جماعت اسلامی کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی عمارت
آج ملک میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو نہ تو حکومت کے ساتھ ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق حکومت کے ساتھ ہیں نہ اپوزیشن کے ۔ وہ کہاں ہیں؟ وہ بجٹ روکنے کے حق میں ہیں۔ لیکن بجٹ کو پاس ہونے سے روکنے کے لیے اپوزیشن کی اے پی سی میں شرکت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں لیکن حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
سراج الحق بے لاگ احتساب کے حق میں ہیں، وہ اپوزیشن کے ساتھ اس لیے تعاون نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اپوزیشن کی تحریک کا واحد مقصداحتساب کے بھنور میں پھنسے اپنے قائدین کی رہائی ہے۔ لیکن احتساب کو مضبوط کرنے کے لیے وہ حکومت کو مضبوط کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ سراج الحق اپوزیشن کے رہنماؤں کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کے خلاف ہیں لیکن ساتھ ہی وہ حکومت کو بھی کسی بھی قسم کی رعایت دینے کے خلاف ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے۔
جمہوریت میں دو ہی فریق ہوتے ہیں۔ ایک اپوزیشن اور ایک حکومت۔ لیکن جب دونوں کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہ ہوں تو سیاست میں آپ کے لیے جگہ تنگ ہو جاتی ہے۔ مجبوری میں چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اہم معاملات میں مقاصد کے حصول کے لیے آپ کو دونوں میں سے کسی ایک فریق کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ لیکن دونوں کو نظر انداز ہی نہیں بلکہ یکسر مسترد کر کے کیا جماعت اسلامی ایک تیسرے فریق کے طور پر سامنے آنے کی پوزیشن میں ہے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ جب دونوں دھڑوں سے علیحدہ ہو جاتے ہیں تو آپ منظر نامے سے بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ آپ کا موقف گم جاتا ہے۔ آج جماعت اسلامی کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ شاید وہ اپنی بات آج بھی عام آدمی کو سمجھا نے سے قاصر ہیں۔
آج ملک میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو نہ تو حکومت کے ساتھ ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ آج ملک میں یہ سوچ اور نظر یہ بہت طاقتور ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں چور ہیں۔ آج غیر جانبدار لوگ یہ مانتے ہیں کہ ملکی مسائل کی ذمے داری سے نہ تو اپوزیشن اور نہ ہی حکومت بری الذمہ ہیں۔ عمران خان کی حکومت اور اس کی اپوزیشن دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اگر اپوزیشن کے لوگ این آر او مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت میں لوگ این آر او لے کر بیٹھے ہیں۔
کون جماعت اسلامی کے اس موقف کی مخالفت کر سکتا ہے کہ پاناما کے صرف ایک کردار نواز شریف کو سزا ملنا انصاف نہیں ہے بلکہ انصاف کا تقاضا ہے کہ پاناما کے 438 کرداروں کو نواز شریف جیسی سزا دی جائے۔ کون جماعت اسلامی کے اس موقف سے اختلاف کر سکتا ہے کہ تمام میگا کرپشن کیسز میں نواز شریف جیسی جے آئی ٹی بنائی جائے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ تمام مقدمات میں انصاف کی رفتار نواز شریف جیسی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن جہاں عام آدمی ان تمام باتوں کا حامی ہے وہاں وہ جماعت اسلامی کا حامی نہیں ہے۔
لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک سے نواز شریف اور زردای کو فائدہ ہو گا۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ مہنگائی کے خلاف تحریک ایک بہانہ ہے، دراصل نواز شریف اور زرداری کو باہر لانا ہے۔ لیکن پھر بھی لوگوں کی بڑی تعداد اپوزیشن کی تحریک میں ہی شامل ہوگی اور جماعت اسلامی کے جلسوں جلوسوں اور ریلیوں میں عوامی شرکت کی تعداد کم ہوگی۔
لوگ مانتے ہیں کہ دونوں طرف نیب زدگان کی بھرمار ہے۔ جماعت اسلامی میں کوئی نیب زدہ نہیں ہے۔ لوگ مانتے ہیں کہ سب نے پیسے بنائے ہیں۔لیکن جماعت اسلامی کے کسی فرد پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے اس کے بعد بھی لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لوگ وراثتی سیاست کے خلاف ہیں۔ لوگ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے حامی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں موروثی سیاست کو زہر قاتل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جماعت اسلامی میں نہ تو موروثی سیاست ہے اور نہ ہی وراثتی سیاست ۔ لیکن پھر بھی جماعت اسلامی کے ساتھ چلنے کے لیے یہ کافی نہیں۔ جماعت اسلامی کے اندرکی مکمل جمہوریت جماعت اسلامی کو جمہوری نظام میں قابل قبول کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
ایک طرف جماعت اسلامی کی جانب سے اپوزیشن کی اے پی سی میں شرکت سے انکار سے حکومت خوش ہو گی۔اپوزیشن کی جماعتیں کہیں گی دراصل سراج الحق باہر بیٹھ کر حکومت کو مضبوط اور اپوزیشن کو کمزور کر رہے ہیں۔ سراج الحق اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف جب جماعت اسلامی اکیلے مہنگائی اور کرپشن کے خلاف جلسہ جلوس کرتی ہے تو حکومت بھی ناراض ہو جاتی ہے کہ جماعت اسلامی کی ایسی حرکتوں سے اپوزیشن کا کیس مضبوط ہوتا ہے۔ لوگ اپوزیشن کے موقف کو درست سمجھنے لگتے ہیں۔ اس لیے جماعت اسلامی حکومتی کیمپ میں بھی نا پسندیدہ ہو جاتی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ پھر جماعت اسلامی کیا کرے ؟ میں سمجھتا ہوں کہ پے درپے سیاسی قلابازیوں نے جماعت اسلامی کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ پہلے ایک سے اتحا د پھر دوسرے سے اتحاد۔ پہلے چھوٹی برائی پھر بڑی برائی۔ پہلے متحدہ مجلس عمل کو توڑنا پھر بنانا۔ تحریک انصاف کے ساتھ جانا پھر نہ جانا۔ جب سب کہہ رہے تھے کہ تحریک انصاف کی کے پی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے تو ساتھ جڑے رہے۔ پھر جب سب نے کہا کہ اب جب پانچ سال پورے کر لیے ہیں تو اگلا انتخاب بھی ساتھ مل کر لڑیں تو علیحدگی اختیار کر لی۔ کون جماعت اسلامی کو سمجھائے کہ موقف کے ساتھ سیاست میں ٹائمنگ کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ درست بات غلط موقع پر کی جائے تو غلط ہو جاتی ہے اور اگر غلط بات بھی درست موقع پرکر لی جائے تو درست ہو جاتی ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں جماعت اسلامی نے صحیح بات ہمیشہ غلط موقع پر کی ہے جس کی وجہ سے ان کی صحیح بات بھی غلط ہو گئی ہے۔
پاکستان کی اسٹیبلشمٹ اور جماعت اسلامی کا بھی چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ کشمیر، افغانستان، بھارت، چین سمیت تمام اہم مواقع اور اہم ایشوز پر جماعت اسلامی اور اسٹیبلشمنٹ قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں۔ لیکن ملکی سیاست میں دونوں اکٹھے چلنے کی راہ تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک طرف دونوں کی سوچ میں اور حکمت عملی میں ہم آہنگی قابل دید ہے دوسری طرف دونوں کی ایک دوسرے سے بے اعتناعی بھی قابل دید ہے۔ ایک طرف سیسہ پلائی دیوار ہیں دوسری طرف حریف ہیں۔ یہ کیا حکمت عملی ہے۔ یہ کیا منطق ہے۔
سیاست نام ہے اقتدار حاصل کرنے کا۔ اگر اقتدار منزل نہیں ہے تو سیاست کیوں کرنی ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں نہیں پہنچنا ہے تو سیاست کیوں کرنی ہے۔ اگر ووٹ بینک نہیں بنانا ہے تو بطور سیاسی جماعت کیوں کام کرنا ہے۔ آپ بیک وقت دعوت و تبلیغ اور سیاست اکٹھے نہیں کر سکتے۔ آپ دیکھ لیں پچاس سال سے یہ ماڈل ناکام ہو رہا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ نہ تو دعوت و تبلیغ کا کام ٹھیک ہو رہا ہے اور نہ ہی سیاست ٹھیک ہو رہی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک کا انتخاب کر لیا جائے۔ دونوں حصوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔ اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ جماعت اسلامی نے دونوں محاذ پر الگ الگ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی عمارت بنا لی ہوئی ہیں۔ اور ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی عمارت کوئی تعمیری کام کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔