سرمایہ داری روشن خیالی اور جنگیں

لبرل حضرات جو ہمہ وقت ’’سائنس کی ترقی‘‘ اور ’’سائنسی طرز فکر‘‘ کا واویلا کرنے میں مگن رہتے ہیں


عمران شاہد بھنڈر September 06, 2013

امریکی و مغربی سامراج نے نائن الیون کے موقع پر انصاف، آزادی اور ماورائی اخلاقیات، جو جارج بش کے مطابق انھیں مسیحی خدا نے عنایت کی تھی، کے نام پر افغانستان میں جنگ برپا کی۔ بعد ازاں عراق پر مہلک ہتھیاروں کا الزام لگا کر، انسانی حقوق کی بقا کی خاطر، اس ملک پر بربریت مسلط کی اور اب شام پر انسانی حقوق کے نام پر معصوم انسانوں کے قتل عام کا منصوبہ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ اس جنگ سے جہاں ایک اور عالمی جنگ کا خطرہ بھی موجود ہے تو وہاں ظلم کا شکار لوگوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں لوگوں کے اذہان پر اس ظلم و بربریت کے گہرے نقوش بھی ثبت ہوں گے اور وہ اپنے عقائد یا اقدار کے دفاع کی خاطر امریکی و مغربی سامراجی مفادات پر حسبِ استعداد ضرب بھی لگائیں گے۔

لہٰذا ایک بار پھر وہی حربہ استعمال کیا جائے گا جو اس سے پہلے کم و بیش تمام حالیہ جنگوں سے جنم لینے والے ردِعمل کے نتیجے میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس طرح مسلمان اصل نکتے یعنی سامراجی بربریت کے نتیجے میں ہونے والی بے شمار معصوم لوگوں کی موت سے توجہ ہٹا کر خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے یہ راگ الاپنا شروع کردیں گے کہ ''اسلام امن کا مذہب ہے، اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔'' ایک بار پھر امریکی و مغربی بربریت مسلمانوں کو دفاعی سطح پر لاکھڑا کرے گی۔ سرمایہ داری نظام کا بحران جو ہر چند برس کے بعد انگنت انسانوں کی موت سے خود کو زندگی دیتا ہے، اسے نظر انداز کردیا جائے گا۔

لبرل حضرات جو ہمہ وقت ''سائنس کی ترقی'' اور ''سائنسی طرز فکر'' کا واویلا کرنے میں مگن رہتے ہیں، وہ ہر لمحہ غیر سائنسی رویوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور جنگوں کی سائنسی توجیہہ پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کیا اس بربریت و قتال کی سائنسی تشریح یہ ہے کہ امریکا و مغربی اقوام کو انسانوں سے بہت زیادہ محبت ہے اور وہ محبت انھیں مجبور کرتی ہے کہ وہ انسانوں سے منسلک اقدار کو دوام عطا کرنے کے لیے جنگیں برپا کرتے رہیں؟ ایسا سوچنا انتہائی طفلانہ عمل ہے۔ روشن خیال لبرل اس سوال کا جواب دینے سے بھی قاصر رہتے ہیں کہ سائنس کیونکر انسانوں کے قتال میں شامل رہتی ہے۔ وہ یہ حقیقت سمجھنے سے بھی محروم رہتے ہیں کہ ایک طبقاتی معاشرے یا دنیا میں سامراجی جنگیں سائنس ''سچائی'' کے انکشاف کا وسیلہ نہیں بلکہ سائنسی پیداواری حاصلات کو سرمائے اور طاقت کی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔

''تہذیبوں کے تصادم'' یا مذاہب کے مابین صف آرائی کا نعرہ محض آئیڈیولاجیکل تشکیل ہے۔ عہد حاضر میں مذہب کا کردار فیصلہ کُن نہیں ہے، بلکہ سرمائے کی مرکزیت کا سوال سب سے اہم ہے۔ مذہب روشن خیالی کے تابع ہے۔ دنیا کے ایک غالب حصے میں عقلیت ہی تمام معاملات کو متعین کرتی ہے اور عقلیت کے تمام تصورات سرمائے کی مرکزیت سے متعین ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ''برادر اسلامی ممالک'' بھی سامراجیوں کے ہم نوا بن رہے ہیں۔ حقیقت میں ''سرمائے'' پر قابض سامراجیوں کو اپنی برتری و بقا مقدم ہیں۔ ان کو یقینی بنانے کے لیے جمہوریت، انصاف، انسانی حقوق، ماورائی اخلاقیات اور الٰہیات کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔ عہد حاضر کا بحران حقیقت میں مذہبی عقلیت سے جنم نہیں لے رہا، بلکہ یہ لبرل عقلیت کا بحران ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم اور بعد میں برپا ہونے والی تمام جنگیں اپنی سرشت میں روشن خیال عقلیت یعنی علم اور غیر عقلیت یعنی طاقت کے امتزاج سے لڑی گئی ہیں۔ محرکات اس وقت بھی معاشی تھے اور آج بھی معاشی ہی ہیں۔

اگر بیسویں صدی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے اور پیداواری قوتوں کے ارتقا اور بحران کو اس کی بالائی شکل یعنی فکری و نظری سطح پر عقلیت کے فلسفوں کے ساتھ رکھ کر اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سترھویں صدی میں عقلیت کے آفاقی پروجیکٹ کے احیاء سے جس روشن خیال سوچ نے جنم لیا اس کا انہدام پہلی جنگ عظیم کے ساتھ ہی عمل میں آچکا تھا۔ مذہب کے نام پر اتنے لوگ کبھی نہ مارے گئے جتنے سرمایہ داری کی پیداوار اس نئے ظہور کرتے ہوئے ''انسان'' نے اپنی ''انسانی'' خواہش کی تکمیل کے لیے ہلاک کیے ہیں۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر نے 1927 میں اپنی کتاب ''وجود اور زمان'' میں عقلیت کے روشن خیال پروجیکٹ کے انہدام کو پہلی جنگ عظیم کے ساتھ جوڑ کر دیکھا اور اس خیال کو مسترد کردیا کہ مغربی تہذیب میں علمیات کے ارتقا کا پہلو مغربی فکر میں موجود جبری اور وحشت انگیز رجحان سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔

مغربی سرمایہ داری نظام اور مغربی تہذیب کی روشن خیال عقلیت کے اندر تضادات موجود ہیں۔ اسی خیال کے پیش نظر تمام روشن خیالی پروجیکٹ پر تنقید کا آغاز ہوا، لیکن اس تنقید سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا، وجہ یہ کہ مسئلہ محض تجریدی سطح پر خیالات کی تصحیح کا نہیں، اس بنیادی تضاد کی تحلیل سے حل کیا جاسکتا تھا، جو مختلف طبقات کے مابین پایا جاتا ہے۔ اور اس مسئلے کی شناخت صرف اور صرف سائنسی مادی جدلیات کے تحت ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ مغربی مفکروں کی عقلیت کے اندر مضمر تضادات کی بالائی سطح پر تحلیل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیداواری عمل میں مضمر تضادات مزید گہرے اور پیچیدہ ہوتے گئے اور آخرکار دوسری جنگ عظیم کی صورت میں ایک بار پھر پھٹ پڑے۔

تمام روشن خیال لبرل ایک بار پھر ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔ انگنت انسانوں پر بربریت مسلط کردی گئی۔ جرمنی کے فرینکفرٹ اسکول میں اس بربریت پر تنقید کا آغاز ہوا۔ تھیوڈور اڈورنو اور میکس ہورکہیمر نے 1943 میں ''روشن خیالی کی جدلیات'' لکھ کر روشن خیال فکر کے دہشت انگیز پہلووں کو نمایاں کردیا۔ ان دونوں مفکروں نے اس خیال کو تقویت دی کہ انسان کی مرکزیت پر مشتمل روشن خیال پروجیکٹ کی حیثیت ایک ''متھ'' سے زیادہ نہیں ہے۔ دہشت و بربریت اس کے وسط میں موجود ہیں۔ لبرل حضرات، بالخصوص پاکستان میں رہنے والوں کے پاس یہ خبر شاید کبھی نہ پہنچ پائی۔ یہ لوگ اس باطل خیال کے ساتھ رہ کر خوشی محسوس کرتے ہیں کہ روشن خیال عقلیت ابھی تک نہ صرف متعلقہ ہے بلکہ لازمی بھی ہے۔

کسی بھی جگہ جنگ و جدل کا آغاز ہو لبرل حضرات کا تعصب اس حد تک گہرا ہے کہ وہ اس کی جڑیں سماج کی تشکیل و بحران کو جنم دینے والی حقیقی پیداواری عمل میں طبقات کی حیثیت اور استحصال زدہ طبقات کی اپنے حقوق کی خاطر جنم لینے والی کشمکش اور تضادات میں تلاش کرنے کی بجائے داڑھی اور ٹوپی میں تلاش کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو یہ فکری حوالوں سے جس قدر عقلیت کی تبلیغ کرتے ہیں، عملی سطح پر اتنے ہی غیر عقلیت کے وسط میں جاکھڑے ہوتے ہیں۔ لبرل ازم کی فکری و نظری بنیادیں تو یہ روشن خیال لوگ کبھی وضع نہ کرپائے، تاہم اپنے رویوں سے یہ اس غیر عقلیت کے داعی ضرور بن جاتے ہیں جو اپنا اظہار ''طاقت'' کی شکل میں کرتی ہوئی فکری و عملی سطح پر فسطائیت سے مکمل ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ طاقت کی عملی شکل تشدد، دہشت، جبر و استبداد ہے۔ انسانوں کے قتال کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال ٖغیر عقلی و غیر سائنسی ہے، جس کی تبلیغ ہمہ وقت سائنس کے لبرل مبلغ کرتے رہتے ہیں۔

اعتدال پسندوں اور حقیقی سائنسی طرز فکر رکھنے والوں کے سامنے اس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے کہ چند برسوں کے بعد انسانیت کے نام پر انسانوں کو جنگوں میں بے رحمی سے قتل ہونے سے محفوظ رکھنے کاکوئی حل موجود ہے یا نہیں؟ سرمایہ داری نظام میں پیداواری ذرائع پر چند لوگوں کا قبضہ اور اسے برقرار رکھنے کی سعی اور منافعے کے حصول کی خواہش کا آخرکار جنگوں، دہشت گردی، ظلم و استبداد کی صورت میں اظہار سرمائے کی باطنی منطق کا لازمی نتیجہ ہے۔ جنگوں سے نجات کا مطلب سرمایہ داری نظام سے نجات ہے۔ اس نظام کے اندر رہ کر جنگوں سے نجات کی خواہش محض ایک واہمہ ہے۔ اگر اس نظام سے نجات نہ پائی گئی تو اس نظام میں مضمر تشدد و بربریت میں اضافہ ہوتا رہے گا، اور وسیع سطح پر تباہی پھیلانے والے مہلک سائنسی ہتھیاروں کے ذریعے نوع انسانی کے اس سیارے سے خاتمے کا امکان بھی بہرحال موجود ہے۔ اس لیے اس غیر انسانی نظام کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد میں ہی انسانیت کی فلاح و بقا ممکن ہے۔ اس کے لیے لائحہ عمل کی تشکیل و تنظیم عہد حاضر کا سب سے سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔