وارث نامہ

وارث شاہ نے اپنے کلام میں جو زبان استعمال کی وہ پنجاب کے مختلف علاقوں اور لہجوں کی خوب صورت مالا ہے۔


توقیر چغتائی June 28, 2019

وارث شاہ کا شمار پنجابی کے اہم صوفی شعراء میں ہوتا ہے اور اُن کی تصنیف ''ہیر وارث شاہ'' کی مقبولیت سے اہل ادب اچھی طرح واقف ہیں۔ وارث شاہ کے علاوہ دمودر داس اور مقبل نامی شعرا نے بھی ہیر رانجھا کا قصہ قلم بند کیا اور دیگر شعرا نے بھی اس قصے کو اپنے انداز سے تحریرکیا، مگر ''ہیر وارث شاہ '' کو جو مقبولیت ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی ۔

اس قصے پر برصغیر میں لگ بھگ بارہ فلمیں بن چکی ہیں جن میں زیادہ تر انتہائی کامیاب رہیں۔ ہیر رانجھا نام کی پہلی فلم خاموش فلموں کے زمانے میں ہی بن چکی تھی۔ ناطق فلموں کے دور شروع ہوا تو عبدالرشید کاردار نے 1932ء میں ''حور پنجاب'' کے نام سے اس قصے پر مبنی فلم بنانے کا آغاز کیا، لیکن بعد میں اس کا نام ''ہیر رانجھا'' رکھ دیا اور یہ اپنے دور کی کامیاب فلم ثابت ہوئی ۔

تقسیم کے بعد بھارت میں ایک بار پھر ''ہیر رانجھا '' بنائی گئی جس میں ممتاز شانتی نے ہیر اور غلام محمد نے رانجھا کا کردار ادا کیا تھا ۔ یہ وہی غلام محمد ہیں جو بعد میں اجمل ، نذیر ، آشا پوسلے ، ایم اسماعیل اور دوسرے بے شمار اداکاروں کی طرح بھارت کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے پاکستان آگئے اور یہاں کی فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے لگے۔

تقسیم کے آٹھ سال بعد یعنی 1955ء کو پاکستان میں پہلی بار اس قصے پر فلم ''ہیر'' بنائی گئی ، جس میں سورن لتا کے ساتھ عنایت حسین بھٹی نے رانجھا کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد 1962 ء میں فلم ''ہیر سیال'' بنائی گئی جس میں بہار بیگم نے ہیر اور سدھیر نے رانجھا کا کردار ادا کیا۔ 1965ء میں دوبارہ ''ہیر سیال'' بنائی گئی جس میں اداکار اجمل کے چھوٹے بھائی اکمل نے رانجھا اور فردوس نے ہیر کا کردار ادا کیا تھا۔ 1970ء میں ممبئی کی فلم انڈسٹری میں ایک بار پھر ''ہیر رانجھا'' بنائی گئی جس میں رانجھا کا کردار معروف اداکار راج کمار نے نبھایا اور خوب نبھایا، اُن کے مقابل پریا راج ونش نے ہیر کا کردار ادا کیا تھا۔

یہ فلم نہ صرف کاسٹ کے اعتبار سے انتہائی مضبوط تھی بلکہ اس کے ڈائیلاگ اور گیت کیفی اعظمی جیسے انتہائی اہم شاعر نے لکھے تھے جنھیں مدن موہن نے اپنی موسیقی سے سنوارا تھا۔ اسی سال لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی '' ہیر رانجھا '' بنائی گئی جس نے مقبولیت کے لحاظ سے اس موضوع پر بننے والی تمام فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ ا س فلم میں اپنے دور کے انتہائی کامیاب ہدایتکار مسعود پرویز کے ساتھ جب خواجہ خورشید انور جیسے منجھے ہوئے موسیقار اور منفرد شاعر احمد راہی اکٹھے ہوئے تو اس کے گیتوں نے فلمی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ ''ہیر رانجھا'' پر پاک و ہند میں کئی اسٹیج ڈرامے بھی پیش کیے گئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔کچھ دن قبل بھی کراچی آرٹس کونسل اور ملک کے دیگر شہروں میں ''ہیر رانجھا '' کے نام سے اسٹیج ڈراما پیش کیا گیا جسے بہت پسند کیا گیا۔

ہیر وارث شاہ پر ہزاروں تحقیقی مقالے لکھے گئے اور اس کے اشعار پنجاب کے دیہی علاقوں میں ضرب الامثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہر بند کے خاتمے پر وارث شاہ دانائی اور حکمت سے بھری کوئی نا کوئی ایسی بات ضرور کرتے ہیںجو پڑھنے اور سننے والوں کے دل میں اتر جاتی ہے۔

وارث شاہ نہ دبیے موتیاں نوں پُھل اگ دے وچ نہ ساڑیے نی

(وارث شاہ موتیوں کو دفن نہیں کرنا چاہیے اور پھولوں کو آگ میں نہیں جلانا چاہیے)

ہیر وارث شاہ کے اشعار کے لیے جو زمین منتخب کی گئی وہ دوسرے شعرا کے منتخب شدہ اوزان اور بحور سے مختلف اور مشکل ہے اور صدیوں پہلے لوک گائیکی کے ذریعے اس کی جو دھن وجود میں آئی وہ بھی صرف اسی کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی ہے، شاید اسی لیے اپنے دورکے انتہائی اہم شاعر انشااللہ خان انشا ء ہیر رانجھے کا قصہ سن کر یہ کہنے پر مجبور ہوئے۔

سنایا قصہ جوکل رات ہیر رانجھے کا

تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا

وارث شاہ نے اپنے کلام میں جو زبان استعمال کی وہ پنجاب کے مختلف علاقوں اور لہجوں کی خوب صورت مالا ہے۔ اس قصے کو انھوں نے عشق کے قصے تک محدود نہ رہنے دیا بلکہ اس کے ذریعے اُس زمانے کے پنجاب کی تاریخ و ثقافت ، رہن سہن ، رسم و رواج ، موسیقی، کھیتی باڑی اور مذہبی و سماجی صورتحال کا بھی بھر پور جائزہ لیا۔ اُن کے کلام میں جہاں برصغیر میں آباد ذاتوں اور قومیتوں کی فہرست ملتی ہے وہاں مہلک بیماریوں اور اُن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں کا بھی پتہ چلتا ہے اور جاگیر دارانہ نظام میں زمین کی ملکیت اور اُس سے جڑے رشتوں کے استحصال کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ انھوں نے ایسی علامتیں استعمال کی ہیںجن میں صدیوں کی تاریخ بھی چھپی ہوئی ہے اور ان میں مسلمانوں کی مذہبی اقدار کے ساتھ ہندو دیو مالا کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔

ڈاکٹر منظور اعجازکا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے اپنی جوانی میں ملک کی سیاسی اور سماجی تحریکوں کو انتہائی قریب سے دیکھا۔ وہ پنجابی کی کلاسیکی روایت کے ساتھ بھی جُڑے ہوئے ہیں اور موجودہ دور میں ہونے والی جدید تبدیلیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔

وہ امریکا میں مقیم ہیں مگر اپنی تاریخ ، ثقافت اور بدلتی ہوئی سیاست کے شب و روز سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ پچھلے انتہائی کم عرصے میں انھوں نے پنجابی اور اردو ادب کو جو نئی کتابیں دی ہیں ان میں ایک اہم کتاب ''وارث نامہ'' کا بھی اضافہ ہوا جس میں ہیر وارث شاہ کے مشکل کلام کی تشریح کی گئی ہے ۔ پانچ جلدوں پر مشتمل اس تشریح کے ساتھ انھوں نے ''وارث شاہ دی مڈھلی وچار دھارا'' کے نام سے ایک ایسی کتاب بھی تصنیف کی ہے جو وارث شاہ کی بنیادی سوچ ، اس قصے میں تبدیلیوں ، عشق حقیقی اور مجازی ، عورت ذات ، پنجاب کی تاریخ و ثقافت ، وارث شاہ کا شعری ڈھنگ اور اُن کے علم اور نظریے جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔

ہمارے خیال میں ڈاکٹر منظور اعجاز کی اس کتاب کو ہیر رانجھا کے قصے کی تشریح کے بجائے ایسا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا جو '' ہیر وارث شاہ '' میں استعمال ہونے والی علامات اور تشبیات کی تشریح کے ساتھ قاری کو ایسے حوالے فراہم کرتا ہے ، جو اُسے مزید مطالعے کی طرف راغب کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں