ہابئرڈ وار
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ ایک سال میں پاکستان کی صحافت کو بری حالت میں پہنچا دیا ہے۔
آئی ایس پی آر نے شمالی وزیر ستان کے حوالے سے بی بی سی کی ایک متنازعہ خبر پر انھیں ایک احتجاجی مراسلہ بھجوایا ہے۔ اس سے پہلے آئی ایس پی آر اس خبر کی تردید کر چکا ہے جسے بی بی سی نے صحافتی اقدار کے مطابق شایع نہیں کیا۔ اس سے بھی پہلے اس متنازعہ خبر کو شایع کرنے سے پہلے صحافتی اصولوں کے مطابق آئی ایس پی آر کا موقف نہیں لیا گیا۔ بلکہ آئی ایس پی آر کے موقف کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔
کہنے کو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ خبریں شایع ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔ وہ سچی بھی ہوتی ہیں جھوٹی بھی ہوتی ہیں۔ پھر آئی ایس پی آر کو اس ضمن میں اتنا سنجیدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی خبریں عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص اور امیج خراب کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
آج میڈیا کا دور ہے۔ اب جنگیں میڈیا میں لڑی جاتی ہیں۔ اسی لیے میڈیا وار کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ہائبرڈ وار کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ آج دشمن حقیقی جنگ سے پہلے میڈیا اور ہائبرڈ وار شروع کرتا ہے۔ یہ جیتنے کے بعد ہی حقیقی جنگ شروع کی جاتی ہے۔ اس لیے میڈیا وار اور ہائبرڈ جنگ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں اس وقت ریاستی اداروں اور بالخصوص پاک فوج کے خلاف ایک منظم ہائبرڈ جنگ جاری ہے۔ اس ضمن میں بین الاقوامی میڈیا پیش پیش ہے۔ ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے اندر پاک فوج کے حوالے سے بد گمانیوں اور غلط فہمیوں کو فروغ دیا جائے۔ نان ایشوز کو اہم ایشوز بنا کر پیش کیا جائے۔ ایک ماحول بنایا جائے جس میں غلط بات بھی ٹھیک لگنے لگے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے اہل دانش اہل قلم سیاستدانوں نے خود کو اس جنگ سے لاتعلق رکھا ہوا ہے۔ ان کے خیال میں یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس جنگ میں خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔ پاکستان میں چند صحافی ایسے بھی سامنے آئے ہیں جو سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف مہم چلانے کو ہی صحافت سمجھتے ہیں ۔ اس ضمن میں چند نادان دوست یہ دیکھ کر کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا قوانین اور قواعد کے تا بع ہیں اس لیے وہاں ایسی شتر بے مہار آزادی ممکن نہیں، سوشل میڈیا پر چلے گئے ہیں ۔
غیرملکی نشریاتی ادارے پہلی دفعہ پاکستان مخالف پراپیگنڈہ نہیں کر رہے ہیں۔ کس کو یاد نہیں کہ امریکا کے ایک بڑے اخبار نے پاک فوج کے خلاف اشتہار شایع کر دیا تھا جس کی صحافتی اقدار میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ تب بھی پاکستان کی حکومت خاموش تماشائی بنی رہی تھی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج بھی پاکستان کی حکومت ایک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کل بھی عالمی میڈیا کا ہدف پاک فوج تھی آج بھی عالمی میڈیا کا ہد ف پاک فوج ہے۔ کل بھی ہمارے مفاد پسند سیاستدان اس مہم کو پسند کرتے تھے، آج بھی پسند کرتے ہیں۔ کل بھی اس مہم کے تانے بانے بھارت سے ملتے تھے،آج بھی اس مہم کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں۔
بھارت نے ایک مربوط پالیسی کے تحت عالمی میڈیا میں اپنا اثرو رسوخ بڑھایا ہے۔ بھارتی صحافیوں کو عالمی میڈیا میں کام کرنے اور وہاں تک پہنچنے میں سرکاری طور پر مدد فراہم کی گئی ہے۔ بھارت کی حکومت نے ایک پالیسی کے تحت عالمی میڈیا اور بھارت کے درمیان مضبوط کاروباری تعلقات قائم کیے ہیں۔ جن کا واحد مقصد عالمی میڈیا کو بھارت کے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ بھارت کا سب سے بڑا مفاد پاکستان کی مخالفت ہے، اس لیے عالمی میڈیا بھارتی مفادات کے تحفظ میں پاکستان کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ اس تناظر میں ایک سوچ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ہم اس حقیقت کے سامنے سرنڈر کر دیں اور کہہ دیں کہ عالمی میڈیا کی پالیسی ہی ہمارے خلاف بن گئی ہے۔ ہم اس کے سامنے بے بس ہیں۔ اس لیے اس پر کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ کوئی درست سوچ اور حکمت عملی نہیں ہو گی۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ ایک سال میں پاکستان کی صحافت کو بری حالت میں پہنچا دیا ہے، ہم نے عالمی اداروں کا کیا مقابلہ کرنا ہے۔ پاکستان کا اپنا میڈیا سسک سسک کر جی رہا ہے اور تاریخ کے بد ترین مالی بحران کا شکار ہے۔ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دشمن کو شمالی وزیرستان میں امن کی کیوں تکلیف ہے۔ دشمن نے شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے ٹھکانے بنانے اور وہاں اپنے اڈے بنانے کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
دشمن نے ان علاقوں میں اپنے ایجنٹ بنائے ہیں۔ ان کو مقامی سیاست میں اثر و رسوخ دلانے کے لیے لا محدود فنڈز فراہم کیے ہیں۔ اب جب پاک فوج نے ان علاقوں میں دشمن کا اثر و رسوخ ختم کر دیا ہے۔ دہشت گردی ختم کر دی ہے۔ دشمن کی سیاسی بالادستی ختم کر دی ہے تو دشمن کو اپنی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ اسی لیے عالمی میڈیا میں پاک فوج کے خلاف محاذ جنگ کھولا گیا ہے تا کہ پاک فوج کو شمالی وزیرستان سے واپس جانے پر مجبور کیا جائے۔
اس تناظر میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے اس خبر پر رد عمل اور بی بی سی کو احتجاجی مراسلہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے سب اہل دانش اور صحافی اس جھوٹی خبر پرانفرادی حیثیت میں احتجاج کرتے۔ پاکستان کی تمام صحافی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اس پر مشترکہ طور پر احتجاج کرتیں۔ تمام سیاستدان انفرادی طور پر اس پر احتجاج کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ یہاں تو حکومت نے بھی بے دلی سے احتجاج کیا ہے۔