غربت کی دلدل میں دھنستے ہوئے انگریز

برطانوی حکومت کے غریب دشمن اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث غریبوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی


مضبوط معیشت کے باوجود برطانوی حکومت کے غریب دشمن اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث غریبوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی: خصوصی رپورٹ

کرس تھامس دن میں اکثر اوقات بھوکا رہتا ہے۔انسان اگر مسلسل کئی دن بھوکا رہے تو بھوک انسان کو کمزور کرتی اور بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہے۔کرس کے بھوکا رہنے کی وجہ یہ ہے کہ برطانوی شہر، ناٹنگھم کا رہائشی یہ 27 سالہ باسی بیروزگار ہے۔ پھر بیوی اور دو بچوں کی پرورش کا بار بھی اسی کے کاندھوں پر ہے۔

کرس اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ وہ برطانیہ جیسی فلاحی ریاست میں مقیم ہے۔ حکومت ہر ماہ مخصوص رقم بطور بیروزگاری الاؤنس اخراجات پورے کرنے کی خاطر دیتی ہے۔ مگر اس رقم سے سارے خرچے پورے نہیں ہو پاتے ہوتے کیونکہ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا خصوصاً مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ اسی لیے کرس اپنا کھانا بچوں کو کھلا کر خود عموماً بھوکا رہتا ہے۔وہ دس سالہ لڑکی،کلیو اور آٹھ سالہ بیٹے ،ڈیوڈ کا والد ہے۔

ڈیرھ کروڑ غریب

برطانیہ دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک ہے۔ مگر اس امیر مملکت میں بھی بیروزگاری اور بڑھتی مہنگائی کے باعث غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ غربت میں اس لیے بھی اضافہ ہوا کہ برطانوی حکومت نے سرکاری فلاحی منصوبوں کا بجٹ کم کردیا۔ اب بیروزگار برطانیوں کو ماضی کی نسبت حکومت سے کم رقم بطور امداد ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے، آج برطانیہ میں غریب کہلائے جانے والے باشندوں کی تعداد تقریباً ''ڈیڑھ کروڑ'' تک پہنچ چکی۔ پاکستان میں کم ہی لوگ اس تلخ حقیقت سے واقف ہیں۔

قرون وسطیٰ میں جب یورپ جہالت اور غربت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، تو یورپی شہروں میں غریب الگ تھلگ محلوں میں رہتے تھے۔ ان محلوں میں مکان خستہ حال ہوتے اور لوگوں کو بنیادی سہولیات مثلاً خوراک، رہائش، لباس اور صفائی بہ مشکل میّسر آتی۔ آج پورے برطانیہ میں دوبارہ اسی قسم کے محلے وجود میں آرہے ہیں۔ ان محلوں میں بیروزگار اور غریب انگریز آباد ہیں۔ ان انگریزوں کی ماہانہ آمدن سو ڈالر سے کم ہے۔

برطانیہ میں پچھلے نو سال سے کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ہے۔ اس پارٹی میں امراء کی اکثریت ہے۔ یہ امیر سیاست داں حکومتی خسارہ کم کرنے کے لیے فلاحی منصوبوں کا بجٹ مسلسل کم کررہے ہیں۔ اس کٹوتی نے برطانیہ میں غربت کی شرح بڑھادی۔ اسی لیے انسانی حقوق کی تنظیمیں کنزرویٹو یا ٹوری پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹوری حکومت نظریہ فلاحی ریاست کو ملیامیٹ کرنے لگی ہے۔ گویا اب برطانوی حکومت غریب، مسکین اور ضرورت مند شہریوں کی مددگار نہیں رہی۔

پہلی باقاعدہ فلاحی سلطنت

تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام سے قبل چند حکمرانوں نے اپنی ریاست کو فلاحی بنانا چاہا تھا۔ مثال کے طور پر ہندوستانی حکمران، اشوک اعظم حکومت کے ابتدائی پانچ چھ سال جنگ و جدل میں مصروف رہا۔ پھر اس نے بدھ مت قبول کرلیا۔ یہ واقعہ اس میں تبدیلی لے آیا۔ اشوک نے جنگوں کو خیرباد کہا اور عوام کی فلاح و بہبود میں منہمک ہوگیا۔ اس نے عوام کو اپنی اولاد قرار اور سلطنت میں جابجا ہسپتال، سرائیں اور تعلیمی ادارے تعمیر کرائے۔

اشوک اعظم کی مثال مگر استثنیٰ ہے۔ دنیا کے بیشتر بادشاہ عوام کے حالات سے بے خبر عیش و عشرت میں زندگیاں گزارتے رہے۔ آخر نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں آپؐ نے دنیا کی پہلی باقاعدہ فلاحی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے: ''جس شہری کا کوئی وارث نہ ہو، حکومت اس کی دیکھ بھال کرے گی۔ (جامع ترمذی)۔اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں حضور نبی کریمؐ نے ریاست مدینہ کے تمام امرا کو زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ جو رقم جمع ہو، اسے غریبوں کے مابین تقسیم کردیا جائے۔ (صحیح مسلم)۔ ریاست مدینہ کے حکمران کی حیثیت سے آپؐ نے یہ اعلان بھی فرمایا ''اگر کوئی شہری بیوی بچے چھوڑ کر مرجائے اور ان کے پاس کوئی ٹھکانہ نہ ہو، تو وہ میرے پاس آئیں کیونکہ میں ان کا نگران ہوں۔ میں متوفی کے قرض ادا کرنے کا بھی ذمے دار ہوں۔ (صحیح بخاری)

انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک ریاست کے حکمران نے غریب غربا کو اپنی نگرانی اور حفاظت میں لے کر انہیں سایہ عاطفت فراہم کیا۔ خلفائے راشدین بھی نبی کریمؐ کے نقش قدم پر گامزن ہوئے اور فلاحی ریاست کے تصّور کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ خلفائے راشدین کے بعد عالم اسلام میں ملوکیت در آئی مگر اس نظام حکومت میں بھی فلاحی ریاست کی جھلکیاں نظر آتی رہیں۔یورپ میں پہلی فلاحی ریاست کی بنیاد اواخر انیسویں صدی میں جرمنی کے چانسلر (وزیراعظم) اوتو فون بسمارک نے رکھی۔کہا جاتا ہے کہ جب بسمارک گوتنجن اور برلن کی یونیورسٹیوں میں قانون کی تعلیم پڑھ رہا تھا تو اس نے قرآن پاک اور مسلم فقہ کی کتب کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ اسلامی تعلیمات کے زیر اثر ہی اس نے اپنے دور حکومت (1871ء تا 1890ء) میں غریبوں اور مفلسوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی سرکاری منصوبے شروع کیے اور یوں جدید فلاحی ریاست کی بنیاد رکھ دی۔

حکمرانوں کے اللے تللے

جرمنی کی دیکھا دیکھی دیگر یورپی ممالک مثلاً سویڈن، ناروے، فرانس، برطانیہ، اسپین وغیرہ میں بھی حکومتوں نے غریب، بیمار، بیروزگار شہریوں کی مدد کے لیے مختلف سرکاری پروگرام شروع کیے اور دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے لگیں۔ مگر اب خصوصاً برطانیہ اور امریکا میں حکمران طبقہ فلاحی ریاست کے اصول یکے بعد دیگرے ترک کرتا چلا جارہا ہے جو باعث تشویش بات اور لمحہ فکریہ ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکمرانوں نے اپنے اللے تللے کم نہیں کیے، مگر وہ غریبوں کے لیے شروع کیے گئے منصوبے ختم کررہے ہیں یا پھر ان کا بجٹ محدود کردیا گیا۔ گویا حکمران چاہتے ہیں کہ غریب اپنی حالت درست کرنے کی خاطر خود ہی ہاتھ پیر مارنے لگیں۔

یہ بھی سچ ہے کہ یورپی ممالک میں بعض شہری کام چور اور فراڈیئے ہوتے ہیں۔ یہ ہڈحرام کام نہیں کرتے بلکہ حکومت سے امداد لے کر اخراجات چلاتے ہیں۔ مگر حکومت سے رقم لینے والے شہریوں کی اکثریت بیروزگار، مصائب میں مبتلا یا ناخواندہ ہوتی ہے۔ لہٰذا انہیں سرکاری امداد نہ ملی یا کم دی گئی، تو یورپی ممالک خصوصاً برطانیہ کے عوام میں حکومتوں کے خلاف غم و غصّہ جنم لے گا۔ نیز معاشرے میں بے چینی و ابتری پھیلے گی۔

کرس تھامس جیسے بیروزگاروں اور غریب غربا کی مدد کے لیے برطانیہ میں غیر سرکاری فلاحی و خیراتی تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں۔ یہ تنظیمیں مصیبت میں گرفتار شہریوں اور غریبوں کو خوراک مفت، لباس اور بعض اوقات ٹھکانہ بھی فراہم کرتی ہیں۔ گویا برطانوی غربا کے لیے ان کا وجود غنیمت ہے۔ مگر ان کی بڑھتی تعداد عیاں کرتی ہے کہ برطانیہ میں غربت بھی بڑھ رہی ہے۔

اس بات کا اندازہ یوں لگائیے کہ 2008ء میں برطانیہ میں صرف ''29'' غیر سرکاری سماجی تنظیمیں آفت زدہ شہریوں کو خوراک، لباس وغیرہ مفت دے رہی تھیں۔ آج ان کی تعداد ''دو ہزار'' سے زیادہ ہوچکی۔ یہ تنظیمیں پہلے لندن اور دیگر بڑے شہروں تک محدود تھیں۔ آج وہ برطانیہ کے طول و عرض میں پھیل چکیں۔ اب روزانہ لاکھوں برطانوی ان تنظیموں کی مفت خدمات سے مستفید ہوتے ہیں۔

غربت کی لہرکا جنم

برطانیہ میں بھوک ایک بڑا مسئلہ بن رہا ہے۔ والدین کی آمدن کم ہونے کے باعث بچوں کو مناسب غذا میسر نہیں آتی اور ان کی نشوونما متاثر ہورہی ہے۔ اچھی خوراک نہ ملنے سے بالغوں کا مامون نظام بھی کمزور ہوچکا اور وہ جلد بیمار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح غریب بوڑھے مردوزن قبل از وقت موت کو گلے لگانے لگے ہیں۔

برطانیہ میں غربت کی لہر نے 2008ء میں جنم لیا۔اس سال برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے کئی بڑے بینک مالیاتی مسائل میں پھنس گئے تھے۔ یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ دیوالیہ ہونے سے وہ بند ہوجائیں گے۔ مالیاتی شعبے کو بچانے کے لیے برطانوی حکومت نے ''500'' ارب پونڈ کی خطیر رقم فراہم کردی۔ یوں بینک دیوالیہ ہونے سے بچ گئے۔ مالیاتی شعبے کا منافع بڑھنے لگا۔ اسٹاک مارکیٹیں بھی ترقی کرنے لگیں۔

برطانوی حکومت نے مگر مالیاتی شعبے کو بچانے کے لیے جو زرکثیر دیا تھا، اس نے خود اسے مالی مسائل میں مبتلا کردیا۔ اخراجات آمدن سے بڑھ گئے۔ حکمرانوں نے اس مشکل کا آسان حل یہ نکالا کہ فلاحی منصوبوں کے بجٹ کم کرنے لگے۔ یہ چلن پچھلے گیارہ سال سے چلا آرہا ہے۔ اس دوران جو رقم غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی تھی، اس میں اربوں پونڈ کی کمی آچکی۔ اسی کمی نے مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریتوں کے ساتھ مل کر متوسط و نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں برطانیوں کو غربت و بے بسی کی دلدل میں دھکیل دیا۔

سب سے زیادہ مشکلات کا شکار وہ برطانوی ماں باپ ہوئے جو بچوں کی پرورش کررہے ہیں۔ اب ان کی آمدن روزمرہ اخراجات پورے نہیں کرپاتی۔ چونکہ برطانیہ معاشی انحطاط کا شکار ہے۔ لہٰذا وہاں تنخواہیں بھی خاصے عرصے سے منجمند ہیں مگر مہنگائی میں متواتر اضافہ جاری ہے۔ اسی منفی عمل نے لاکھوں برطانویوں کی قوت خرید گھٹا دی۔ اب وہ مجبور ہیں کہ خاص طور پر خوراک پانے کی خاطر سماجی تنظیموں سے رجوع کرنے لگیں۔ مہنگائی ان کی خود داری اور عزت نفس کو پاش پاش کرچکی۔

معاشرہ خطرے میں!

کرس تھامس برطانوی شہر ناٹنگھم کا باسی ہے۔ اس شہر کی آبادی سولہ لاکھ ہے اور ان میں سے تقریباً پچاس ہزار بیروزگاری کے جن سے نبرد آزما ہیں۔ کرس ملازمت ڈھونڈنے کی کوشش کررہا ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکا۔ چناں چہ وہ ہر ہفتے بیوی بچوں کے لیے برج وے ہال میتھوسٹ چرچ پہنچ جاتا ہے۔اس چرچ میں ناٹنگھم فوڈ بینک نامی ایک سماجی تنظیم ہر اتوار کو ضرورت مندوں میں مفت خوراک تقسیم کرتی ہے۔ہاتھ میں خالی تھیلے ہوتے ہیں۔ تنظیم تھیلوں میں خوراک کے مختلف ڈبے بھر دیتی ہے۔ یہ خوراک پھر ہفتہ دس دن تک کرس اور اس کے بیوی بچوں میں جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھتی ہے۔

کرس مگر مسلسل بیروزگاری اور ہاتھ پھیلانے کی خفت سے تنگ آچکا۔ احساس محرومی اسے غصیلا اور ناراض بنارہا ہے۔ برطانیہ میں ایسے غصیلے اور حالات سے تنگ آئے انگریزوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ انگریز پھر مہاجرین کو اپنے مصائب کا ذمے دار ٹھہرا کر ان پر حملے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، برطانیہ میں مہاجرین اور پناہ گزینوں پر حملے بڑھتے جارہے ہیں۔

برطانیہ میں پھیلتی غربت اہل پاکستان کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ یہاں خصوصاً نوجوان سمجھتے ہیں کہ امریکا اور برطانیہ میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ وہاں مال اور آسائشوں کی فراوانی ہے۔ یہ سوچ شاید نصف صدی قبل تو کچھ درست ہو لیکن اب ہر غیر ملکی کو ان ممالک میں جاکر شدید محنت مشقت کرنا پڑتی ہے۔ تب وہ وہاں سیٹ ہوپاتا ہے۔ اکثر اوقات ساری جوانی دن رات کام کرنے میں بیت جاتی ہے اور انسان زندگی سے لطف نہیں اٹھا پاتا۔ دور کے ڈھول سہانے کے مصداق اب برطانیہ ایسا ملک نہیں رہا جہاں جاتے ہی ہر پاکستانی آسائشات پالے گا۔ حقیقتاً وہاں زندگی گزارنا دن بہ دن کٹھن مرحلہ بن رہا ہے۔

یہ معمولی بات نہیں کہ برطانیہ میں ڈیڑھ دو کروڑ لوگ روزانہ اس لیے سخت محنت مشقت کرتے ہیں کہ اپنے کھانے پینے کا بندوبست کرسکیں۔ وہ پیسے بچانے کی خاطر ہر ممکن قدم اپناتے ہیں۔ مثال کے طور پر برج وے ہال چرچ سے کرس تھامس کا گھر پانچ میل دور ہے۔ مگر وہ ہر ہفتے اہل خانہ سمیت دس میل کا یہ فاصلہ چل کر طے کرتا ہے تاکہ ریل کا کرایہ بچاسکے۔

برطانیہ میں عمرانیات، نفسیات اور معاشیات کے ماہرین حکومت کو بتا رہے ہیں کہ اگر وہ فلاحی منصوبے ختم کرتی رہی، تو متوسط و نچلے طبقوں کے شہری مہنگائی و بیروزگاری تلے کچل کر باغی بن سکتے ہیں۔ کسی ملک میں ایسے معاشرتی باغیوں کی کثرت ہوجائے، تو وہاں کا معاشرہ انارکی و ابتری کا شکار ہوسکتا ہے۔ اسی لیے ماہرین برطانوی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے نہایت مثبت نظریے سے قطع تعلق نہ کرے اور معاشرے کے پسے طبقات کی مدد کرنا جاری رکھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔