مدارس اصلاحات ضروری ہیں

آج ہمارے مدارس سے فارغ التحصیل اکثر طالب علم مسجد سے نکل کر مسجد کی تلاش شروع کردیتے ہیں


مدارس اصلاحات کو فوری طور پر اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ 2012 عید کے دن کا واقعہ ہے۔ ہم مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے احباب متحدہ عرب امارات کی خوبصورت ترین ریاست العین سے 30 کلومیٹر دور اومان کے بارڈر پر واقع سرحدی علاقے مالاقت میں ایک مہربان کے فارم ہاؤس پر اکھٹے تھے۔ عید کی نماز کے بعد صحرا نوردی سے فارغ ہوکر ہم لوگ ابھی آرام کی غرض سے لیٹے ہی تھے کہ میں نے محسوس کیا گروپ میں شامل ہمارے دو بنگالی دوست آپس میں کسی بحث میں مصروف ہیں۔

ان دونوں بنگالیوں نے آپس میں کچھ مشورہ کیا اور پھر میری طرف آئے۔ میں جو نیم دراز، ادھ کھلی آنکھوں سے پہلے ہی یہ نظارہ دیکھ رہا تھا، چوکنا ہوگیا۔ ''عمران بھائی! دریا میں نہانے کا سنت طریقہ کیا ہے؟'' انہوں نے آتے ہی سوال داغا۔

ایک بار جی میں آیا کہ ان کو صاف جواب دے دوں کہ مجھے نہیں پتہ۔ لیکن پھر میری بزرگی آڑے آئی اور میں سوچ میں پڑگیا کہ ان کو کس طرح ٹالوں کہ میری عزت بھی رہ جائے اور یہ لوگ مطمئن بھی ہوجائیں۔ چند لمحے غور کے بعد میں اٹھ کر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا، ساتھ رکھی ہوئی ٹوپی کو سلیقے سے سر پر سجایا، گلے کو کھنگارتے ہوئے جلالی انداز میں ان سے مخاطب ہوا کہ میرے عزیز، ہم نے بزرگوں سے یہ بات سنی ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ پوچھنا ہو تو اپنے مسلک کے مقامی عالم سے لکھ کر پوچھا جائے اور ان سے گزارش کی جائے کہ لکھ کر اور حوالے سے جواب دیں۔ اگر آپ ہر کسی داڑھی والے سے یا امام مسجد (جو صرف حافظ ہو) سے مسائل پوچھو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے۔

''آپ غصہ نہ کریں، ہم سے غلطی ہوگئی۔'' یہ بات کہہ کر انہوں نے اپنی راہ لی، اور میں نے کلمہ شکر ادا کیا کہ عزت بچ گئی۔ (یہاں میں لوگوں کو متحدہ عرب امارات اوقاف کا نمبر 8002422 دے دیتا ہوں، جہاں مفتی صاحب عربی، انگلش اور اردو میں رہنمائی کےلیے موجود ہوتے ہیں)۔

میری طرح اگر آپ نے بھی سنت رسولؐ رکھی ہوئی ہے، زیادہ نہیں صرف نماز پنجگانہ ادا کرتے ہیں اور لوگوں کی آپ تک باآسانی رسائی ہے تو امید ہے کہ آپ کو بھی اکثر و بیشتر اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اگر آپ غیرجانبداری سے اس صورتحال کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ ہمارے مدارس کی موجودہ صورت اس کی ذمے دار ہے۔ ''آج ہمارے مدارس سے فارغ التحصیل اکثر طالب علم مسجد سے نکل کر مسجد کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔'' یہی وجہ ہے کہ وہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہوجاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ مسائل کےلیے میرے جیسے نیم ملاؤں سے رجوع کرتے ہیں، جو ایک خطرناک صورتحال ہے۔

اگر ڈی جی آئی ایس پی آر کی مدارس کے متعلق اصلاحات (جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ ماہ میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا) پر من و عن عملدرآمد ہوجائے تو بڑی حد تک اس قسم کی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے گا۔ کیونکہ ان اصلاحات کی بدولت مدارس کے طالب علم قومی دھارے میں شامل ہوجائیں گے۔

آپ ذرا تصور کیجیے! جب ایک عالم دین یا ایک مفتی آپ کے آفس میں آپ کے ساتھ اکاؤنٹنٹ، اسٹینو، یا بطور آفس انچارج کام کررہا ہوگا، یعنی آپ کو اپنے مسائل کے حل کےلیے اس کے ''حجرۂ خاص'' تک، وقت کو فارغ کرکے نہ جانا پڑے تو آپ کیونکر ایک غیر عالم سے اپنے مسائل پوچھیں گے۔ اس لیے میری حکومت سے عاجزانہ التماس ہے کہ مدارس اصلاحات کو فوری طور پر اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جائے، اور مدارس کے نام نہاد ہمدردوں سے جو اس فیصلے کی مخالفت کررہے ہیں، گزارش ہے خدارا! آپ حضرات بھی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ان اصلاحات کی حمایت کریں۔ کیونکہ آپ نادانستہ طور پر مدارس سے دشمنی کررہے ہیں۔

البتہ آپ کے جو جائز تحفظات ہیں، ان کو مناسب طریقے سے حکومت کے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں