سکھر مسائل کی آماج گاہ
بارش اور سیلاب کے بعد پینے کے پانی کی قلت, جلدی امراض میں اضافہ ، شہری بے یارومددگار
بارش اور سیلاب کے بعد پینے کے پانی کی قلت، جلدی امراض میں اضافہ، شہری بے یارومددگار. فوٹو : فائل
حکومت ، منتخب نمائندوں اور ضلعی انتظا میہ کے تمام تر دعوؤں کے باوجود سندھ کا تیسرا بڑا اور اہم تجارتی وسیاسی مرکزسکھر ، مسائل کی آماج گاہ بن چکا ہے ۔
نت نئے مسائل جن میں بجلی اور پانی کا بحران ، صفائی ستھرائی، تباہ حال سٹرکیں، ٹریفک جام ، گندگی سے اٹے ہوئے برستاتی نالے، کھیل کے میدان ، پارکس اور امن وامان کی مخدوش صورت حال شامل ہیں اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ ان میں دومسئلے سب سے زیادہ گھمبیر صورت حال اختیار کرچکے ہیں ۔ جن میں پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی اورصفائی ستھرائی کی مخدوش صورت حال ہیں ، یہ دونوںمسائل ایسے ہیں جن سے سکھر، روہڑی، پنوعاقل، نیو سکھر سمیت آس پاس کے علاقوں میں رہائش پذ یر لاکھوں افراد کو مشکلات کا سامنا ہے ۔
فراہمی آب کے نظام کوبہتر بنانے کے منصوبے کو مکمل کرنے کے لئے شہر کی اہم شاہ راہوں، تجارتی اور رہائشی علاقوں میں چندماہ قبل خطیر رقم سے بنائی جانے والی سڑکیں کھود دی گئیں ۔ ٹھیکے دار اور انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے باعث کھودی گئی سڑکیں حادثات کا سبب بن گئی ہیں ۔ سابقہ حکومت ہو یا موجودہ حکم ران عوامی مسائل کے حل کے لئے سب ہی بلند بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں ۔ عام انتخابات سے قبل وفاق اور سندھ میں حکم رانی کرنے والے منتخب نمائندوں نے شہریوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے کروڑوں روپے کی مختلف اسکیمیں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور ان پر کام کی ابتدابھی ہوگئی تھی ، جس سے علاقہ مکینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اورانہوں نے منتخب نمائندوں کے اعزاز میں ظہرانے، عشائیے دینے کا سلسلہ شروع کردیا تھا اورامید باندھ لی تھی کہ مذکور ہ منصوبے جلدمکمل ہوں گے، لیکن ہنوز یہ خواب ہی ہیں ۔
مون سون کی بارشوں کے باعث سکھر سمیت مضافاتی علاقوں میں شہریوں کو بدترین صورت حال کا سامناکرنا پڑا ۔ معمولات زندگی مفلوج ہونے سے، جیل موڑ، وس پور محلہ، بھکر چوک، تانگہ اسٹینڈ، لطیف پارک پرانا سکھر، شالیمار روڈ، جناح چوک،گھنٹہ گھرچوک ،مائیکرون کالونی،نمائش چوک، پاک کالونی ،نواں گوٹھ، ملٹری روڈ،ایوب گیٹ، اسٹیشن سے متصل ڈھگ روڈ،وکٹوریہ مارکیٹ اور دیگر رہائشی اور تجارتی علاقے جھیل اور ندی کا منظر پیش کرنے لگے،جومتعلقہ اداروں کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ وفاقی وصوبائی حکومت کی جانب سے خطیر رقم سے شروع ہونے والے منصوبوں میں غیر معیاری میٹریل کے استعمال نے ٹھیکے داروں کے اعلیٰ معیار کے دعوے کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے ۔
ملک کے دیگر علاقوں کی طرح سکھر اور مضافاتی علاقوں میں آنے والے سیلابی پانی کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات سامنا کرنا پڑا۔ ایک جانب لوگوں کی بڑی تعداد اپنے آشیانوں کوعارضی بنیادوںپر خیر آباد کہہ کر بند وں اور کیمپوں میں منتقل ہوگئی تو دوسری جانب شہری علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی معطل ہوگئی اور نارتھ سندھ اربن سروسز کارپوریشن (نساسک) انتظامیہ کی جانب سے شہر و آس پاس کے علاقوں میں بغیر فلٹر شدہ مضر صحت اوربدبو دار پانی فراہم کیے جانے سے موذی امراض پھیلنے لگے، شہری خطیر رقم سے منرل واٹرخریدنے پر مجبور ہوگئے ، معالجین نے اسپتال پہنچنے والے مریضوں کو مضر صحت پانی کے استعمال سے اجتناب کا مشورہ دیا ۔
انتظامیہ کی جانب سے پرانا سکھر، وس پور محلہ، بکھر چوک، رائل روڈ، قریشی روڈ، شالیمار روڈ، ریجنٹ سنیما، والس روڈ، کوئنس روڈ، فریئر روڈ، جناح چوک، میانی روڈ، باغ حیات علی شاہ، نیوپنڈ، بھوسہ لائن، نواں گوٹھ، ملٹری روڈ، آدم شاہ کالونی، نیم کی چاڑی، ٹکر محلہ ودیگر گنجان آبادی والے علاقوں میں انتہائی مضر صحت، گندا اور بدبو دار پانی فراہم کیے جانے کی وجہ سے شہری مہلک بیماریوں میںمبتلا ہوگئے ہیں ۔ دریائے سندھ کا پانی بغیر صاف کیے، واٹر ورکس کے تالابوں میں جمع کرنے کے بعد شہریوں کو فراہم کیا جارہا ہے، متعدد شہریوں نے اپنے گھروں میں فلٹر پلانٹ بھی لگوانے شروع کردیے ہیں، صاف پانی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر ملکی و بین الاقوامی کمپنیوں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ مقامی افراد نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جو گھروں، دکانوں میں معروف کمپنیوں کے برانڈ کی بوتلوں میں عام پانی فراہم کرکے شہریوں کو لوٹ رہے ہیں۔
ماہر امراض جلد ڈاکٹر عبدالعزیز میمن نے بتایا کہ گزشتہ ایک ماہ سے گندے و بدبو دار پانی کی وجہ سے جلد، الرجی، انفیکشن کی بیماریوں میں 30سے 40فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور مریضوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ یکم جنوری دوہزار گیارہ میں شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صحت مند ماحول مہیا کرنے کے دعوے کے ساتھ ذمہ داریاں سنبھالنے والے نساسک کے اعلیٰ افسران ، میٹنگ میں زیادہ تر توجہ اچھے لباس، انگریزی بولنے اور پاور پوائنٹ کے ذریعے بریفنگ دینے پر دیتے ہیں اور اعلیٰ حکومتی اہل کار ان کی پریذنٹیشن سے متاثرہوکراپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہیں ، لیکن میٹنگ ختم ہونے کے بعد حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔
ان حالات کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ نساسک افسران ایک عرصہ سے بنیادی سہولیات کی فراہمی کے دعوے کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ترقیاتی منصوبوں میں بھی بدعنوانیوں کی بھی اطلاعات ہیں ۔ شہریوں کی شکایت پر وفاقی تحقیقات ادارے نے انکوائری شروع کردی ہے۔ لیکن نساسک کے ترجمان سید عدیل شاہ کا دعویٰ ہے کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے فراہم کردہ فنڈز سے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کا جو منصوبہ شروع کیاتھا وہ بہتر انداز سے جاری ہے۔
80کروڑ روپے کی لاگت سے شہر کے 6لاکھ سے زائد مکینوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے کام کا ابتدائی مرحلہ مکمل ہوگیا ہے، دوسرے مرحلے میں ڈیزائن کے مطابق 2کروڑ 15لاکھ گیلن یومیہ صاف پانی کی فراہمی کے لیے جنوری میں کام کا آغاز ہوگا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ماہرین کی نگرانی میں کام بہتر انداز سے جاری ہے ، تاہم بعض ٹھیکے داروں اور شہریوں کی جانب سے بلاجواز درخواستیں ارسال کی گئی ہیں جس پر انکوائری شروع ہوئی ہے، لیکن کسی بھی قسم کی کرپشن سامنے نہیں آئے گی۔