بھوربن کانفرنس افغان گروپ پاکستانی سفارتی کوششوں کے قائل

بیشتر غیرپشتون تھے جو افغانستان میں پاکستان کے کردار سے متعلق شبہات کا اظہارکرتے رہے ہیں


Kamran Yousuf June 24, 2019
طالبان مدعو نہیں تھے،کرزئی آنے کو تیار لیکن کچھ مطالبات تھے جو فوری پورے کرنا مشکل تھے، منتظمین ،امریکا اور طالبان کے دوحہ مذاکرات سے قبل کانفرنس اہمیت کی حامل

پاکستان نے مری میں بھوربن کانفرنس منعقدکرکے تمام افغان گروپوں کو یہ پیغام دیدیا ہے کہ وہ پڑوسی ملک میں امن کا خواہشمند ہے اوراس کیلیے وہ نسلی تعلق کو ایک طرف رکھ کرتمام گروپوں کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے۔

اس کانفرنس میں افغانستان کی 18 ممتازشخصیات سمیت 57 مندوبین نے شرکت کی ،ان میں بیشتر غیرپشتون تھے جو افغانستان میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے ہمیشہ شک وشبہات کا اظہارکرتے آئے ہیں ۔اس کانفرنس کا اہتمام لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک تھنک ٹینک نے کیا تھا تاہم اسے حکومت کی مکمل حمایت حاصل تھی۔اس کانفرنس میں گلبدین حکمت یار،کریم خلیلی،عطا نورمحمد،فوزیہ کوفی ، محمد محقق،محمد یونس قانونی،اسماعیل خان اور حنیف اتمار نمایاں تھے۔ذرائع کے مطابق اس کانفرنس میں شریک مندوبین افغانستان میں امن کیلیے پاکستان کی کوششوں کے قائل ہوگئے ہیں۔

کانفرنس میں شریک بیشتر مندوبین اب تک پاکستان کی افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے کوششوں کے ناقد رہے ہیں اور ان کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ پاکستان ہی افغانستان کے تمام مسئلے کا ذمہ دار ہے لیکن اس کانفرنس کے بعد ان کی سوچ بدل چکی ہے۔اس کانفرنس میں شریک ایک مندوب نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کانفرنس کا مقصد تمام افغان گروپوں کو ایک میز پر اکٹھا کرنا تھا جس میں کامیابی ملی اور آئندہ بھی ایسی کانفرنسیں جاری رہیں گی۔اس کانفرنس میں طالبان کو نہیں بلایا گیا تھا تاہم اگلے اجلاسوں میں انہیں دعوت دی جائے گی۔ کانفرنس کے روح رواں سابق سیکریٹری خارجہ ششماد احمد جن کے بعض افغان لیڈروں سے ذاتی تعلقات ہیں نے بتایا کہ کانفرنس کا مقصدانٹرافغان ڈائیلاگ شروع کرانا تھا۔اس کیلیے بیشترکام خفیہ انداز میں کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ افغان لیڈروں کی شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی آنے کو تیار تھے لیکن انہوں نے کچھ مطالبات پیش کیے تھے جنھیں پورا کرنا مختصر وقت میں ممکن نہیں تھا۔ امید ہے کہ وہ مستقبل میں ایسی کسی میٹنگ میں ضرور شریک ہوںگے۔اگلے ماہ دوحہ میں امریکا اورطالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں یہ کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ طالبان اب تک افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکارکرتے آئے ہیں لہذا امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات پربعض افغان گروپوں کو تشویش تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ امریکہ فیس سیونگ کی تلاش میں ہے۔ ایک پاکستانی اہلکار نے بتایا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ افغانستان میں ایسی صورتحال پیدا ہو کہ وہاں تشدد کا ایک نیا سلسلہ چل نکلے ۔اب افغان صدر اشرف غنی کا آنے والے دنوں میں دورہ پاکستان بھی اہمیت کا حامل ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں