قرآن فہمی

’’مفتا‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو صرف ہلے گلے اور کھاؤ پیو کے نظریات رکھنے والے نوجوانوں ہی میں مقبول نہیں...


Dr Naveed Iqbal Ansari September 08, 2013
[email protected]

''مفتا'' ایک ایسی اصطلاح ہے جو صرف ہلے گلے اور کھاؤ پیو کے نظریات رکھنے والے نوجوانوں ہی میں مقبول نہیں بلکہ جہاندیدہ پڑھے لکھے اور مطالعے کا ذوق رکھنے والے سنجیدہ لوگوں میں بھی رائج ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ ہمارے ہاں مطالعے کا کلچر جس قدر بھی ہے اس میں بھی مفتا کلچر پنہاں ہے، یعنی مطالعے کے لیے مفت کی کتابوں کا انتخاب کرنا یا مفت کی کتابوں کا شکار کرنا۔ کل ہی کی بات ہے کہ ہم جامعہ کراچی میں اپنے کمرے کی منتقلی پر تمام کتابیں الماری سے نکال کر نئی جگہ منتقل کرنے کی تیاری کر رہے تھے کہ ہمارے ایک دوست آ گئے جنہوں نے کچھ ہی عرصہ قبل ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر لی ہے، انھیں دیکھتے ہی ہم نے اپنی کتابوں کو تحفظ دینے کی ناکام سی کوشش کی، اس دوران یہ ڈاکٹر صاحب ہماری تین عدد کتابیں ''مفتے کے کانٹے'' سے شکار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہم نے پھر بھی اپنی کوشش جاری رکھی اور ایک نئی کتاب پر جلدی سے اخبار ڈال کر اسے شکار ہونے سے بچا لیا اور پہلی فرصت میں گھر لے آئے۔

یہ کتاب ہمیں پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج نے بڑے پیار و محبت سے دی تھی۔ یہ ان کی محبت ہے کہ ہمیشہ نہ صرف اپنی کتاب شایع ہوتے ہی مجھ ناچیز کو بھی دیتے ہیں بلکہ موقع ہو تو اپنے دوستوں کی بھی تصانیف پہنچانے کا موقع ضایع نہیں کرتے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج رئیس کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی ہونے کے علاوہ علمی و تحقیقی حوالوں سے بھی تعارف کی ایک طویل فہرست رکھتے ہیں، بہر کیف ان کی حالیہ کاوش ''قرآن مجید کے منتخب اردو تراجم کا تقابلی جائزہ'' ہے جو ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا حصہ ہے۔

ڈاکٹر شکیل اوج نے اپنے تحقیقی مقالے کے لیے جن مشاہیر کے ترجموں کا انتخاب کیا تھا ان میں مولانا محمد حسین دیوبندی، مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا عبدالماجد دریا بادی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا پیر محمد کرم شاہ الازہری اور مولانا ابو منصور شامل ہیں۔ مصنف نے موضوع کو بیان کرنے کے لیے چھ مختلف عنوانات رکھے ہیں جن میں : 1۔ قرآن حکیم کے ترجموں کی ضرورت و اہمیت۔ 2۔ قرآن حکیم کے اردو تراجم کی ابتدا اور اس کا ارتقائی جائزہ۔ 3۔ منتخب اردو ترجمہ نگاروں کا تعارف۔ 4۔ منتخب اردو تراجم کا تقابل بلحاظ معنویت۔ 5۔ منتخب اردو تراجم کا تقابل بلحاظ لغویت۔ 6۔ منتخب اردو تراجم کا تقابل بلحاظ ادبیت و متفرقات۔

مذکورہ بالا چھ عناوین میں سے موخرالذکر تین عناوین کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب کا سب قرآن مجید کے آخری پارے عم سے ماخوذ و مستفاد ہے، بقول ڈاکٹر صاحب اس پارے کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ پارہ بالعموم مسلمانوں کو یاد ہوتا ہے اور اس کی سورتیں اور آیتیں بالعموم نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں اور یاد کی ہوئی آیت یا سورت کا سمجھنا نہ صرف آسان ہوتا ہے بلکہ بہت دلچسپ بھی ہوتا ہے۔ اس پارے کی فقط ان ہی آیات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جس میں مترجمین کے درمیان کوئی معنوی یا لفظی یا ادبی فرق و اختلاف پایا ہے۔ وہ آیات کہ جس میں ایسا کوئی فرق و اختلاف نہیں پایا اسے بحث میں شامل ہی نہیں کیا۔

پرفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کی اس کاوش کی مذکورہ بالا پیش کی گئی تفصیل کا مقصد ان محققین اور مطالعے کے گہرے ذوق کے حامل افراد کی توجہ اس طرف مبذول کروانا ہے وہ اس اہم تحقیق کو (جو کتاب کی شکل میں بھی پیش کی گئی ہے) ضرور شامل مطالعہ کریں۔ ڈاکٹر شکیل اوج ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''بدقسمتی سے مسلک پرستی کے باعث عوام میں یہ تصور جڑ پکڑ گیا ہے کہ ان کے مسلک کے سوا دیگر مسالک کے تراجم درست نہیں ہیں، ظاہر ہے کہ اس ضمن میں تمام ہی مسالک کے لوگوں کا طرز عمل ایک جیسا ہے چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کو مسلک پرستی سے ہٹا کر ان میں قرآن فہمی عام کرنے کی سعی کی جائے۔ اس ضمن میں راقم الحروف (ڈاکٹر شکیل اوج) نے فیصلہ کیا کہ مختلف معروف مسالک و مکاتب کے ترجموں میں انتخاب کرتے ہوئے قرآن مجید کے آٹھ منتخب اردو تراجم کا بے لاگ تقابلی جائزہ پیش کرے تا کہ تحقیق کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی تنگ نظری اور جانب داری کے بغیر یہ باور کرا سکے کہ فلاں فلاں ترجمے میں یہ خوبی اور کمال ہے''۔

اردو زبان میں اب تک تقریباً ساڑھے چار سو تراجم و تفاسیر شایع ہو چکے ہیں۔ اردو زبان میں قرآن مجید کے تراجم کا سلسلہ دسویں صدی ہجری سے شروع ہوا تھا۔ اہل علم و فکر کے لیے ڈاکٹر شکیل اوج کی یہ کتاب بلاشبہ ایک قیمتی تحفہ ہے۔ ویسے بھی آج ہمارے معاشرے کی جو اخلاقی پستی ہے اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ قرآن فہمی کا سلسلہ بالکل نچلی، عوامی سطح سے تحریک کی شکل میں شروع کیا جائے۔ قرآن فہمی کے ضمن میں آج بھی مختلف لوگ اور جماعتیں کام کر رہی ہیں جو ایک اچھا سلسلہ ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی قائم کردہ تنظیم اسلامی بھی اس میدان میں نہایت فعال کام انجام دے رہی ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں ان کی جانب سے ہر سال تراویح معہ ترجمہ و تشریح منعقد کی جاتی ہیں اور یہ صرف کسی ایک جگہ نہیں بلکہ کراچی جیسے شہر میں بیک وقت درجن بھر سے زائد مقامات پر منعقد کی جاتی ہیں، نیز ان کے پلیٹ فارم سے قرآن فہمی کورس کے بھی مختلف مدتوں کے پروگرام جاری ہیں۔ ان پروگراموں میں جو مضامین شامل ہیں ان میں بنیادی قواعد تجوید، آسان عربی گرامر، ترجمہ قرآن حکیم، اردو ترجمہ قرآن، مطالعہ حدیث/ سیرت النبیؐ، علم تفسیر، اصول تفسیر، علم حدیث، اصول حدیث، عربی زبان و ادب، علم و فقہ و اصول فقہ اور عربی گرامر برائے قرآن فہمی وغیرہ شامل ہیں۔

ایک اچھی بات یہ ہے کہ قرآن فہمی سے متعلق کورس میں کوئی بھی شخص جو اردو پڑھنا لکھنا جانتا ہو شریک ہو سکتا ہے اور اس کا اہتمام کراچی جیسے بڑے شہر کے تقریباً تمام ہی علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ قرآن کے حوالے سے ان کا پیغام ہے کہ قرآن کا پہلا حق ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، دوسرا حق ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے (روزانہ تلاوت بھی کی جائے) تیسرا حق ہے کہ قرآن کو سمجھا جائے، چوتھا حق ہے کہ قرآن پر عمل کیا جائے اور پانچواں حق ہے کہ قرآن کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔ قرآن کے حوالے سے یہ پیغام قطعی واضح اور وقت کی ضرورت بھی ہے اور اس پیغام پر عمل کر کے ہی موجودہ مسائل اور پستی کی حالت باہر آیا جا سکتا ہے لیکن اس کی ایک بنیادی شرط مطالعہ اور شعوری مطالعہ ہے۔

افضل بات تو یہ ہی ہو سکتی ہے کہ قرآن کو اس کی زبان میں ہی سمجھا جائے لیکن زبان نہ آتی ہو تو اپنی مادری زبان میں ترجمہ و تفسیر کا مطالعہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے، باوجود اس حقیقت کے کہ ہر زبان کا لہجہ اور اسالیب دوسری زبان سے مختلف ہوتا ہے، کسی زبان کے ادبی شہ پارہ کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ اس کا ناقص ترین معنوی اظہار ہے۔

بہرکیف ''قرآن مجید کے منتخب اردو تراجم کا تقابلی جائزہ'' ایک قابل مطالعہ تحقیقی کتاب ہے، ضرورت تو اس امر کی ہے کہ آج قرآن فہمی کو فروغ دیا جائے اور عربی زبان کو سمجھ کر قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو کیا ہی بات ہے کہ اس سے دوری کے سبب ہی آج عالم اسلام کی پستی کا باعث ہے، بقول اقبال:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں