اردو انگریزی لغت بھی آ گئی

اردو والوں کو ایک سچ مچ کی خوشخبری اور ایک سچ مچ کا قیمتی تحفہ۔ وہ تحفہ ہے اردو انگریزی لغت۔ اور چونکہ یہ...


Intezar Hussain September 08, 2013
[email protected]

اردو والوں کو ایک سچ مچ کی خوشخبری اور ایک سچ مچ کا قیمتی تحفہ۔ وہ تحفہ ہے اردو انگریزی لغت۔ اور چونکہ یہ لغت اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام مرتب ہوئی ہے اس لیے سمجھ لینا چاہیے کہ ایک مُستند لغت ہے۔

ارے صاحب ایک تو وہ زمانہ تھا کہ ہم خالص انگریزی ڈکشنری پر گزارہ کرتے تھے۔ یعنی انگریزی لفظ کے معنی انگریزی ہی میں۔ اگر معنی آپ نے سمجھ لیے تو پھر اپنی سمجھ سے اردو میں ترجمہ کر لیجیے۔ پھر ایک وقت آیا کہ ایک انگریزی اردو ڈکشنری شایع ہوئی اور اسے بڑا واقعہ سمجھا گیا۔ ہمیں یاد ہے کہ پاکستان کی اولین دہائیوں میں اردو اخباروں کے نیوز روم میں ایک ڈکشنری رکھی نظر آتی تھی۔ انجمن ترقی اردو کی شایع کردہ مولوی عبدالحق کی مرتب کردہ انگریزی اردو ڈکشنری، اخباروں کے دفتروں میں انگریزی سے اردو میں خبریں ترجمہ کرنے کے لیے سب ایڈیٹر حضرات اسی ڈکشنری سے کام چلاتے تھے۔ اگرچہ اعتراض بھی کرتے جاتے تھے مگر دوسری کوئی ڈکشنری تھی ہی نہیں کہ اس ڈکشنری کا اچھا یا برا بدل بن سکتی۔

ہاں آگے چل کر مرکزی اردو بورڈ نے اشفاق احمد کی نگرانی میں فیلن کی انگلش ہندوستانی ڈکشنری 'انگلش اردو ڈکشنری' کے نام سے شایع کر دی۔ مگر یہ تو انیسویں صدی کی مرتب کردہ ڈکشنری تھی۔ ہر چند کہ دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ نئے زمانے کے حساب سے اس پر نظرثانی کی گئی ہے اور نئے لفظوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مگر ہم نے اس ڈکشنری کو بہت الٹا پلٹا ہے ہمیں تو احساس ہوا نہیں کہ انیسویں صدی کی اس ڈکشنری کو بیسویں صدی کی ڈکشنری بنانے کی کوشش کی گئی ہو۔

لیکن اردو انگریزی ڈکشنری بھی ہو سکتی ہے اس کا ہمیں اس وقت احساس ہوا جب مرکزی اردو بورڈ نے ڈاکٹر فیلن کی اردو انگریزی ڈکشنری چھاپ ڈالی اور سنگِ میل نے جان پلاٹس کی 'اے ڈکشنری آف اردو' کلاسیکل ہندی اینڈ انگلش ڈکشنری' چھاپی۔ مگر یہ دونوں ڈکشنریاں بھی انیسویں صدی کے کارنامے تھے۔ بیسویں صدی کے بیچ یہ ڈکشنریاں ناکافی نظر آتی تھیں۔ ایک صدی میں زبان کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی اور یہ ڈکشنریاں وہی انیسویں صدی کی زبان کا راگ الاپ رہی تھیں۔

ہاں جمیل جالبی نے، جب وہ مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین تھے، ایک بڑا قدم اٹھایا۔ ایک انگریزی اردو ڈکشنری 'قومی انگریزی اردو لغت' کے عنوان سے مرتب کر ڈالی۔ جو دو ہزار تین سو چھپن صفحات میں پھیلی ہوئی ہے۔

جب پاکستان میں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے قدم رکھا تو اس نے انگریزی کتابیں چھاپتے چھاپتے جلدی ہی اردو میں بھی قدم رکھ دیا۔ سو اس ادارے کی طرف سے اردو کتابیں بھی شایع ہونے لگیں۔ کچھ انگریزی سے اردو میں ترجمے، کچھ براہ راست اردو میں لکھی ہوئی کتابیں۔

اوکسفرڈ انگلش ڈکشنری سے تو ہم کب سے آشنا چلے آتے تھے اور اسے ایک مستند ڈکشنری کا رتبہ حاصل تھا۔ اب پاکستان میں بیٹھ کر اردو ڈکشنری کے سلسلہ میں بھی قدم اٹھایا گیا۔ شان الحق حقی نے اس ادارے کی نگرانی میں ایک انگلش اردو ڈکشنری مرتب کر ڈالی جو اوکسفرڈ انگلش اردو ڈکشنری کے نام سے شایع ہوئی۔ اب اس ادارے نے اس سے بھی بڑھ کر ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ ہے اوکسفرڈ اردو انگریزی لغت کی اشاعت۔

اس تازہ کارنامے کی نگران اعلیٰ تھیں امینہ سیّد اور مدیر اعلیٰ رئوف پاریکھ۔ مولفین تھے ایس ایچ سلیم الدین اور سہیل انجم، مشیر جمیل جالبی۔

ابتدا میں ایک طویل و بسیط دیباچہ بھی ہے۔ شروع میں اردو زبان پر تھوڑی بحث۔ پھر اردو لغت نویسی کی مختصر تاریخ بھی اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ رقم کی ہے۔ اس میں دلچسپ بیان یہ ہے کہ ''اردو بہ اردو لغات کی باری بعد میں آئی۔ اس سے پہلے انگریزی بہ اردو لغات کا چرچا ہو گیا۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ انگریزی دور شروع ہو چکا تھا۔ اب اردو قدم قدم پہ انگریزی سے اشارہ لے رہی تھی، کوشش تھی کہ انگریزی کے قدم بہ قدم چلا جائے اور یہ کام سب سے بڑھ کر تو ان انگریز محققوں نے کیا جو یہاں کی زبانوں میں بھی شناوری کر رہے تھے۔ سب سے بڑھ کر 'ہندوستانی' میں جس کے ذیل میں ان کے حساب سے یہ دونوں زبانیں آتی تھیں، اردو و نیز ہندی۔ چند ایک ایسی لغات کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔ ایسے کاموں کا تفصیل سے جائزہ اس پیش لفظ میں لیا گیا ہے۔ ایسے کام زیادہ تر انیسویں صدی میں ہوئے۔ بیسویں صدی کے آتے آتے یہ سب لغات اور ڈکشنریاں طاق نسیاں کی زینت بن گئیں۔ وہ تو یہ کہیے کہ پاکستان کے قیام کے بعد پہلے انھیں طاق نسیاں سے باہر نکالنے کا خیال مرکزی اردو بورڈ کو آیا پھر سنگ میل نے اس کام میں بہت سرگرمی دکھائی۔

اردو لغت نویسی کو جن رجحانات نے نقصان پہنچایا ان کا دیباچہ میں بطور خاص ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ دلی اور لکھنؤ کی زبان کو مستند سمجھ لیا گیا۔ اسی حساب سے لغات میں الفاظ درج کیے گئے۔ جب کہ صحیح رویہ وہ ہے جو انگریز لغت نویسوں نے اختیار کیا۔ مثلاً فیلن نے ''علاقائی تلفظ' مقامی استعمال' اور دیہاتی کہاوتوں کو بھی لغت میں جگہ دی۔ اس نے بھوجپوری' مارواڑی' پنجابی' سہارن پوری' مغربی صوبجات کے علاوہ عورتوں کی زبان کی بھی نشان دہی کی۔''

اس سلسلہ میں شان الحق حقی کا ایک بیان سن لیجیے جو یہاں درج ہوا۔ ''اردو کا جو معیاری لب و لہجہ رہا ہے اس کے بولنے والوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ اس کے برخلاف اردو بولنے والوں کی تعداد بڑھ گئی اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس کا مستقبل ان لوگوں کے ساتھ وابستہ ہے جن کی یہ مادری زبان نہیں اور جو اہل زبان نہیں ہیں۔ آیندہ اس کا معیار ان ہی کے مذاق سے متعین ہو گا۔''

یہاں ایک اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ اردو میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنانے کی بہت صلاحیت ہے۔ پھر ایسے الفاظ کو قبول کر کے اسے اپنی ضروریات کے مطابق توڑتے مڑوتے رہتے ہیں۔ مثلاً انگریزی سے لفظ فلم اردو نے اس طرح لیا کہ اسے اپنے اندر سمو لیا۔ پھر اس سے اپنے حساب سے فعل بھی بنا لیا۔ فلمانا، اب یہ بھی اردو ہے۔ انگریزی سے لفظ بور لیا۔ اس سے بوریت بنا لیا۔ اب بوریت بھی اردو ہے۔

مطلب یہ ہے کہ اب جب ہم اس زمانے میں اردو کی کوئی بھی لغت مرتب کرنے بیٹھیں گے تو مرتب کرنے والوں کو اتنا لسانی شعور ہونا چاہیے کہ دوسری زبانوں سے کونسے لفظ اردو میں آ کر اس میں کھپ گئے ہیں۔ وہ اب اردو کے لفظ ہیں۔ اور کونسے ایسے لفظ ہیں جو اردو میں کھپ نہیں سکے۔

مطلب یہ ہوا کہ لغت نویسی محض اردو کے پہلے سے جانے پہچانے لفظوں کے اندراج کا نام نہیں ہے۔

زبان جس لسانی عمل سے گزر رہی ہے اور جو نئے الفاظ اور لہجے اس میں کھپ گئے ہیں انھیں بھی ملحوظ رکھنا ہے۔

سو اس ڈکشنری کے ساتھ یہ دیباچہ بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لغت سے استفادے کے لیے جو ہدایات درج کی گئی ہیں اور جو توضیحات کی گئیں وہ بھی پیش نظر رکھنی چاہئیں۔ مطلب یہ کہ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے بہت بالغ نظری کے ساتھ یہ اردو انگریزی لغت مرتب کی ہے۔ یہ بالغ نظری نگران اعلیٰ امینہ سید کی بالغ نظری پر دلالت کرتی ہے۔ ویسے کتابت و طباعت کے لحاظ سے بھی یہ کتاب خوب اور مرغوب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں