پابندیاں اور مسائل
ادھر کرک میں خواتین کی بازار آمد پر پابندی کے معاملے نے آگ پکڑ لی ہے۔
ان دنوں ہمارے وطن عزیز میں پابندیوں کا زور و شور ہے۔ ان میں شرعی و غیر شرعی اور قانونی و غیر قانونی کی بحث میں پڑے بغیر ہمارا نقطہ نظر صرف پابندیوں پر ہے۔ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے۔ شرعی معاملات میں فیصلے کا اختیار مفتی صاحبان کا، قانونی حدود کا معاملہ قانون دانوں کا اور عوامی سطح کے معاملات کا اختیار عوام رکھتے ہیں جب کہ ہمارا مقصد ان معاملات کو ہائی لائٹ کرنا ہے کہ اس وقت ہمارا معاشرہ کس جانب رواں دواں ہے۔
عوامی سواری ''موٹرسائیکل'' پر پابندی۔ جب کبھی بھی ملک کے کسی حصے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے تو فوراً موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں غریب سوار متاثر ہوتے ہیں اور ٹرانسپورٹ مافیا کی چاندی ہو جاتی ہے۔ سابق وزیر داخلہ موبائل فون سروسز پر بھی پابندی لگا دیتے تھے۔ تادم تحریر نئی حکومت آنے کے باوجود موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی برقرار ہے اور اب تک جتنے بھی بڑے دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ان میں موٹر سائیکل کا ہاتھ نہیں ہے۔
گزشتہ حکومت کا یو ٹیوب پر پابندی کا فیصلہ، بطور مسلمان اس کی حمایت سب کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں17فروری2012 کو یو ٹیوب بلاک کردی گئی تھی۔ ہنوز یہ پابندی برقرار ہے۔ اطلاعات ہیں کہ عنقریب تمام تر اقدامات اٹھانے کے بعد یو ٹیوب پر سے پابندی ہٹادی جائے گی۔ دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر حضرت عبداﷲ شاہ غازیؒ سمیت ریڈ زون میں دیگر 3 مزاروں مہدی شاہ، عالم شاہ بخاری اور حضرت سید سخی سلطان شاہ بخاری مزاروں پر تین دن کے لیے تالے ڈال کر پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے تھے۔ کئی دہائیوں سے ناداروں کے لیے جاری لنگر بند کر دیا گیا تھا۔ پابندی23 تا 25 نومبر 2012 تک لگائی گئی تھی۔
جنوری تا جولائی2013 تک کی پابندیاں ملاحظہ کریں۔ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں کالعدم لشکر اسلام کے امیر منگل باغ نے نسوار خریدنے اور بیچنے پر پابندی عائد کر دی۔ انھوں نے کہا نسوار کھانا اور سگریٹ نوشی غیر اسلامی اور غیر شرعی اور حرام ہے۔ اگر پابندی کے بعد کوئی شخص نسوار کھانے یا اس کی خرید و فروخت میں ملوث پایا گیا تو اسے5 کوڑے سزا دی جائے گی۔ انھوں نے خواتین کے پہاڑی علاقوں سے لکڑیاں اور گھاس وغیرہ لانے پر بھی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
ادھر کرک میں خواتین کی بازار آمد پر پابندی کے معاملے نے آگ پکڑ لی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں حرکت میں آ گئیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے پابندی کو خلاف قانون قرار دیا تھا۔ علما نے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کے دوران رشتے دار مرد کے بغیر عورت کی بازار آمد پر پابندی لگانے کی سفارش کی تھی اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں حرکت میں آ گئیں۔ ہفتے کی سہ پہر کرک کے25 علما کرام نے مولانا عبدالرحمان اور مولانا سبز علی کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے ملاقات کرتے ہوئے معاملے کی کافی حد تک وضاحت کی اور کہا کہ خواتین کے بازاروں میں جانے کے معاملے میں میڈیا نے ہمارے موقف کو غلط انداز میں پیش کیا ہے اور ہم نے خواتین پر پابندی لگانے کا اعلان نہیں کیا۔
انھوں نے پولیس آفیسر کو تحریری موقف دیتے ہوئے بتایا کہ ہماری کوشش معاشرے سے بے حیائی، فحاشی اور عریانی کا خاتمہ ہے اور ہم نے ضلعی انتظامیہ سے ایسی خواتین کی کڑی نگرانی اور ان پر پابندی لگانے کی سفارش کی تھی جو رشتے دار مرد کے بغیر بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں۔ دریں اثناء ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ خواتین کے بازاروں میں جانے پر پابندی خلاف قانون ہے، کرک میں کسی نے بھی ایسی پابندی نہیں لگائی۔ کراچی: دارالعلوم دیو بند نے الکحل ملے پرفیوم کے استعمال اور جسم پر ٹیٹوز بنوانے کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے کہ جن لوگوں کے جسم پر ٹیٹوز بنے ہوں یا پرفیوم کا استعمال کرنے والے کی نماز صحیح نہیں'
بریلوی مکتب فکر نے بھی اس فتوے کی حمایت کی ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے خواتین کی استقبالیے (ریسیپشن) کی ملازمت کو بھی غیر شرعی قرار دیا تھا۔ سری نگر میں موسیقی کو حرام قرار دینے والا عالم دین موسیقی کا ہی دلدادہ نکلا۔ مقبوضہ کشمیر کے عالم دین علامہ بشیر الدین کی وجہ شہرت ہی موسیقی کو حرام قرار دینے کا ایک فتویٰ ہے لیکن موصوف خود بھی ایک متنازع موسیقی بینڈ کی ساز و آواز پر جھومتے پکڑے گئے۔ حال ہی میں سماجی ویب سائٹ پر انھیں متنازع ''پرکاش بینڈ'' کے موسیقاروں کے جھرمٹ میں بیٹھے ''راک اینڈ رول'' موسیقی سے لطف اٹھاتے دکھایا گیا ہے۔
ادھر صومالیہ میں انتہا پسندوں نے سموسوں کو غیر اسلامی قرار دے کر پابندی لگا دی مگر روزے داروں نے اس پابندی کو ماننے سے انکار کردیا جس پر سموسے ایک بار پھر بازار میں بکنے لگے۔ سال رواں کے شروع میں مصر کے مفتی اعظم علی جمعہ نے داڑھی کی شرعی حیثیت کے حوالے سے فتویٰ جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ داڑھی بڑھانے یا اس کی شیو کرنے کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مفتی جمعہ نے اپنے فتوے میں مصر کے معروف مذہبی عالم مرحوم شیخ محمودش لتوت کے ایک فتوے کا بھی حوالہ دیا تھا۔ جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''لباس اور داڑھی رکھنے یا شیو کرنے سمیت ظاہری جسمانی ہیئت کا عادت سے تعلق ہے اور اس کو ہر کوئی اپنے ماحول کے مطابق اختیار کر سکتا ہے'' انھوں نے اپنے فتوے میں کہا تھا کہ ''اگر کسی کا ماحول کسی خاص رجحان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو اسے وہ اپنا لینا چاہیے۔
ادھر پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام نے مصر کے مفتی اعظم علی جمعہ کے فتوے کو اسلام اور اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ داڑھی کے معاملے میں فقہائے کرام، آئمہ، بزرگان دین اور مفتیان کرام مکمل طور پر متفق ہیں۔ دارالعلوم کراچی کے مہتمم مفتی رفیع عثمانی نے کہا ہے کہ یہ فتویٰ بالکل غلط ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے کہا ہے کہ مصر کے مفتی اعظم کا فتویٰ شریعت کے خلاف ہے۔ امیر جمعیت اہلحدیث پاکستان مفتی عبیداﷲ عفیف نے کہا کہ داڑھی انبیائے کرام کی سنت ہے۔ ترمذی، نسائی، بخاری میں داڑھی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون کی بھی داڑھی تھی۔ بعض مفتیان کرام داڑھی رکھنے کو فرض تک قرار دیتے ہیں۔ مولانا سید علی محمد نقوی نے کہا ہے کہ فقہ جعفریہ میں داڑھی مونڈھنا حرام ہے، جامعۃ الازہر کی جانب سے دیا جانے والا فتویٰ شریعت کے منافی ہے۔
ان دنوں فرانس کے دارالحکومت پیرس کے مضافاتی علاقے ٹریپس میں حجاب کے معاملے پر شروع ہونے والی کشیدگی، بدستور جاری ہے۔ مختلف علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے ہیں، کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب پولیس نے ایک خاتون کو حجاب اتارنے کی ہدایت کی۔ خاتون کے شوہر نے مخالفت کی تو پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا۔ جس کے بعد فسادات پھوٹ پڑے ہیں، واضح رہے کہ فرانس میں عوامی مقامات پر حجاب پر پابندی عائد ہے۔ عالم اسلام حجاب پر پابندی کو انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کو پامال کرنے کے مترادف قرار دیتا ہے۔