سندھ کا بجٹ محکمہ تعلیم اور بیڈگورننس
اس بجٹ کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے تعلیم کے لیے ریکارڈ رقم مختص کی ہے
کراچی کے ساحل سے متصل قریب بارہ سوکے قریب گوٹھ آباد ہیں ۔ یہ گوٹھ ایک طرف ٹھٹھہ سے ملنے والی ساحلی پٹی ریڑھی سے بلوچستان کے علاقے حب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سارے ساحل کے ساتھ اورکچھ ساحل سے دور ہیں یہ تمام گوٹھ پیپلز پارٹی کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں ، مگر ان گوٹھوں کے مکین تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
اس دفعہ سندھ میں اسکولز وکالجز کے لیے 240ارب روپے مختص کیے گئے۔کیا یہ بجٹ ان گوٹھوں میں مکین لوگوں کے بچوں کے لیے اسکولوں اور کالجوں کا راستہ کھول دے گا۔ سندھ اسمبلی کے اراکین کو بجٹ میں بحث کے دوران یہ سوال ضرور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ سے پوچھنا چاہیے۔ اس دفعہ کے بجٹ میں ایک خصوصی بات یہ ہے کہ اساتذہ کی تنخواہوں اور پنشن میں پندرہ فیصد اضافہ ہوا ہے، یوں سندھ نے وفاق ، کے پی کے اور پنجاب کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔
صوبائی بجٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس دفعہ جامعات کے لیے تین ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر چلنے والے سندھ کے اسکولوں کے لیے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا بجٹ 9.57 بلین روپے رکھا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغِ عامہ میں صحافیوں کی تربیت کے لیے، ایک ادارے کے قیام کے لیے رقم مختص کرنے کا اپنا وعدہ یاد نہیں آیا اور حیدرآباد میں سرکاری یونیورسٹی کے قیام کا معاملہ اس دفعہ بھی التوا کا شکار رہا ۔حکومت اس بار طلبہ کے لیے نئے کلاس روم ، بیت الخلاء،کے علاوہ ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست بھی کرے گی۔
اس طرح پانچ سے سولہ سال کے وہ بچے جو اسکول نہیں جاتے ان کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف لٹریسی اینڈ نان فارمل ایجوکیشن کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے۔حکومت اس سال سترہ نئے کالج قائم کرے گی۔حکومت نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبا کے لیے امتحانی فیس معاف کرنے کی پالیسی برقرار رکھی ہے۔حکومت اس مد میں سرکاری تعلیمی بورڈ کو ایک بڑی رقم مہیا کرے گی۔سندھ کے بجٹ میں تعلیم کے لیے ایک خطیر رقم خوش آیند اقدام ہے، مگر تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے صاحبان کے دماغ میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ آئین میں کی گئی اٹھارویں ترمیم کے بعد قومی مالیاتی فارمولہ دوبارہ منظور ہوا، اس فارمولے کا فائدہ سندھ کو بھی ہوا ،اور سندھ کی آمدنی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا مگر سندھ میں تعلیم کی صورتحال بہتر نہ ہوسکی۔
ایک غیر سرکاری تنظیم الف اعلان نے ایک سروے میں بتایا تھا کہ سندھ تعلیم کے حوالے سے سہولتوں میں پنجاب سے پیچھے ہے۔ اس رپورٹ کے چارٹ کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کا ضلع ایسٹ اسکولوں کے اسٹرکچر کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے مگر پورے ملک میں کیے گئے سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضلع کا 62 واں نمبر ہے۔
اس کیٹگری میں سب سے آخری نمبر سجاول کا تھا جو 27ویں نمبر پر تھاجب کہ پورے ملک میں اس کا نمبر 143تھا ۔ سندھ میں تحقیق کرنے والے تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کا محکمہ تعلیم اچھی طرز حکومت سے محروم ہے اور اس میں کرپشن کے سائے انتہائی گہرے ہیں ۔ یہی وجہ ہے تعلیمی انفرااسٹرکچر،غیر حاضر اساتذہ اور غیر معیاری تعلیم کا شکار ہے۔
کراچی کے ساحلی علاقے مبارک گوٹھ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ کی آمدنی میں اضافہ ہوا تو محکمہ تعلیم نے ان گوٹھوں میں اسکولوں کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی ۔ بہت سارے گوٹھوں میں اسکولوں کی نئی بلڈنگیں تعمیر ہوئیں مگر ان اسکولوں میں مناسب فرنیچر،کمپیوٹر اور سائنس کی مناسب تجربہ گاہوں کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر رکھی گئیں اور صرف کاغذات کی حد تک اساتذہ کا تقرر ہوا ، یوں یہ علاقے تعلیم کی سہولت سے محروم ہوگئے۔
اس صورتحال سے لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں ، جن کے لیے گوٹھوں سے دور جاکر تعلیم حاصل کرنے میں سب سے زیادہ رکاوٹیں ہیں اور سائنس کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے ذہین طالب علم صرف آٹھویں جماعت تک ہی پڑھ پاتے ہیں یا ان کی قسمت میں آرٹس کی تعلیم ہی رہ جاتی ہے۔نویں جماعت کے بورڈ کے امتحان کے لیے طالب علم کے پاس ب فارم ہونا ضروری ہے مگر یہاں طالب علموں اور اُن کے والدین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے تو ان کے پاس ب فارم بھی نہیں ہے۔
ان اسکولوں میں طلباء کے ڈراپ آف کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔ مگر یہ معاملہ صرف کراچی کے گوٹھوں تک محدود نہیں ہے۔ سندھ کے بقیہ علاقوں میں بھی اسکولوں کی عمارتیں تو بہت خوبصورت انداز میں تعمیر ہوئی ہیں ، مگران اسکولوں میں چاردیواری، بیت الخلا ، سائنس اورکمپیوٹر کی تجربہ گاہوں کی عدم دستیابی ہے ۔
غیرسرکاری تنظیموں کے سروے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آٹھویں جماعت کا طالب علم پانچویں جماعت کی بھی اہلیت نہیں رکھتا۔ طلبہ کی زیادہ کمزوری ریاضی، سائنس اور انگریزی کے مضامین میں ظاہر ہوتی ہے مگر حکومت نے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے کوئی خاطر خواہ منصوبہ بندی نہیں کی۔ حکومت نے اساتذہ کی غیر حاضری کی روک تھام کے لیے اسکولوں، کالجوں میں بائیومیٹرک حاضری کا انتظام کیا اس نظام سے اساتذہ کے ڈیوٹی پر آنے جانے کے اوقات کمپیوٹر پر ظاہر ہونے لگے، اگر ایمانداری سے اس نظام پر عمل کیا جائے تو خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں مگر افسران کی عدم توجہ اور کرپشن کی وجہ سے بائیومیٹرک سسٹم بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔اب بھی بہت سارے اساتذہ صبح بائیومیٹرک پر اپنی حاضری لگوانے کے بعد اپنے کاموں کے لیے کہیں چلے جاتے ہیں اور پھر چھٹی کے وقت دوبارہ آکر بائیومیٹرک پر اپنی حاضری لگوا جاتے ہیں ۔
بعض اسکولوں میں عملے کی ملی بھگت کی وجہ سے استاد کو خود بھی تعلیمی ادارے میں آنا نہیں پڑتا ۔کراچی میں ڈیفنس کے قریب قائم ہونے والے گرلزکالج میں سندھ کے افسران کی بیگمات فرائض سرانجام دے رہی ہیںان میں سے بیشتر خواتین اٹھارہ اور انیس گریڈ کی ہیںمگر ان خواتین کا دباؤ اتنا ہے کہ اس کالج کی پرنسپل نے بائیومیٹرک نظام کو اپنے میز کی دراز میں بند رکھا ہوا ہے۔اگر کراچی بورڈ کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو سرکاری اسکولوں کے طالب علموں کے نتائج خاصے خراب نظر آتے ہیں،بہت سالوں سے سرکاری اسکولوں کے طالب علم نے میٹرک کے امتحان میں اول و دوئم پوزیشن حاصل نہیں کی ہے ۔ہر سال میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں نقل مافیا متحرک ہوتی ہے ۔وزیرتعلیم چند دنوں تک چھاپے مارتے ہیں ،اخبارات اور ٹی وی پر تصویریں چلتی ہیں اور پھر سب کچھ پس پشت چلا جاتا ہے ۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں نقل کرناآسان ہوگیا ہے ۔گزشتہ دنوں جب میٹرک اور انٹرکے امتحان ہورہے تھے تو ہر روز وٹس ایپ پر امتحانی پرچہ آویزاں ہوتا تھا،ان مسائل کی روک تھام کے لیے جدید امتحانی نظام ہے اور اس کے لیے خطیر رقم کی ضرورت ہے مگر شاید یہ محکمہ سندھ کے لیے کوئی سنجیدہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔بجٹ میں اس مد میں کوئی رقم مختص ہوتی نظرنہیں آتی۔سندھ میں پڑھائے جانے والے نصاب کو مذہبی جنونیت سے پاک کرنے کے لیے بہت اچھا کام ہوا ہے ۔ ماہرین نے کتابوں میں شامل جنونی مواد کی نشاندہی کی اور پھر اس مواد کو کتابوں سے خارج کردیا گیا مگر اس نصاب کی تدریس کے لیے روشن خیال اساتذہ کا ہونا ضروری ہے ،حکومت کو بالخصوص اساتذہ کو اس نصاب کی افادیت سے آگاہی کے لیے ورکشاپ،سیمینار کا انعقادکرنا چاہیے ۔
حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو تقویت دینے کے لیے ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بجٹ میں اضافہ کیاہے ۔پیپلزپارٹی کے سیاسی منشور میں تعلیم ریاستی ذمے داری قرار دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ میثاق جمہوریت میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے آرٹیکل 25-Aکو آئین میں شامل کرنے پر اتفاق رائے ہوا تھا ۔یہ کیسی عجیب بات ہے حکومت نجی شعبے کو شامل کرکے تعلیمی ادارے قائم کرنا چاہتی ہے اور اسکولوں کی حالت بہتر کرنا چاہتی ہے اس کے ساتھ کئی اسکولوں کو غیر سرکاری تنظیموں کے حوالے کرنے کو فخریہ انداز میں بیان کیا جاتا ہے اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ محکمہ تعلیم کے افسران فرائض سرانجام دینے میں ناکام ہوگئے ہیں اور وہ ان تعلیمی اداروں کو بہتر انداز میں چلا نہیں سکتے تو پہلے ان افسران کا احتساب کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ہی تعلیمی اداروں کو غیر سرکاری تنظیموں کے سپرد کردینا چاہیے ۔حکومت نے اسکول نہ جانے والے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ایک خاص رقم مختص کی ہے مگر گزشتہ سالوں میں حکومت یہ فریضہ سرانجام دینے میں مکمل ناکام رہی ۔اسکولوں میں نہ جانے والے بچوں اور ان کے والدین کو متوجہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت طلبہ کے لیے اسکالرشپ ، مفت کتابیں اور یونیفارم اور کھانے کے منصوبے کو شروع کرے تاکہ اسکولوں میں انرولمنٹ کی شرح بڑھ سکے ۔سندھ کے اسکولوں میں انرولمنٹ کی شرح بین الاقوامی لحاظ سے تشویشناک ہے ۔
اس مسئلے پر جتنی توجہ دی جائے کم ہے ۔اس بجٹ کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے تعلیم کے لیے ریکارڈ رقم مختص کی ہے مگر سندھ کی حکومت اچھے طرز حکومت سے محروم ہے اور محکمہ تعلیم میں کرپشن کا راج ہے جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا اور اچھی طرز حکومت کے لیے ہنگامی اقدامات نہیں ہوتے سندھ میں تعلیم کا شعبہ پسماندگی کا شکار رہے گا۔