کراچی‘ پائیدار اور قابل قبول حل

دستور پاکستان کے مطابق حکومت وقت ملک میں رہنے والے ہر خاص و عام کے جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضامن ہے


MJ Gohar September 05, 2013
[email protected]

دستور پاکستان کے مطابق حکومت وقت ملک میں رہنے والے ہر خاص و عام کے جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضامن ہے حکومت کے پاس اختیارات بھی ہیں اور وسائل بھی۔ قانون بھی موجود ہے اور عدالتیں بھی آزاد ہیں۔ ملک کے طول و ارض میں امن قائم کرنا اور جرائم پیشہ عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانا حکومت ہی کی ذمے داری اور فرض منصبی ہے۔ لیکن افسوس کہ گزشتہ کئی سالوں سے ملک کے سب سے بڑے اور اہم صنعتی وتجارتی مرکز کراچی میں امن کا قیام ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ شہر قاید کے باسی ایک طویل عرصے سے جس قلبی، ذہنی اور جسمانی اذیت اور پریشانیوں سے گزر رہے ہیں حکمرانوں کو اس کا احساس نہیں۔ روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی میں خوف، دہشت، بربریت، درندگی اور اندھیروں کا راج ہے یہاں کی ہر صبح، صبح افسردہ اور ہر شام، شام غریباں بن چکی ہے۔

گلی گلی جنازے اور گھر گھر ماتم برپا ہیں کراچی جو کبھی ادب، تہذیب، آرٹ، کلچر اور فنون لطیفہ کا گہوارہ کہلاتا تھا آج قل و غارت گری، دہشت گردی، خودکش حملے، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشیں، بھتہ خوری، قبضہ گری، اغواء برائے تاوان، چوری، ڈکیتی، رہزنی اور لوٹ مار کا کلچر اس کی پہچان بنتا جارہا ہے۔ لوگ شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں رینجرز اور پولیس کی نفری تعینات ہے۔ رات دن پٹرولنگ اور اسنیپ چیکنگ بھی کی جارہی ہے اس کے باوجود 10/15 افراد روزانہ ''نامعلوم'' دہشتگردوں کا نشانہ بن جاتے ہیں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار کسی بھی قاتل، خونی، دہشت گرد، اغوا کار اور بھتہ خور کو گرفتار نہیں کرپاتے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خود پولیس اور رینجرز کے اہلکار اور دفاتر بھی دہشت گردوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ پھر عام شہریوں کی جان ومال کا تحفظ کیونکر اور کیسے ممکن ہے؟ شہر اسلحے کا گودام اور بارود کا ڈھیر بن چکا ہے۔ جائے امان کہیں نظر نہیں آتی۔

کراچی منی پاکستان کہلاتا ہے کیونکہ شہر قائد میں ملک کے چاروں صوبوں سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں جو روزگار کی تلاش میں یہاں آئے اور پھر مقامی آبادیوں میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور اب ان کی دوسری و تیسری نسل بھی جوان ہوکر اسی شہر کا حصہ بن گئی ہے۔ جب کسی شہر میں مختلف النوع تہذیب کے لوگ آکر آباد ہوتے ہیں تو وہاں کا ماحول، اقدار اور زندگی بھی تبدیل ہوجاتی ہے پھر طرح طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہی کچھ کراچی کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ یہ شہر جہاں امن پسند شہریوں، تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے کشش رکھتا ہے وہیں اس شہر میں جرائم پیشہ افراد کے لیے بھی ان کی ''خواہشوں'' کے مطابق حاصل کرنے کے لیے بہت سا ''سامان'' موجود ہے۔

شہر کراچی میں جہاں سیاسی حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان برتری کی کوششیں پروان چڑھتی رہی ہیں وہیں شہر قائد میں لسانی، صوبائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے درمیان چپقلش اور کشمکش کی کیفیت رہی۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں گزشتہ دو تین دہائیوں سے مختلف النوع مسائل جنم لے رہے ہیں۔ حکمران طبقے نے ہر دور میں اپنی اپنی سیاسی مصلحتوں کے باعث کراچی کے مسائل حل کرنے کی طرف کبھی سنجیدہ توجہ مرکوز نہیں کی اور معاملات کو سرسری طور پر لیا گیا نتیجتاً مسائل گھمبیر اور پیچیدہ ہوتے چلے گئے اور آہستہ آہستہ معاشرے میں ان کی جڑیں بھی مضبوط ہوتی چلی گئیں اور اب یہ خود رو پودوں کی طرح پروان چڑھ کے تناور درخت بن چکے ہیں۔ تو ارباب اختیار کو ان مسائل کی سنگینی کا ادراک و احساس ہورہا ہے۔ حکومت سے لے کر عدلیہ تک ہر سطح پر اب مسئلہ کراچی زیر بحث اور درد سر بنا ہوا ہے۔

گتھی اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ سرا کسی کے ہاتھ نہیں آرہا ہے۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کراچی کے لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے اور شہر کو بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ۔ ادھر عدالت عظمیٰ میں دو سال سے زیر سماعت کراچی بدامنی کیس کی تازہ عدالتی کارروائی کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے آیندہ سماعت سے قبل شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو کراچی کے مسئلے کا حل نکالنے کی ہدایت کی ہے ساتھ ہی نادرا کو حکم دیا گیا ہے کہ سندھ میں اسلحہ لائسنس کے لیے رجسٹریشن اور ریکارڈ مرتب کرنے کا کام جلد ازجلد مکمل کرے۔ عدالت نے اسلحہ اسمگلنگ کی تحقیقات کے لیے کمیشن بھی قائم کردیا ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق نواز حکومت کراچی میں رینجرز کی قیادت میں ایک بڑے ''ٹارگٹڈ آپریشن'' کی تیاری کر رہی ہے جو سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی زیرنگرانی ہوگا اور وفاقی حکومت اسے سپورٹ کرے گی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کی تجویز پیش کردی ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دیے بغیر کراچی کے حالات بہتر نہیں ہوسکتے اور صوبائی حکومت کو آن بورڈ لیے بغیر وفاقی حکومت کراچی میں فوج نہیں بھیج سکتی۔ وزیر داخلہ کے بقول فوج پر پہلے ہی بہت دباؤ ہے کراچی کے گلی کوچوں میں بھیجنا مناسب نہیں ہوگا۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ کو ہدایت کی ہے کہ پولیس کو فری ہینڈ دیا جائے تاکہ سیاست سے بالاتر ہوکر جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ صدر نے کراچی میں فوج بلانے کے مطالبے کی حمایت نہیں کی۔

بات فوج بلانے یا رینجرز و پولیس کے ذریعے ٹارگٹڈ آپریشن کی نہیں بلکہ کراچی کے دیرینہ وگنجلک مسائل کے دیرپا حل کی اہم ہے۔ شہر کے دو کروڑ افراد کے جان، مال، عزت و آبرو کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ رینجرز گزشتہ کئی سالوں سے کراچی میں موجود ہے پولیس کا بھرپور تعاون بھی اسے حاصل ہے اس کے باوجود 10/15 افراد کا روزانہ شہر میں قتل ہوجانا مذکورہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، کراچی پاکستان کا دل ہے اس کے امن سے پورے ملک کا امن وابستہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب حکومت کراچی میں قیام امن کے لیے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں و ایجنسیوں کے ذریعے اپنی رٹ قائم کریں بلکہ شہر قائد کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سیاسی وتجارتی تنظیموں کے نمایندہ اشخاص سے بھی مشاورت کریں تاکہ پائیدار اور قابل قبول حل تلاش کیا جاسکے۔ بصورت دیگر کراچی کی بدامنی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں