قوم اور قومیت کی اہمیت
قوم پرستی ایسا جذبہ ہے جس کی بنیاد زبان، مذہب اور رسم و رواج کے اشتراک پر استوار ہوتی ہے۔
مشہور مفکر لاسکی نے قومیت کی تعریف اس طرح کی ہے، قومیت ایک مخصوص نوعیت کا اتحاد ہے اور جو اس گروہ میں پیدا ہوتا ہے جو اس احساس میں شریک ہو اور یہ احساس اتحاد کی بدولت انھیں دوسرے گروہوں سے علیحدہ کرتا ہے اور اس کی وجہ بقول گل کرائسٹ یہ ہے کہ قومیت ایک روحانی احساس اور اصول ہے جو لوگوں کے ایسے گروہوں میں جنم لیتا ہے جن کا تعلق ایک ہی نسل سے ہو، ایک ہی جگہ ان کی رہائش ہو، ان کی زبان ایک ہو اور ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہوں ان کی روایات، رسم و رواج میں یکسانیت پائی جاتی ہو، ان کے مفادات اور سیاسی روابط کا مقصد ایک ہو۔
قومیت ابتدائی شکل اور قوم اس کی ترقی یافتہ شکل کا نام ہے۔ قوم پرستی کی تعریف مشہور مورخ شیول اس طرح کی ہے، قوم پرستی ایسا جذبہ ہے جس کی بنیاد زبان، مذہب اور رسم و رواج کے اشتراک پر استوار ہوتی ہے۔ بے شک قوم پرستی کے جذبات ایک دوسرے میں محبت و اتفاق کا سبب بنتے ہیں، اس جذبے کے تحت بہت سے ملک غلامی سے آزاد ہوئے ہیں۔ خصوصاً پاکستان کی ہی مثال ہمارے سامنے ہے ایک مذہب کے پیروکاروں نے اپنا ملک بنانے کی تگ و دو قائد اعظم کی رہنمائی میں کی، تاکہ آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرسکیں۔
اسی طرح فیوڈل زمانے کے عروج میں یورپ کے تین ملکوں میں قومی جذبات ابھر کر سامنے آئے ان ممالک پر غیر ملکیوں نے جو مسلح تھے حملے کیے تھے جس کی وجہ سے ہر ملک کو نقصان اٹھانا پڑا ۔ ان حالات میں حب الوطنی کے احساس کے تحت ہر شخص کا ایک ہی نظریہ تھا اور وہ تھا دشمنوں سے اپنے ملک کو بچانا اور اس کی حفاظت کے لیے نت نئی تدبیریں کی جانے لگیں۔ اسپین پر آٹھویں صدی میں عربوں نے قبضہ کرلیا۔ ان کے خلاف طویل جدو جہد کی گئی اسی انتشار کی بدولت ہسپانوی عوام میں قوم پرستی کا جذبہ پیدا ہوا، مخالفین کے درمیان جنگ جاری رہی اس طرح عربوں کے آخری قلعہ غرناطہ پر 1492 میں عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا۔ ان حالات میں مسلمانوں کا تقریباً آٹھ سو سالہ دور اختتام کو پہنچا اور اسپین ہاتھ سے نکل گیا۔
قوم پرستی کی ایک اور مثال فرانس ہے اور اس قوم کی علامت جون آف آرک تھی جس نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی، انگریزوں نے اس سے اس طرح انتقام لیا کہ اسے زندہ جلا دیا گیا جون آف آرک کی قربانی ضایع نہیں گئی بلکہ فرانسیسی عوام کے دلوں میں قوم پرستی اور اپنے تحفظ کے احساس کو بیدارکیا اور وہ سب ایک طرح سوچنے لگے اور دشمن سے مقابلے کے لیے ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آئے اور پھر انھوں نے غیر ملکی دہشت گردوں کو مار بھگایا، فرانسیسی عوام کے دلوں میں جون آف ارک آج بھی حکومت کرتی ہے اور وہ لوگ اسے اپنا ہیرو مانتے ہیں کہ اس کی آگہی نے آزادی کے بہت سے چراغ روشن کیے۔
فرانسیسیوں کی کوشش کو دیکھتے ہوئے انگریزوں نے قومی گروہی شعورکو اجاگر کیا اور جب اسپین کے بادشاہ نے انگلستان کو فتح کرنے کے لیے ایک زبردست بحری بیڑا آرمیڈا روانہ کیا تو انگلستان کے لوگوں نے مل کر اسپین کے حملے کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا اس وقت انھیں اپنا مذہب اور مذہبی عقائد کا بالکل احساس نہ تھا، بس وہ ایک جگہ اور ایک ملک کے رہنے والے تھے، اور اپنے ملک کو بچانا مقصود تھا یورپ میں رومن عہد وحشی حملہ آوروں کی یاد کو تازہ کرتا ہے، یورپ کو ان دہشت گردوں نے اس قدر تباہ و برباد کیا کہ وہاں کی آبادی دیہی علاقوں کی آبادی کا نقشہ کھینچنے لگی ۔
دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی میں شہری آبادیاں وجود میں آگئیں، شہری خوشحال ہوگئے، مگر یورپ بد امنی اور انارکی میں مبتلا تھا، مضبوط حکومت نہ ہونے کی وجہ سے شہروں کو اپنی حفاظت کا انتظام خود کرنا پڑتا تھا لہٰذا اپنی مدد آپ کے تحت شہریوں نے فوجی دستوں کا بندوبست کیا اس کے ساتھ شہروں کے اطراف فصیلیں تعمیرکیں ان حفاظتی اقدامات کے بعد شمالی جرمنی کے 80بڑے شہروں نے اپنے کاروبار کی حفاظت کے لیے ایک جماعت بھی بنائی جو ہنسیٹک لیگ کے نام سے پہچانی جانے لگی، مگر اس کی سلامتی زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہ سکی، شہروں کی ہی بدولت یورپی تہذیب و تمدن کو ترقی نصیب ہوئی بعد میں یہ شہر سیاسی آزادی کا مرکز بن گئے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ انتظامی معاملات میں بھی شہر کے مقتدر حضرات کسی کے حکم کے تابع نہ تھے بلکہ آپس میں ہی محبت کے جذبات پروان چڑھنے لگے، ملک کا مختار کل بادشاہ ہوتا تھا اور وہ قوم کے مجموعی وجود کا مظہر تھا، اس رویے سے عوام اور بادشاہ کے درمیان ایک طرح کا جذباتی عنصر پیدا ہوگیا اور جو قوم پرستی کے جذبے کے فروغ کی وجہ بن کر سامنے آیا۔
ایک سنہری دور وہ بھی تھا جب پاکستان میں رہنے والے تمام پاکستانی اپنے آپ کو ایک قوم کہتے تھے،کسی کا اپنا الگ قبلہ نہ تھا، ایک اللہ اور ایک رسولؐ کے ماننے والے تھے، ہر مشکل گھڑی میں اتحاد کی صورت میں سب ایک ہوجاتے تھے۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہندوستان کی دشمنی یا ہندوستان سے میچ ہو پاکستانی ایک قوم بن کر سامنے آتے ہیں اور پھر جیسے ہی حالات بدلتے ہیں تنکوں کی طرح بکھر جاتے ہیں۔ اپنے عقائد اپنی عبادت گاہیں اور نظریات اور آپس کی چپقلش نفرت اور تعصب سب الگ لیکن فوجی آپریشن کی بدولت تخریب کاروں کا نیٹ ورک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور ایک بار پھر قومیت کا تصور زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ بغیر قومیت کے تصور کے کسی بھی ملک کے لوگ جانوروں کے ریوڑ یا لوگوں کے گروہوں اور ٹولوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
یورپ میں تو وقت کے ساتھ ساتھ جذبہ قومیت ابھرا اور اسے تقویت ملی لیکن اسلام نے آج سے چودہ سو سال کے عرصے سے زیادہ وقت میں قوم اور قومیت کے احساس کو اجاگر کیا، بھائی چارہ، اخوت، اتحاد یہ وہ جذبات تھے جن کی ادائیگی سے آپس کی محبت میں مزید اضافہ ہوا، ہجرت مدینہ کے وقت ایسے مناظر دیکھنے میں آئے کہ خون کے رشتوں سے زیادہ رسول پاکؐ کا امتی ہونے کا حق ادا کردیا اور پھر قرآن کی یہ آیت ''تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں'' اس پر عمل کرتے ہوئے مسلمان ایک دوسرے ایثار و قربانی کی بدولت اسلامی تاریخ میں روشن مثال بن کر سامنے آئی۔ حضرت آدمؑ کی پیدائش کے بعد توحید کے ماننے والے کفار کی سختیاں برداشت کرتے لیکن اپنے مسلم بھائیوں کے ساتھ مذہبی رشتے کو ہرگز کمزور نہ کرتے۔
موجودہ حالات پر ہم ایک نظر ڈالیں تو عجیب و غریب سانحات سامنے آتے ہیں جنکے وجود نے ترقی کی راہوں کو مسدود کردیا ہے۔ سابقہ حکمرانوں کو کل بھی پاکستان سے محبت نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے، اگر معاشی طور پر پاکستان مسائل اور غربت کا شکار ہے تو یہ وہ وقت ہے کہ وہ ثابت کریں کہ وہ اقتدار سے نہیں بلکہ اپنے وطن سے مخلص ہیں اور اپنا تمام پیسہ جو انھوں نے ناجائز طریقے سے کمایا ہے حکومت اور ملک کے استحکام کے لیے واپس کردیں، ان کے اس رویے سے انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور ایک بار پھر اقتدار کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے ہوسکیں گے، یورپ کے اتحاد اور ان کی معاشی ترقی کو مد نظر رکھیں کہ کس طرح وہ اپنے عہدوں سے دستبردار ہوجاتے ہیں اور ملک و قوم کی لوٹی ہوئی رقم واپس کردیتے ہیں چونکہ وہ جانتے ہیں کہ بحیثیت ایک قوم اپنے ہی ملک میں مرنا جینا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں تو سارے امور باہر کے ملکوں میں انجام دیتے ہیں بس قبر پاکستان کے قبرستان میں چاہتے ہیں اور بس۔