گود بھرائی۔۔۔

قلقاریوں کی امیدمیں کسی کی مسکراہٹ تونہ چھینیں رسم کے نام پربے اولادیا بیوہ عورتوں کی دل آزاری اورتوہین ناقابل فہم ہے


سائرہ فاروق June 25, 2019
قلقاریوں کی امید میں کسی کی مسکراہٹ تو نہ چھینیں رسم کے نام پر بے اولاد یا بیوہ عورتوں کی دل آزاری اور توہین ناقابلِ فہم ہے

ہمارے معاشرے میں جہاں خاندان کی عزت اور سماج کی قدروں کے نام پر عورت کو طرح طرح کی پابندیوں اور بندشوں کا سامنا ہے، وہیں رسم و رواج کی آڑ میں بھی اس کی توہین اور تذلیل کی جاتی ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسی رسموں کے نام پر عورت کے جذبات، ارمانوں اور وقار کو ملیا میٹ کرنے والے بھی اس کے اپنے ہی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر شادی بیاہ، بچے کی ولادت اور ایسے دیگر مواقع پر بعض رسمیں نہایت تکلیف دہ اور شرم ناک ثابت ہوتی ہیں اور ان تکلفات سے بوجھل اور بداخلاقی کا نمونہ رسموں کا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اہتمام کیا جاتا ہے۔

گود بھرائی بھی ایک ایسی ہی رسم ہے جس میں گویا ڈھول پیٹ کر ساری دنیا کو بتانے کی کوشش کی جاتی کہ ہمارے گھر کی بہو یا بیٹی امید سے ہے۔ مغرب اور دنیا کی دیگر ثقافتیں بھی اس رسم کو اپنائے ہوئے ہیں، مگر ہم جو شرم و حیا کے دعوے دار اور اخلاقی اقدار کے سب سے بڑے حامی ہیں، کیا ہمیں اس رسم کو جاری رکھنا چاہیے؟

گود بھرائی کی رسم سے جڑی ایک بداخلاقی بلکہ اس کا غیرانسانی اور شرم ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں بیوہ یا بے اولاد عورت کو شرکت سے روک دیا جاتا ہے۔ وہ لڑکی جس کے ہاں مردہ بچہ پیدا ہوا ہو اس موقع پر اسے دور رکھا جاتا ہے۔ یہ سب کسی محلے دار یا دور پار کی رشتہ دار خواتین کے ساتھ نہیں کیا جاتا بلکہ اس خوشی کے موقع پر اسی گھر میں موجود بھابھی، جٹھانی اور دیورانی جیسے رشتوں کے ساتھ ہوتا ہے جو ایسا کوئی رنج اٹھا چکی ہوں۔ اس خوشی سے ایسی عورت کو دور رکھ کر یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ گویا منحوس ہے، وہ ایسی بدبخت ہے جو ان کی خوشیوں کو نگل سکتی ہے، بگاڑ سکتی ہے، برباد کرسکتی ہے۔ سوچیے، کیا اس طرح ہم اتنی بڑی خوشی کے موقع پر اپنے جیسے احساسات اور جذبات رکھنے والی ایک عورت کی دل آزاری نہیں کرتے؟

کیا گود بھرائی کی رسم کے دوران قدم قدم پر ہم اپنے اور ان بدنصیب عورتوں کے درمیان حدِ فاصل نہیں کھینچ رہے۔ اسے بھرے پُرے گھر میں، خوشیوں میں شریک بخت آور، بامراد بیٹیوں کے درمیان اس کی بدنصیبی کا سرٹیفکیٹ نہیں تھما رہے اور وہ بھی یہ جانتے ہوئے کہ یہ اس عورت کی مرضی سے نہیں ہوا، اس پر اس کا زور نہیں چلتا۔ ایسی خوشی جو ابھی امید کے دامن میں جھول رہی ہے، اور گود میں نہیں اتری ہے، اس کے لیے ہم کسی کے ارمانوں کا خون اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں۔ ستم یہ کہ ہمیں اس کا ذرا سا احساس بھی نہیں ہوتا اور اچانک ملنے والی خوشی میں اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہم ایک آنے والی جان کے لیے پہلے سے موجود ہنستی مسکراتی زندگی کو جو پہلے ہی ایسی خوشی سے محروم رہنے کی وجہ سے بے حد رنجیدہ اور ملول بھی رہتی ہے، اس خوشی کی تقریب سے دور رہنے پر کیسے مجبور کر سکتے ہیں؟

اس رسم کو انجام دینے کے بجائے آپ خدا سے دعا کیوں نہیں کرتے کہ یہ سب خیرو عافیت سے ہو جائے اور گھر آنگن نئے مہمان کی آمد سے مہک اٹھے؟

گود بھرائی کی رسم جسے مغرب میں بے بی شاور بھی کہتے ہیں، عموماً حمل کے چوتھے ماہ یا آٹھویں مہینے میں انجام دی جاتی ہے اور اس کے لیے خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ نئے ملبوسات اور دیگر زیبائش کے علاوہ اب تو پارلر سے تیار ہونا بھی اس تقریب کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مہمانوں کو مدعو کرنا اور طرح طرح کے پکوان گویا ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہوتا ہے جو پہلی بار ماں بننے والی خاتون کو بے آرام کرسکتا ہے اور اس دوران اسے کوئی طبی مسئلہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ اس موقع پر گانے باجے اور خواجہ سراؤں کو بلا کر ان کا ناچ دیکھنا بھی عام ہے۔

اس کے علاوہ گود بھرائی ہی کی ایک اور قسم وہ ہے جو سسرال میں قدم رکھتے ہی انجام پاتی ہے۔ اکثر خاندانوں میں اس کا رواج ہے۔ پہلے روز دیگر رسموں کے درمیان نئی نویلی دلہن کی گود میں چھوٹا بچہ (لڑکا) ڈالا جاتا ہے اور اس سے یہ شگون لیا جاتا ہے کہ دلہن کی پہلی اولاد بیٹا ہوگا۔ افسوس کہ ہم ایسے رسم و رواج کی وجہ سے اپنی دینی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ بیٹا ہو یا بیٹی، اولاد تو خدا کی طرف سے نکاح میں بندھنے والے جوڑے کے لیے تحفہ ہے۔ وہ خالق ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹا دیتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے اور وہ چاہے تو بے اولاد ہی رکھے۔ ہم کس طرح محض ایک رسم کے ہاتھوں اپنے ایمان اور عقیدے کو پامال کرسکتے ہیں۔ ایسی کسی رسم کی نہ تو دین میں اجازت ہے اور نہ ہی اس کی کوئی سائنسی توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے تو پھر ہم نے اسے کیوں فرض سمجھ لیا ہے؟

دوسرے لفظوں میں ایسی رسم کا اہتمام کر کے ہم بہ حیثیت پہلی اولاد بیٹی جیسی رحمت کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایک طرف ہم اپنے ربّ کی ناشکری اور نافرمانی کرتے ہیں تو دوسری جانب یہ عمل صنفی امتیاز کی بنیاد رکھتا ہے، لیکن ہم نے کبھی اس طرح سوچا ہی نہیں۔ ہم پہلے دن سے ہی یہ چاہتے ہیں اور بہو کے دماغ میں بھی یہی بات بٹھا دیتے ہیں کہ وہ وارث ہی پیدا کرے گی جب کہ یہ سب اس کے اختیار میں نہیں ہے۔

کیا یہ سوچ جو اس کے دماغ میں 'انجیکٹ' کی جاتی ہے اس کے لیے ذہنی تناؤ کا باعث نہیں بنے گی؟ اگر وہ اپنے شوہر کو بیٹا اور اس کے والدین کو پوتا نہ دے سکی تو کیا یہ اس کا جرم بن جائے گا؟ کیا لڑکا پیدا کرنا عورت کے اختیار میں ہے یا ایسی رسموں اور تقاریب کے اہتمام سے یہ ممکن ہو جاتا ہے؟

دیکھا جائے تو ہم اپنے رب کے بجائے اس کی مخلوق سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ ہم ان رسوم کو اس لیے بھی نبھاتے ہیں کہ یہ ہمارے بزرگوں سے چلی آرہی ہیں اور خدشہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا انکار کرنے سے کسی عذاب یا مشکل میں گرفتار نہ ہوجائیں۔

دراصل ہم ایسے سماج میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہم انسانوں کو یا تو ڈراتے ہیں یا خود ڈرتے ہیں، لیکن ہم ان سے پیار نہیں کرتے۔ ہم اللہ کو مانتے ہیں، لیکن اس کی نہیں مانتے، ہم ہر وہ کام ڈھنڈورا پیٹ کر کرتے ہیں جس کی کوئی اصل اور بنیاد ہی نہیں ہوتی۔ گود بھرائی بھی ایک ٹوٹکے یا تُکے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر کسی جوڑے کے ہاں پیدائش کی خوشی ہی منانا ہے تو مسنون طریقے سے منائی جاسکتی ہے۔ ایسی خوشی کی خبر ملنے پر دعا و مناجات کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی گھر میں دو بہو ہوں جن میں سے ایک بے اولاد ہو تو اس کے مقابلے میں دوسری کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یقیناً دونوں کا موازنہ یا ان میں مقابلہ جہاں دل آزاری اور حسد کا باعث بنتا ہے، وہیں ایسا رویہ اپنانے سے بات حد سے بڑھ جائے تو یہ گھر کو گویا آگ لگانے کے برابر ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس خوشی کے موقع پر رب تعالیٰ سے خیر و عافیت طلب کرنے کا اہتمام کریں تو صرف صاحب اولاد ہی کو مدعو مت کیجیے بلکہ بیواؤں، یتیم، بے اولاد خواتین کو بھی ذکر و دعا کی محفل شامل کیجیے کہ آپ کے اسی عمل سے معاشرے سے توہم پرستی اور فضول رسومات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔