ریلوے کارکردگی نہیں مہنگائی ترجیح
ساڑھے دس ماہ میں ریلوے کارکردگی بڑھانے پر توجہ دی گئی نہ کرپشن روکنے کی کوشش کی گئی۔
QUETTA:
نئے پاکستان میں جہاں مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے، وہاں ریلوے معاملات کے تجربے کار وزیر کی توجہ ریلوے خسارہ پورا کرنے کے لیے کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے مسلسل ریلوے کرائے بڑھانے پر مرکوز ہے اور ان کے آنے کے بعد ریلوے کرایوں میں جو ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
دس ماہ قبل شیخ رشید احمد کو ریلوے تباہ حال اور بند نہیں بلکہ چلتی ہوئی ملی تھی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے ریلوے کو تباہی کے مکمل دہانے پر پہنچا دیا تھا اور ریلوے کے مسافروں نے ریلوے پر عدم اعتماد کر کے مجبوری میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر شروع کر دیا تھا۔
کون نہیں جانتا کہ بلور کی وزارت میں غیر اہم ہی نہیں اہم روٹ پر متعدد ٹرینیں بند کر دی گئی تھیں، فریٹ ٹرینیں برائے نام چل رہی تھیں اور مسافر ٹرینوں کے نہ آنے کا پتہ تھا نہ جانے کا۔ ڈیزل ختم ہونا، راستے میں ٹرینوں کا گھنٹوں خراب رہنا یا کھڑے رہنا روز کا معمول بن چکا تھا۔ بجلی کے بل ادا نہ ہونے سے اہم ریلوے جنکشنوں تک پر تاریکی چھائی رہتی تھی۔
ریلوے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہو پا رہی تھی اور ٹرینیں گھنٹوں کی تاخیر سے منزل پر پہنچ رہی تھیں۔ مسافروں نے ٹرینوں میں سفرکرنا چھوڑ دیا تھا، جس سے خسارہ مسلسل بڑھتا رہا مگر وزیر ریلوے وفاق سے فنڈ نہ ملنے کا شکوہ ہی کرتے رہے اور اپنے ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو بڑھاتے رہے مگر راولپنڈی کے فرزند نے ریلوے تباہی پر سابق وزیر ریلوے ہوتے ہوئے کبھی لب نہیں کھولے تھے۔
2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ریلوے بحالی کا ٹاسک خواجہ سعد رفیق کو ملا جو ان کے لیے ایک اہم چیلنج تھا مگر وفاقی حکومت کے تعاون سے نہ صرف ریلوے اور ریلوے سے روٹھے ملازمین اور مسافروں کا اعتماد بحال ہوا بلکہ ملازمین و افسران کی کوشش اور خواجہ سعد کی دن رات کی محنت سے ریلوے کی بند ٹرینیں چلنے لگیں۔ ریلوے اسٹیشنوں کی رونقیں بحال ہوئیں اور پانچ سال کی کوشش سے ریلوے نے مسافروں کا اعتماد پھر حاصل کر لیا اور مسافر ٹرینوں کی طرف لوٹے بند ٹرینیں بحال ہوئیں اور یہ حالت ہو گئی کہ ہفتوں قبل ٹرینوں میں ریزرویشن کرانا پڑتی تھی۔ عید الفطر اور عیدالاضحی کے روز سفر کرنے پر رعایت سابق دور میں ملی۔
65 سال کی عمر پر مسافروں پر رعایت تو بلور دور میں تھی مگر اس کا کریڈٹ شیخ رشید نے غلط طور پر لیا اور پرانی ٹرینوں کی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے پرانی بوگیوں کو رنگ کرکے نئی ٹرینیں چلانے کو اپنا مشن بنایا اور ابتدا وزیر اعظم کو خوش کرنے کے لیے میانوالی ایکسپریس چلا کر کی جس سے ریلوے خسارہ بڑھا۔ کراچی میں دھابیجی ایکسپریس چلا کر خسارہ مزید بڑھایا اور آخر بند کرنا پڑی۔ اپنی وزارت کے گیارہویں مہینے میں شیخ رشید نئی چھٹی ٹرین سرسید ایکسپریس کا افتتاح وزیر اعظم سے کروا رہے ہیں جو کراچی راولپنڈی کے درمیان چلے گی اور یہ فاصلہ ساڑھے بائیس گھنٹوں میں طے کرے گی جو بہت زیادہ ہے اور اب لوگوں کو وہ ٹرینیں سوٹ کرتی ہیں جن کے سفر کا دورانیہ کم ہو اور سہولیات اور کرایہ مناسب ہو۔
گزشتہ ساڑھے دس ماہ میں تقریباً تین درجن ریلوے حادثات ہو چکے ہیں جن میں جناح ایکسپریس کے چند روز میں دو حادثے بھی شامل ہیں۔ عملے کی غفلت سے حیدرآباد میں پیچھے سے آ کر کھڑی ہوئی مال گاڑی سے ٹکرائی جس میں ریلوے کے تین ڈرائیور ہلاک ہوئے۔ ریلوے حادثات میں اب تک متعدد مسافر زخمی اور ریلوے کا کروڑوں کا نقصان ہوچکا ہے۔ خوشحال خٹک ایکسپریس بھی دو بار حادثات کا شکار ہوئی۔ جعفر ایکسپریس گوجر خان میں پٹری سے اتری۔ کوئٹہ میں مال گاڑی کے ساتھ حادثہ پیش آیا۔ لاہور میں ٹرین کی تین بوگیاں یارڈ سے نکلتے ہی پٹری سے اتریں۔ حیدرآباد میں دو ٹرینیں ٹکرانے سے پندرہ گھنٹے ٹرینوں کی آمد و رفت مکمل معطل اور چھ روز تک متاثر رہی اور مسافروں کو گھنٹوں اسٹیشنوں پر سخت گرمی میں اذیت برداشت کرنا پڑی۔ ریلوے عملے کی کارکردگی بڑھنے کی بجائے بگڑ رہی ہے۔
حیدرآباد حادثے میں ریلوے کی امدادی ٹیمیں وقت پر نہیں پہنچیں اور مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں نکالیں اور زخمیوں کو نکالا جو ریلوے کی اندرونی بدتری کا واضح ثبوت ہے۔ پشاور تا کراچی ریلوے کا ایک اہم ٹریک ہے اور ٹریک کی مرمت کی بجائے بوگیوں کی تزئین و آرائش کرا کر نئی چھ ٹرینیں چلائی گئی ہیں جن میں شاہ حسین ایکسپریس کے علاوہ تمام ٹرینیں خسارے میں چل رہی ہیں اور ریلوے خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے جب کہ مسافر ٹرینوں میں رش مسلسل بڑھ رہا ہے جسے کم کرنے کے لیے وزیر ریلوے نے غیر اعلانیہ کرایہ بڑھانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ خاموشی سے بڑھایا جاتا رہا اور وزیر ریلوے نے اکنامی کلاس میں 50 میل سے زائد سفر کرنے پر فی ٹکٹ ایک سو روپے بڑھا دیا ہے اور ریلوے کرائے میں چھ تا سات فیصد کرایہ بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔
وزیر ریلوے کی 50 میل کی رعایت بھی عجیب ہے آج کے دور میں کوئی بھی شخص ٹرین کے ذریعے پچاس میل کا سفر ٹرین سے نہیں کرتا بسوں ویگنوں میں کرتا ہے۔ ٹرینوں میں رش مسلسل بڑھ رہا ہے مال گاڑیاں بڑھی ہیں مگر خسارہ کم نہیں ہو رہا۔
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ریلوے کا کباڑہ کردیا گیا ہے نئی ٹرینیں غیر ضروری طور پر چلائی گئی ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم کو خوش کرنے کے لیے نئی ٹرینیں چلائی گئیں اور خسارہ بڑھایا گیا ہے۔
ساڑھے دس ماہ میں ریلوے کارکردگی بڑھانے پر توجہ دی گئی نہ کرپشن روکنے کی کوشش کی گئی۔ ریلوے کی طرف سے کہا گیا کہ 30 جون تک تمام ٹرینوں میں تمام نشستوں کی ریزرویشن مکمل ہو چکی ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ اکانومی سمیت تمام کلاسوں میں نشستیں خالی تھیں مگر رشوت کے لیے ریزرویشن مکمل دکھانا اور جگہ نہ ہونے کا جواز ریلوے میں نیا نہیں ہے۔ ٹرینوں میں جگہ ہونے کے باوجود کہا جاتا ہے کہ جگہ نہیں ہے جب کہ نیٹ کے ذریعے چیک کیا جائے تو نشستیں خالی ہوتی ہیں مگر چونکہ ہر شخص کی نیٹ تک رسائی نہیں ہے اس لیے جگہ نہ ہونے کا بہانہ بناکر ریلوے عملہ رشوت لے کر جگہ دے دیتا ہے اس لیے بڑے ریلوے اسٹیشنوں پر اس سلسلے میں مکمل تفصیلات مسافروں کو دی جانی چاہئیں۔
سیاسی حلقوں نے حادثات پر شیخ رشید سے اسی طرح مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جیسا سعد رفیق سے کیا جاتا تھا مگر خواجہ سعد رفیق نے شیخ رشید سے ایسا مطالبہ نہیں کیا اس لیے وزیر ریلوے کو سیاست سے زیادہ توجہ ریلوے کارکردگی بہتر بنانے پر دینا ہو گی ورنہ ریلوے کی حالت نہیں بدلے گی۔