تبدیلی کا نعرہ تعلیم وصحت کے بجٹ میں کمی
صرف ایک اچھی خبر یہ ہے کہ شرح خواندگی ایک فیصد سے کچھ بڑھ گئی ہے، یعنی تریسٹھ فیصد ہو گئی ہے۔
HYDERABAD:
تعلیم و صحت کے بجٹ میں کمی کر دی گئی ۔ مراعات یافتہ طبقے کو ایک انکم ٹیکس کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اساتذہ اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا مگر انکم ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی۔ مزدوروں کی کم سے کم تنخواہ محض 17500 مقرر ہوئی۔
مہنگائی آسمان تک پہنچ گئی ،تحریک انصاف کا منشور پسِ پشت چلا گیا۔صرف ایک اچھی خبر یہ ہے کہ شرح خواندگی ایک فیصد سے کچھ بڑھ گئی ہے، یعنی تریسٹھ فیصد ہو گئی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب بھی سینتیس فیصد لوگ ناخواندہ ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان خواندگی کے لحاظ سے بھارت ، سری لنکا ، بنگلہ دیش اور مالدیپ سے پیچھے ہے۔
وفاقی بجٹ کا کل حجم 949896 بلین ہے۔ اس میں تعلیم کا حصہ 33780بلین ہے،گزشتہ سال اس مد میں 42776بلین روپے رکھے گئے تھے اس طرح صحت کے شعبے کے لیے 12671ملین روپے رکھے گئے ہیں گزشتہ سال کے بجٹ میں 29999ملین روپے رکھے گئے تھے۔اس سال کے شروع میں بھارت کے زیر کنٹرول علاقے پلوامہ میں فوجی قافلے پر حملہ ہوا تو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک کشیدگی کی صورتحال پیدا ہوئی تو حکومت نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے گزشتہ سال کے بجٹ میں تعلیم اورصحت کی مد میں مختص رقم میں کٹوتی کر لی۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اپنے کئی پروگرام منسوخ کرنے پڑگئے تھے۔
جنرل پرویز مشرف کے مشیر تعلیم اور ہائیرایجوکیشن کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطاالرحمن نے صدر پاکستان کے نام ایک خط میں ان پروگراموں کے منسوخ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ سگریٹ اور مشروبات پر ٹیکس عائد کیا جائے گا اور یہ رقم سہولتوں کو بہتر بنانے پر خرچ ہوگی مگر شاید ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دباؤ زیادہ تھا کہ بجٹ میں ٹیکس کو شامل نہیں کیاگیا۔
پاکستان تعلیم اور صحت کے شعبوں میں گزشتہ ستر سالوں سے پسماندہ ہے۔انگریزوں کے دور میں جس رفتارسے شرح خواندگی بڑھی تھی، آزادی کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومتیں اس رفتارکو برقرار نہیں رکھ سکیں۔ 1947سے 1972تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے صحت اور تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا، یوں ان دونوں شعبوں کو منافع کمانے والے لوگوں کے سپرد کردیا گیا۔ ان ادوار میں سرکاری کالج ، اسکول بہت کم تعداد میں قائم ہوئے، بڑے شہروں میں غیر سرکاری ادارے قائم ہوئے ، رفاحی اداروں نے بھی غیر سرکاری ادارے قائم کرنے میں کافی مدد فراہم کی۔ مگر انھیں چھوٹے دیہاتوں وشہروں میں کوئی کشش نظر نہیں آئی۔
نجی تعلیمی اداروں نے والدین سے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کیا اور اساتذہ کا بد ترین استحصال شروع کردیا ۔ پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت نے تعلیم اور صحت کو ریاست کی ذمے داری قرار دیا، یوں تعلیمی ادارے قومیائے گئے ان تعلیمی اداروں کے قومیانے سے اساتذہ کے حالات تو بہتر ہوئے مگر سیاستدانوں اور بیوروکریسی نے تعلیمی شعبے کو ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں تبدیل کردیا، نااہل لوگ استاد کے منصب پر فائض ہوئے،غیر حاضر اساتذہ کا ادارہ وجود میں آیا یوں وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جس کی توقع تھی۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں نجی اداروں نے اسکولوں اور کالجوں کے علاوہ یونیورسٹیاں بھی قائم کیں ،امراء کے لیے یورپی یونیورسٹی کی ڈگریاں ملک میں ہی میسر آنے کے مواقعے پیدا ہوئے مگر پھر نجی تعلیمی اداروں کی لوٹ مارکا سلسلہ شروع ہوگیا ۔
جنرل مشرف کے دور میں عالمی بینک کی امداد سے یونیورسٹی گرانٹ کا مشن ہائیر ایجوکیشن میں تبدیل ہوا، ملک میں یونیورسٹیوں کا جال بچھایا گیا ۔ایچ ای سی نے یونیورسٹیوںکے معیار کی بہتری کے لیے قابل ستائش اقدامات کیے،ایچ ای سی نے نصاب کو بہتر بنانے،اساتذہ کی ٹریننگ کے ورکشاپ کے انعقاد، پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملک و بیرون ملک میں اسکالرشپ کے اجرا اور یونیورسٹیوں کے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے اربوں روپے مختص کیے۔یونیورسٹیوں میں نئے شعبے قائم ہوئے اور ملک کے دور دراز علاقوں میں یونیورسٹیوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے لوگوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا،ایچ ای سی کے اس رویے سے یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوا۔
گزشتہ حکومت نے خواندگی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کئی پروگرام شروع کیے،وفاقی حکومت کی مدد سے دوردرازعلاقوں میں اسکولز کے قیا م کا سلسلہ شروع ہوا مگر اس دوران تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم بہت کم تھی اور پاکستان تعلیم کے شعبے میں دنیا سے بہت پیچھے بھی تھا مگر اب تعلیم کے شعبے میں بجٹ کی کمی سے اور منفی نتائج سامنے آئیں گے ۔وفاقی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ترقیاتی پروگراموں کے صرف 29بلین روپے مختص کیے ہیں۔اس فنڈ میں صرف دو نئی یونیورسٹیوں کا قیام جب کہ بقیہ پرانی یونیورسٹیوں میں ہی نئے شعبوں کے قیام کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلا ن کیا تھا مگر بجٹ کی دستاویزات میں ایک وفاقی انسٹیوٹ کے لیے49 بلین روپے رکھے گئے۔ بظاہر بجٹ کے دستاویزات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وفاقی حکومت حیدرآباد میں ایک مکمل یونیورسٹی کے بجائے اعلیٰ تعلیم کا کوئی انسٹیوٹ بنانے کا خیال ہی رکھتی ہے۔یہ خبر حیدرآباد کے شہریوں اور تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے لیے یقینا مایوس کن ہو گی ۔
وفاقی حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں کمی کی ہے، اب ایچ ای سی کی بیرون ملک اسکالرشپ کی اسکیم موخر ہوجائے گی۔امریکا اور یورپ میں اسکالرشپ کے زریعے تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم اس خوف کا شکار ہیں کہ حکومت ان کی اسکالرشپ کی گرانٹ کو روک دے گی۔ ایچ ای سی نے اساتذہ کی تربیت کے لیے جو پروگرام شروع کیے تھے وہ سب بند کر دیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بجٹ میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے کسی نئے منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔بچوں کو جبری مزدوری اور بیگار سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں اسکولوں میں داخل کرایا جائے۔بچوں اور ان کے والدین کو فری تعلیم کے ساتھ مفت یونیفارم ،کتب اور کھانے کی سہولیات ہی اسکول کی جانب راغب کرسکتی ہیں۔عمران خان جس طرح گزشتہ تیس سالوں سے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا کرتے تھے اور حکمرانوں کی نااہلی پر گرما گرم تقریریں کیا کرتے تھے اس سے ہزاروں نوجوان متاثر ہوئے مگر عمران خان کی حکومت یہ بجٹ تو ماضی کی حکومتوں کی یاد دلا رہا ہے ۔
شعبہ صحت کی صورتحال اس سے بھی بدتر ہے پورے ملک میں سرکاری اسپتالوں کی بہت کمی ہے، صرف اسلام آباد کے اسپتالوں کا جائزہ لیاجائے تو یہ حقیقت بار بار آشکار ہوتی ہے کہ شمالی علاقہ جات کشمیر اور پنجاب کے بہت سارے علاقوں مثلا،اٹک،چکوال،راولپنڈی،جہلم، میانوالی اور بھکر تک کے لوگ اسلام آباد کے اسپتالوں میں آتے ہیں۔ان اسپتالوں میں بیڈز،دوائیوں اور ڈاکٹروں کی کمی پائی جاتی ہے بعض اوقات تو ایک بیڈ پر کئی مریض لیٹے نظر آتے ہیں، پھر حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ ان اسپتالوں میں علاج کی سہولیات مفت ہیں مگر عملی طور پر تو کچھ اور ہی نظر آتا ہے ،ان اسپتالوں کے اسٹورز پر دوائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے لوگ دوائیاں نجی میڈیکل اسٹورز سے خریدنے پر مجبور ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ لیبارٹریوں کی سہولت بھی نہ ہونے کے برابر ہے مریض اپنے ٹیسٹ باہر سے کرانے پر مجبور ہیں اور جو مریض باہر سے ٹیسٹ کرانے کی سکت نہیں رکھتے انھیں ٹیسٹ کرانے کے لیے کئی کئی گھنٹے لائن میں کھڑے رہنا پڑتا ہے ۔ان مسائل کا حل یہ ہے کہ پہلے تو اسلام آباد میں اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ شمالی علاقہ جات اور پنجاب کے کے قریبی اضلاع میں جدید قسم کے اسپتال قائم کیے جائیں ۔
وفاقی حکومت نے صوبہ سندھ کے تین اسپتالوں کا انتظام سنبھال لیا ہے یہ اسپتال وفاقی حکومت نے قائم کیے تھے مگر اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومت کے حوالے کر دیے گئے تھے مگر سندھ حکومت کے زیراہتمام اسپتالوں کی کارکردگی خاصی مایوس کن تھی ۔مریضوں کو ادویات،آپریشن کے سامان اور فیسٹو کے لیے باہر رجوع کرنا پڑتا تھا ۔ان میں ایک امراض قلب کا قومی ادارہ(NIC) بھی ہے اس میں تو بعض اوقات ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ اگر کوئی خاتون اپنے والد یا والدہ کو دل کا دورہ پڑنے پر لائی ہے اور مریض کو فوری جان بچانے کے لیے انجیکشن کی ضرورت ہے تو اس خاتون کو اپنی انگوٹھیاں اور بالیاں کیمسٹ کے پاس گروی رکھوانی پڑ جاتی تھیں مگر اٹھاریوں ترمیم کے بعد یہ اسپتال سندھ حکومت کے پاس آئے تو ان کی کارکردگی بہت بہتر ہوگئی مریضوں کو ادویات کے ساتھ ساتھ کھانا بھی مفت مہیا ہونے لگا۔
انجیوپلاسٹی اور بائی پاس جیسے مہنگے آپریشن مفت ہونے لگے بہت سارے ڈاکٹروں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ اسپتال شہر کے بہت سے دوسرے مہنگے اسپتالوں سے بہتر ہوگئے ہیں مگر اب وفاقی حکومت نے دوبارہ ان اسپتالوں کے انتظامات سنبھال لیے ہیں۔اب جب کہ وفاقی حکومت نے صحت کے بجٹ میں کمی کر دی ہے تو ظاہر ہے اس کمی سے یہ تینوں اسپتال براہ راست متاثر ہونگے ۔اب کراچی کے شہریوں کو یہ خوف ہے کہ ان اسپتالوں کے حالات ماضی جیسے ہوجائیں گے جس کا سب سے زیادہ نقصان مریضو ں کو ہوگا۔
وفاقی بجٹ میں تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کمی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اور ماضی کی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔تبدیلی کا نعرہ محض ایک ڈھونگ تھا۔