پلی بارگین اور سکون قلب

محکمہ واپڈا کے ایک چیئرمین کرپشن میں سزا پر ملک سے فرار ہو کر باہر رہ کر کئی سال عیش کرتے رہے۔


Hameed Ahmed Sethi June 23, 2019
[email protected]

بعض اوقات کچھ لوگوں کی زندگی میں اچانک ایک ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے کہ چاہے وہ اس واقعے کے ثمرات کو دیکھنے کے لیے زندہ نہ بھی رہیں ان کا نام اور کام امر ہو جاتا ہے۔

ایسی بہت سی نامور شخصیات تاریخ میں زندہ ہیں لیکن تین روز قبل ہم اٹلانٹا میں مارٹن لوتھر کنگ کے مکان، لائبریری اور اس کے نام پر بنے میوزیم کے سامنے کھڑے، امریکا میں نسلی تعصب کے مخالف سول لبرٹیز موومنٹ کے محرک وچیمپئن کو یاد کر رہے تھے، وہ امریکا میں موجود سیاہ فام افراد کے حق میں جنھیں غلام بنا کر لایا گیا تھا وہاں کے نسلی تعصب کے خلاف پرامن لیکن پرجوش تحریک چلاتے ہوئے Memphis جا کر ایک Motel کی دوسری منزل کے کمرے میں قیام کے دوران بالکونی میں کھڑا تھا، جب ایک سفید فام شخص کی گولی کا نشانہ بنا۔ یہ 1968 کا واقعہ ہے۔

اس کے طویل عرصہ بعد صدر رونالڈ ریگن نے 1983 میں کنگ کے حوالے سے ہر سال جنوری کے تیسرے سوموار کو پبلک ہالیڈے کا بل پیش کیا ۔ مارٹن لوتھر میوزیم کی وسیع عمارت ہے جس میں کنگ کی تقاریر اور جدوجہد کی متعدد ویڈیو فلمز چل رہی تھیں ۔ وزیٹرز میں اکثریت سیاہ فام لوگوں کی تھی ۔ ان سیاہ فام غلاموں کی اولاد نے ماسوائے چند ایک کے جن میں سے دو میرے ہیرو ہیں، ایک ٹائیگر وڈز جو عروج سے زوال میں جا کر پھر گالف میں بہتری کی طرف جا رہا ہے اور دوسرا عظیم باکسر محمد علی کلے جس سے 5 اکتوبر 1987 کے روز ہلٹن ہوٹل لاہور میں ملاقات ہوئی تھی، تعلیم اور ہنرمندی پر توجہ نہیں دی لہٰذا وہ تیسرے درجے کے ملازمتیں کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ میرا اپنا دل وجان سے عزیز ملک جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، جہالت، بے راہ روی، بداعمالیوں، فکری تنگ نظری، کرپشن، ملائیت، لاقانونیت کی وجہ سے نہ معلوم کس گہرے غار کی طرف رواں ہے۔

لوگوں کے اپنے غیرملکی عزیز جب پاکستان آتے ہیں تو ان کی کھانوں اور دعوتوں سے خاطرمدارات شروع ہو جاتی ہے اور ان کی خواتین کپڑوں کی رنگائی، کڑھائی اور سلائی میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ ان دو مصروفیتوں کے علاوہ ہمارے پاس ان وزیٹرز کو دکھانے اور ان کے دل ونظر کی مصروفیت اور دلچسپی کی کوئی چیز نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی Priority صرف اقتدار اور مال معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ نظر آنے والے پروجیکٹ بھی ایسے بناتے ہیں جن میں بھاری کمیشن بنتی ہو۔ ان کی پالیسیوں کی اولیت تو تعلیم اور صحت بھی نہیں اسی لیے کھیل کے میدان تو الگ رہے، فٹ پاتھ اور صفائی بھی ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔

بیرون ملک سے آنے والوں کے لیے تو دلچسپی کی کوئی چیز نہیں اسی لیے جب مجھے معلوم ہوا کہ دنیا کا سب سے بڑا مچھلی گھر (Aquiarium) اسی شہر Atlanta میں ہے جس میں بے شمار نسلوں کی ایک لاکھ سے زیادہ مچھلیاں ہیں تو وہاں جا پہنے۔ معلوم ہوتا تھا مچھلی گھر دیکھنے بچے، بوڑھے اور جوان بلکہ سارا شہر امڈ آیا ہے۔ اس کا اندرون بھول بھلیاں تھا لیکن ہر موڑ پر رہنما بورڈ تھے۔ دو گھنٹے میں مختلف سائز، رنگ، اقسام کی مچھلیاں دیکھیں، صحت مند اور چاک وچوبند، اچھلتی کودتی پانی کے اندر اپنے اپنے گروپوں کے ساتھ تیرتیں، چھلانگیں لگاتیں، دیکھنے والوں کا دل خوش کرتیں۔ مچھلی گھر میں سوا چھ ملین گیلن پانی بتایا گیا۔

امریکا کے مزید دو شہروں بالٹی مور، کیلی فورنیا میں بڑے بڑے مچھلی گھر ہیں۔ دنیا کا دوسرا بڑا Aquiarium دبئی میں ہے۔ مچھلی گھر کی آخری آئیٹم وہاں کے اٹھارہ سو سیٹوں والے ڈولفن شو ہال میں تھا۔ شو کے ٹرینر نے بڑی محنت سے پانچ ڈولفن مچھلیوں کو کئی کرتب سکھائے تھے مثلاً پانچ افراد کو سر کے کونے پر اٹھا کر Pool میں گھمانا، پانی میں سے 15 فٹ ہائی جمپ لگانا، پندرہ فٹ اونچی رسی پر سے کود کر دوسری طرف جانا، تماشائیوں پر پانی پھینکنا اور کئی قسم کے کرتب دکھائے۔ ہر ڈولفن موٹی اور دس بارہ فٹ لمبی تھی۔ شہر میں گھومتے ہوئے لوگوں اور موٹرگاڑیوں کے علاوہ عمارتیں، سڑکیں تو نظر آتی تھیں لیکن ان تین کے علاوہ جو چیز نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی تھی وہ تھی ہر طرف ہریالی اور درخت۔ یہی سبزہ وگل ہیں جو ان کے شہروں کا حسن ہیں اور موسموں کو معتدل رکھتے ہیں۔

یہاں کسی بھی شخص کا اپنے مکان کے آگے کھڑے درخت کو کاٹنا جرم ہے۔ مجھے ساہیوال تعیناتی کے دنوں ایک دن ضلع کے تمام دفتروں کے ملازموں کے ہمراہ چوہدری محمد اشرف ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ایک سڑک پر شجرکاری کا دن منانا یاد آیا۔ اس روز صبح سے شام تک ہم نے وہاں ہزاروں درختوں کی شاخوں کو بویا تھا۔ نصف راستے پر ایک جگہ سب والنٹیئرز کے لیے لنچ کا انتظام تھا۔ کوئی چھ سات سال بعد جب ہمارا ساہیوال سے تبادلہ ہوئے چار پانچ سال ہو چکے تھے، میں اور چوہدری اشرف اس سڑک پر شجرکاری کا نظارہ کرنے گئے تو وہاں چند سو، وہ بھی نیم مردہ حالت میں درختوں کو دیکھ کر بیحد پژمردہ ہوئے۔

میں ایک شاپنگ مال میں Starbucks Coffe شاپ پر کافی کا کپ لیے شاپ کے باہر رکھی میز کرسی قابو کیے ہزاروں آتے جاتے، باتیں کرتے لوگوں سے لاتعلق بیٹھا ہوں۔ اب اپنی نوٹ بک بند کر کے دائیں بائیں اسمارٹ لوگوں کو دیکھا ہے تو دو سیاہ فام خواتین کو اور ان کے جثے کو دیکھ کر اپنے بچپن میں جا پہنچا ہوں، جب محلے میں ایک باکس لیے تماشا دکھانے کی آواز لگاتا ''بارہ من کی دھوبن'' دکھانے والا ایک پیسہ لے کر ایک بے تحاشا فربہ عورت شیشے کے سوراخ میں سے دکھایا کرتا تھا۔ ایسی بارہ من کی دھوبنیں یہاں بغیر پیسہ خرچ کیے کسی بھی مال، بازار اور مارکیٹ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

بیرون ملک بیٹھے کالم لکھنے کے دوران پاکستان کی خبریں سننے کے لیے جادو کا پرزہ آن کیا ہے تو افواہ سننے کو ملی ہے کہ ملک کے دو سابق قیدی حکمران آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ساتھ ان کی Pleabargain کی خواہش پر بات چیت ہونے کا امکان ہے۔ اس خبر کی حقیقت کھلنے کا جلد ہی امکان ہے۔ زرداری کو تو قید کاٹنے کا تجربہ ہے لیکن نواز شریف کے لیے ''صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا'' والا معاملہ ہے۔

محکمہ واپڈا کے ایک چیئرمین کرپشن میں سزا پر ملک سے فرار ہو کر باہر رہ کر کئی سال عیش کرتے رہے لیکن ایک روز پلی بارگین پر مجبور ہو گئے اور معاملہ Settle کرکے واپس آ گئے اور گزشتہ چار سال سے گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بندہ Absconder ہو یا جیل میں، ہر دو زندگیاں عذاب ہوتی ہیں۔ پلی بارگین اقرار جرم سہی، بندہ عذابِ مسلسل سے تو باہر نکل آتا ہے اور باقی زندگی اپنے کیے پر توبہ میں گزار کر سکون قلب پا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں