شکرگزار ہونا چاہیے
آپ چاہتے تو بہانہ بناکر واپس آنے سے انکار بھی کرسکتے تھے، لیکن آپ نے کچھ سوچ کر ہی واپس آنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔
RAWALPINDI:
مورخہ 20 جون 2019ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے مشہور و معروف العزیزیہ ریفرنس میں میاں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست مسترد کر دی۔ اِس سے پہلے بھی اِسی عدالت نے تمام میڈیکل رپورٹس کو دیکھتے ہوئے انھیں ایسا کوئی ریلیف دینے سے انکار کیا تھا ، لیکن نجانے میاں صاحب بار بار بیرون ملک علاج کی درخواست لے کر عدالت کیوں پہنچ جاتے ہیں، جب کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ فی الحال نہ حالات اُن کے لیے اتنے سازگار ہیں اور نہ اُن کی صحت اتنی تشویشناک ہے کہ عدالت انھیں اپنے طور پرکوئی ریلیف دیدے ۔ وہ ایسا کرکے خود اپنے لیے بھی سبکی اور ہزیمت کا سامان پیدا کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو بھی شرمندہ ہونے پر مجبورکرتے ہیں ۔
سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے کے تحت میاں صاحب کو پہلے ہی 6 ہفتوں کے لیے ضمانت پر عارضی ریلیف دے چکی ہے، جس کے دوران میاں صاحب کسی اسپتال میں اپنا علاج کروانے کی بجائے صرف اپنے ٹیسٹ ہی کرواتے رہے۔ پورے چھ ہفتے اِس تشخیصی عمل میں گزرگئے اورکسی لمحہ اسپتال میں داخل ہونے حاجت اور ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ لہذا اب ایک بار پھر علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی درخواست ویسے ہی بے معنی ہوکر رہ گئی تھی۔ ایسی صورتحال میں دیکھا جائے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے، وہ خلاف توقع ہرگزنہ تھا۔
میاں صاحب آج قیدوبند کی جن صعوبتوں سے گزر رہے ہیں، وہ اُن کے لیے کوئی نئی نہیں ہیں ۔ وہ اِس سے پہلے بھی 1999ء میں ایسی ہی بلکہ اِس سے بھی سخت سزاؤں کو بھگت چکے ہیں ۔ انھیں تو شکرگزار ہونا چاہیے کہ اِس وقت ملک میں کوئی غیر جمہوری حکومت نہیں ہے۔ باقاعدہ جمہوری انتخابات کی نتیجے میں ایک ایسی سویلین حکومت برسر اقتدار ہے جس نے ملکی قوانین اور آئین ودستورکی پاسداری کا حلف اُٹھایا ہوا ہے۔
وہ مروجہ قوانین اور دستور سے ماؤرا کوئی اقدام کر ہی نہیں سکتی۔ اِس کے باوجود کہ ہمارے ملک کی اعلیٰ عدلیہ پرکچھ نہ کچھ دباؤ ہر وقت موجود رہتا ہے لیکن ہماری عدالتیں اپنے دائرہ اختیارکے اندر رہتے ہوئے بڑی حد تک آزادانہ اور خود مختارانہ فیصلے کرنے کی کلی طور پر مجاز ہیں ۔ میاں صاحب آج گرچہ اپنے کچھ کردہ اور ناکردہ گناہوں کے سبب عدلیہ کی تاریخ کے ایک متنازع فیصلے کے تحت دس سال کے لیے جیل میں ڈال دیے گئے ہیں لیکن اِس کے باوجود اُن کے شعور اور لاشعور میں ایک آس و اُمید ہے کہ انھیں ریلیف ملا تو اِنہی عدالتوں سے ملے گا۔ 1999ء میں تو میاں صاحب کو ایوان وزیراعظم سے اُٹھاکے سیدھا کسی ایسے نامعلوم مقام پر بھیج دیا گیا تھا جہاں سے کسی دوست احباب کو توکیا اُن کے اپنے گھر والوں کو بھی کوئی شدھ بد اورخبر نہ تھی۔
وہ اٹک کے کسی سنسان قلعہ میں کئی ہفتوں کے لیے ڈال دیے گئے جہاں پرندوں کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی، شکر ہے آج ویسی صورتحال نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی و منشاء سے کوٹ لکھپت جیل میں ایئرکنڈیشن کمرے میں بند ہیں جہاں اُن کے گھر والے ہر ہفتے اُن کی خیریت دریافت کرنے آ جا سکتے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اُس وقت کے مطلق العنان حکمراں پرویز مشرف سے ایک پریس کانفرنس میں بے باک صحافی نے یہ پوچھنے کی جسارت کردی کہ سابق وزیراعظم اِن دنوں کہاں قید ہیں تو جواباً بڑی رعونت سے ارشاد فرمایا کہ ''جہاں بھی قید ہیں ہمیں آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے '' کوٹ لکھپت میں قید ہونا ، دور آمریت میں اٹک کے قلعہ میں قید ہو جانے سے کئی درجہ بہتر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قید تو آپ نے خود اپنی مرضی سے قبول فرمائی ہے۔ جب اعلیٰ عدالت کا فیصلہ آیا تو آپ اپنی زوجہ محترمہ کی بیماری کی غرض سے لندن میں قیام پذیر تھے۔
آپ چاہتے تو بہانہ بناکر واپس آنے سے انکار بھی کرسکتے تھے، لیکن آپ نے کچھ سوچ کر ہی واپس آنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ الیکشن سے صرف چند دن پہلے وطن واپسی کا فیصلہ کر کے جہاں آپ نے اپنے دلیر ہونے کا ثبوت دیا ہے تو دوسری جانب اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کاسامنا عدالتوں میں کر کے عدلیہ پر اپنے اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے۔ حالانکہ آپ کو معلوم تھا کہ جن قوتوں نے نااہل قرار دلواکر وزارت عظمیٰ سے معزول کیا ہے وہ آپ کوآپ کی سرکشی اور بغاوت کا پورا پورا مزہ بھی چکھانا چاہتی ہیں، لیکن آپ پھر بھی واپس آئے اور بخوشی قید وبند کی مصیبتوں کو گلے لگایا۔
میاں صاحب کو شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قید ہیں قطع نظر اِس کے کہ آپ پر لگائے گئے الزامات کتنے سچے اوردرست تھے۔ ورنہ تیسری دنیا کے کئی ملکوں میں آپ کی طرح اپنے ضمیروں کے کئی قیدی آج بھی زندگی و موت کی کشمکش سے دوچار ہیں جن کی کوئی خبر کسی اخبار یا الیکٹرانک چینل پر لائی بھی نہیں جاتی۔ مصر کے سابق صدر محمد مرسی بھی ایسے ہی قیدیوں میں سے ایک تھے۔ وہ چھ سال سے اپنے ناکردہ گناہوں کے سزا خاموشی سے برداشت کر رہے تھے۔ اُن کی اکا دکا خبرکبھی کبھار اخبارات کی زینت بن جایا کرتی تھی لیکن انسانی حقوق کی کوئی تنظیم اُن کے لیے آواز اُٹھانے کو تیار نہ تھی۔
اُن کا جرم کیا تھا، وہ بھی عوام کی تائیدوحمایت سے برسر اقتدار آئے تھے اور اُسی زعم میں اپنے ملک کو اُن قوتوں سے آزاد کروانا چاہتے تھے۔ وہ اُس نظام کو بدلنا چاہتے تھے جس نے ایک عرصہ سے اُن کے ملک کو جکڑ رکھا ہے۔ وہ بھی شاید ووٹ کو عزت دلوانا چاہتے تھے ، لیکن شاید غلطی کر گئے انھیں شاید معلوم نہ تھا کہ اُن کے عوام ابھی اِس کام کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ غلامی کے دور سے ابھی نکلنا نہیں چاہتے تھے ۔
یہی وجہ ہے کہ 51 فیصد ووٹوں سے جیت جانے کے باوجود کوئی شخص اُن کی مدد کو نہیں آیا ۔ صرف ایک سال میں وہ تخت سے معزول بھی ہوئے اور سزائے موت کے حقدار بھی قرار دیدیے گئے۔ وہ جب اپنے ملک کی ایسی ہی کسی عدالت کی روبرو زندگی و موت کی کشمکش سے گزر رہے تھے اور اپنے بے گناہ ہونے کی صفائیاں پیش کر رہے تھے تو خدا کو اُن پر ترس آگیا اور انھیں عدالتوں سے انصاف کی بھیک مانگنے کی بجائے اپنی عدالت میں بلا لیا ، لیکن اِن سارے دل خراش واقعات پر حیران کن طور پر اُن کے اپنے ملک میں کوئی معمولی سا احتجاج بھی نہیں ہوا ۔ اُن کی موت پرکسی نے آنسو نہیں بہائے ۔کسی نے سوگ نہیں منایا ۔ ایسی بے بسی اور لاچارگی کی موت شاید ہی کسی کی ہو ۔ میاں صاحب اِس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ یہاں انھیں اُن حالات کا سامنا نہیں ہے جن کا سامنا محمد مرسی کو تھا ۔
یہاں آج بھی عدل و انصاف کا کوئی مؤثرنظام رائج ہے ۔ یہاں میڈیا پر وہ قدغنیں نہیں لگی ہوئی ہیں جیسے محمد مرسی کے دیس میں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد آپ کو اپنالیڈر اور رہنما مانتی ہے اورآپ کے لیے آج بھی سڑکوں پر نکلنے کو تیار بیٹھی ہیں ۔ میاں صاحب کے لیے چاہنے والوں اور جاں نثاروں کی کوئی کمی نہیں۔خود ہماری عدلیہ میں بھی آج ایسے لوگ موجود ہیں جو ظالمانہ نظام کے خلاف جب چاہیں سینہ سپر ہو سکتے ہیں ۔ وہ ڈٹ جاتے ہیں اور ضمیر کا سودا نہیں کرتے۔
مارشل لا دور میں کئی ہمارے کئی منصفوں نے اپنے منصب اوراختیارات کے چھن جانے کی پرواہ نہ کی لیکن حق بات کہنے سے باز نہ آئے۔ میاں صاحب کوکوئی این آر او دے یا نہ دے لیکن اُن کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنا کیس اور مقدمہ عدالتوں کے روبرو لڑ کر ہی سرخروہوں ۔ اس کے علاوہ ریلیف کے تمام آپشنزمبہم ، مشکوک اور ناپائیدار ہی رہیں گے۔ انھیں اگر عوام کی نظروں میں سرخرو ہونا ہے تو عدالتوں میں صحت کے ایشو کو بنیاد بنا کر رہائی سے بہتر ہے کہ مقدمہ کے قانونی تقاضوں کو پورا کر کے عدالتوں سے انصاف حاصل کیا جائے۔