلت یہ بھی ہے کہ سبطین خان بھی علیم خان کی طرح پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار بنے ہوئے تھے بلکہ علیم خان کی نیب میں گرفتاری کے بعد سبطین خان کے اندر یہ خیال مضبوط ہو گیا تھا کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں۔ انھوں نے سخت محنت شروع کر دی تھی۔ وہ پارٹی اجلاسوں میں بھی خود کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ ا ن کا دعویٰ تھا کہ انھیں مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ نجی محفلوں میں وہ یہی ظاہر کرتے کہ ان کے اور وزارت اعلیٰ کے درمیان فاصلہ بہت کم رہ گیا ہے۔ فیصلہ ہو گیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ گرفتاری سے پہلے علیم خان بھی خود کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مضبوط امیدوار ظاہر کر رہے تھے۔ انھیں بھی مقتدر حلقوں کی حمایت حا صل ہونے کی باتیں عام تھیں۔ ان کے حامی بھی کہہ رہے تھے کہ ان کے اور وزارت اعلیٰ کے درمیان فاصلہ کم رہ گیا ہے۔ بس ان کو لانے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔
اس تناظر میں میری پنجاب کابینہ اور ان کے دو تین وزراء سے بھی درخواست ہے کہ وہ وزارت اعلیٰ کا خواب دیکھنا بند کر دیں۔ اب تک کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کر رہا ہے کہ جو بھی عثمان بزدار کے خلاف کام کرنے کی کوشش کرتا ہے، ا س کے ستارے غیر معمولی گردش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ نیب کے نہ صر ف چنگل میں پھنس جاتا ہے بلکہ نیب اسے گرفتار ہی کر لیتا ہے۔ اب تک یہ بھی دیکھنے میں آیا بیچارے وزارت اعلیٰ کا خواب دیکھنے والے اپنی وزارت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کابینہ سے بھی فارغ ہو جاتے ہیں۔ اس تناظر میں باقی دو تین وزیر جو خود کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار کہتے ہیں انھیں کانوں کو ہاتھ لگا کر نہ صرف توبہ کرنی چاہیے بلکہ عثمان بزدار کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر کام کرنا چاہیے۔ انھیں عثمان بزدار کی فوری طور پر نہ صرف غیر مشروط حمایت بلکہ اطاعت کا اعلان کرنا چاہیے۔
چند ماہ قبل پنجاب کے وزیر میاں اسلم اقبال کی سوشل میڈیا ٹیم انھیں وزیر اعلیٰ بنا کر پیش کر رہی تھی۔ ان کے ساتھیوں کی جانب سے انھیں اگلا وزیر اعلیٰ پیش کیا جا رہا تھا۔ گزشتہ ماہ میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ وزارت اعلیٰ کب مل رہی ہے تو انھوں نے کہا، نہیں بھائی نہیں۔ میں کوئی ا میدوار نہیں ہوں۔ میرے چند حامی اور دوست یہ سوشل میڈیا پر کہہ ر ہے تھے، میں نے انھیں سختی سے منع کر دیا ہے بلکہ انھیں سختی سے کہا کہ ایسی تمام پوسٹیں ڈیلیٹ کر دیں۔ میں کوئی امیدوار نہیں''۔ لگتا ہے میاں اسلم اقبال نے حالات کو بھانپ لیا ہے۔ باقی دوستوں کو بھی یہی مشورہ ہے کہ حالات کو سمجھیں اور عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ آپ دیکھیں چوہدری پرویز الہیٰ جیسا جہاندیدہ سیاستدان بھی عثمان بزدار کے ساتھ کھڑا ہے بلکہ وہ عثمان بزدار کے سب سے بڑی حامی بن چکے ہیں۔ ایسے میں تحریک انصاف کے نادان دوستوں کو بھی سمجھنا چاہیے۔عثمان بزدار کے ناقدین بھی اب ان کی حمایت میں آچکے ہیں۔ ان کی کارکردگی کے حوالے سے ابہام بھی دور ہو گیا ہے بلکہ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کے موازنے میں عثمان بزدار آگے آگئے ہیں۔ حال ہی میں گیلپ سروے نے اس حقیقت کی تصدیق بھی کی ہے۔
آج کل گورنر پنجاب چوہدری سرور بھی سیاسی مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ انھیں نیب سے تو کوئی مسلہ نہیں لیکن افواہیں اور قیاس آرائیاں یہی ہیں کہ عمران خان ان سے خوش نہیں ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب چوہدری سرور بیرون ملک دورے پر چندہ جمع کر رہے تھے تب بھی ایسی خبریں عام ہوئی کہ وزیر اعظم ان سے ناراض ہو گئے تھے جس کے بعد بہت مشکل سے معاملات درست ہوئے ۔ چوہدری سرور نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ جب تک وہ گورنر ہیں ، وہ اپنی این جی او کے لیے فنڈ ریزنگ نہیں کریں گے۔اب دوبارہ رمضان کی بڑی بڑی افطاریاں سامنے آگئی ہیں۔ وہ وضاحت دے رہے ہیں کہ ان افطاریوں پر کوئی سرکاری فنڈز استعمال نہیں ہوئے ہیں تا ہم افواہیں یہی کہ وزیر اعظم کا موڈ اچھا نہیں تھا لیکن حالات بہتر ہوگئے ہیں۔ چوہدری سرور کو احساس ہے کہ ہر ناراضی ان کی سیاست کے لیے اچھی نہیں ہے۔ ایک وقت تھا ، جب انھیں پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے طاقتور سمجھا جاتا تھا۔لیکن آج منظر نامہ بدل چکا ہے۔ اب انھیں سردار عثمان بزدار کی سیاسی حمایت کی بھی ضرورت ہے۔
کیا سبطین خان کی گرفتاری سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کمزور ہوئی ہے؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ ایک جواب تو یہ بھی ہے کہ کیا علیم خان کی گرفتاری سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کمزور ہوئی تھی؟ اگر عثمان بزدار کی پنجاب حکومت علیم خان کی گرفتاری کے بعد کمزور نہیں ہوئی تو سبطین خان کی گرفتاری سے کیسے کمزور ہوگی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عثمان بزدار مضبوط ہو گئے تھے اور سبطین خان کی گرفتاری سے مزید مضبوط ہو گئے۔ آج علیم خان دوبارہ کابینہ میں شمولیت کے لیے کوشاں ہیں۔ ویسے تو عمومی تاثر یہی ہے کہ عثمان بزدار علیم خان کے دوبار ہ وزیر بننے کے حق میں ہیںنہ عمران خان۔ علیم خان کے دوبارہ وزیر بننے کی راہ میں تحریک انصاف کا یہ موقف بھی رکاوٹ ہے کہ جب تک ریفرنس زیر سماعت ہے تب تک دوبارہ کابینہ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی موقف پر بابر اعوان کو کابینہ سے فارغ کیا گیا تھا۔ اور انھیں کہا گیا ہے کہ جب وہ عدالت سے بری ہوجائیں گے تو انہین دوبار ہ کابینہ میں شامل کر لیا جائے گا۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ عثمان بزدار کے مخالفین ان پر شروع میں حاوی کیسے ہو گئے۔ یہ سب سوشل میڈیا کا کمال تھا۔ ان کے مخالفین نے عثمان بزدار کو کمزور کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ جب کہ عثما ن بزدار شریف آدمی ہیں ، انھوں نے کوئی سوشمل میڈیا سیل ہی نہیں بنایا ہوا تھا۔ اس لیے عثمان بزدار کی مدد اﷲ نے کی ہے، وہ اس لڑائی کے لیے تیار نہیں تھے۔