جوش

ایک مرتبہ کنورمہندسنگھ بیدی نے مجھ سے کہا، میرے وزیرشری سچرنے دہلی سے میراتبادلہ کردیاہے


راؤ منظر حیات July 01, 2019
[email protected]

اس دوڑ دھوپ میں خداکے فضل وکرم سے کچھ ہات توآیا نہیں،البتہ ڈائریکٹروں، سیکریٹریوں اوروزیروں کے ایسے دو دوکوڑی کے نخرے ایسے اوچھے ٹھسّے اوراس قدرغیرشریفانہ گڈامیرپن دیکھے کہ آدمی کاوقارنظروں سے گرگیااوریہ فیصلہ کرناپڑاکہ اس قوم میں کسی صاحبِ قلم کی گنجائش نہیں ہے اورہرادیب وشاعرکوچاہیے کہ وہ خودکشی فرمالے۔یہ سچ ہے کہ ہندوحکام بھی بعض اوقات نخرے دکھاتے ہیں، لیکن اﷲ اکبر،یہ مسلمان جب ہیڈ کانسٹیبل ہوجاتاہے تو ہامان وفرعون بن جایاکرتاہے اور حکومت کی گدی، پربیٹھ کر خدمت گاروں اورپھیری والوں کے لڑکے بھی اپنے کوقیصر ودارا سمجھنے لگتے ہیں۔اﷲ بونوں کے درپرلنکاوالوں کونہ لے جائے۔

یہ جوشؔ ملیح آبادی کی وہ تحریرہے،جوانھوں نے ہندوستان سے پاکستان آکربے بسی،غربت اورمفلسی کو سینے سے لگاکرلکھی۔جوش وہ عظیم شاعرتھاجس نے نازاور بے اندازدولت میں آنکھ کھولی۔ایک نوابی زندگی گزاری۔ مگر ہرشاعرکی طرح تکلیف کے میدان میں ہرکانٹے سے آبلا پائی حاصل کی۔زندگی میں کئی مقامات پراَناکومجبوری کی دہلیزپر ذبح ہوتے ہوئے دیکھا۔دولت کی فراوانی سے لے کر بھرپورتنگی کوبھی سہااورآخری دم تک عجیب کیفیت میں زندہ رہے۔

''مجھ کویقین کامل ہے کہ میرایہ بحران بھی میرے چار عددسابقہ بحرانوں کے مانندکسی خیرِ جدیدکاسرچشمہ بن جائیگا۔ مجھ کواس اَمرکایقین کس بناپرہے؟یہ بھی سن لیجیے۔میں جب حیدرآبادگیاتھااورسراکبرحیدری کی سی طاقتورشخصیت سے بگاڑپیداہونے کے بعدجب میرے پنپنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی تھی،اس وقت نظام نے میری خاطرایک جدید و غیرضروری عہدہ خلق کرکے مجھے برسرِروزگاربنادیاتھا''۔

''جب دکن سے میرااخراج ہواتھا،اس وقت سردار روپ سنگھ اورسروجنی نائیڈونے میری مددکی تھی،اس کے بعد شیونرائن نے ہات بٹایااورجب شیونرائن نے ساتھ چھوڑدیا تھا اس وقت مہاراجہ پٹیالہ میری پشت پرآکرکھڑے ہوگئے تھے''۔

''جب بمبئی میں نانِ شبینہ تک سے محروم ہونے کاوقت سرپرآپہنچاتھا۔اس وقت پنڈت نہرونے میری دست گیری کی تھی''۔

''جب نقوی صاحب کی دعوت اوربھروسے پریہاں آیاتھااورنقوی صاحب کی کمشنری جاتی رہی تھی۔اس وقت سہروردی صاحب شائستہ اکرام،آفتاب احمدخاں،زبیری صاحب اورممتازحسن صاحب نے میری تجویزکومنظورکرکے ترقی اُردوبورڈبنایااورمیری معاش کابندوبست کردیاتھا''۔

''سوچتاہوں کہ جب کوئی نامعلوم توانائی یاحُسن اتفاق کی تکرارہربرے وقت پرمیراساتھ دیتی رہی ہے اور ہرموقع پرکوئی اﷲ کابندہ''مَردے ازغیب''کی طرح چپکے سے آکراورمیری مصیبت کے پہاڑکاٹ کرغائب ہوجاتا ہے،تومجھ کواس بحران کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے اور میرادل گواہی دیتاہے کہ اس بحران کاسربھی میرے قدموں پرجھک کررہیگا''۔

''ایک مرتبہ کنورمہندسنگھ بیدی نے مجھ سے کہا، میرے وزیرشری سچرنے دہلی سے میراتبادلہ کردیاہے،میں نے کہایہ شری سچرہیں یامسٹرخچر۔وہ ہنسنے لگے، کہا کیا خوب قافیہ ملایاہے۔ہاں تومیں آپ سے یہ کہنے آیاہوں کہ آپ اوربیگم پٹوڈی دونوں ملکرپنڈت نہرو جی کے پاس جائیں اورمیراتبادلہ رُکوادیں''۔

''دوسرے ہی دن ہم دونوں پرائم منسٹرزہاؤس پہنچے، اپنے آنے کی اطلاع کی۔بیگم پٹوڈی کوفوراًبلالیاگیااورمیں منھ دیکھتارہ گیا۔جواہرلال کی اس بدوضعی پرمجھے تاؤآگیا، اوریہ سوچ کرکہ میں وہاں سے اُسی وقت چلاجاؤں کہ ان سے پھرکبھی نہ ملوں۔میں اُٹھاہی تھاکہ ان کے سیکریٹری غالباً پیارے لال صاحب آگئے۔انھوں نے میری طرف نگاہ اُٹھا کر کہا، کیا بات ہے جوش صاحب اس قدرزورسے پانی برس رہاہے اور آپ آگ بگولابنے کھڑے ہیں۔میں نے ان سے سارا ماجرابیان کرکے کہااب میں یہاں نہیں ٹھہرنے کا۔ پیارے لال صاحب نے کہاآپ فقط دومنٹ میری خاطر سے ٹھہرجائیں۔میں ٹھہرگیا۔وہ سیدھے ان کے کمرے میں داخل ہوگئے اوردومنٹ کے اندراندرمیں نے یہ دیکھاکہ وہ (پنڈت نہرو) مسکراتے چلے آرہے ہیں،میرے قریب آتے ہی انھوں نے کہاجوشؔ صاحب آپ کے تشریف لانے کی مجھے کسی نے اطلاع نہیں دی۔آپ نے کس سے اطلاع دینے کوکہاتھا۔میں نے کہابملاکماری جی کو۔انھوں نے بملاکماری کوبلاکرکہاکہ تم نے جوشؔ صاحب کے آنے کی مجھ کواطلاع کیوں نہیں دی۔

بملا کماری نے کہامیں نے لیڈیز فرسٹ (پہلے خواتین)کے خیال سے جوش صاحب کانام نہیں لیا۔ پنڈت جی نے ڈانٹ کرکہا ''نان سینس''(Non Sence) اورمیراہات پکڑ کر اندر لے گئے اورکہاآپ بھی کنورمہندرسنگھ کا تبادلہ رکوانے کے خواہشمندہیں۔میں نے کہاجی ہاں۔ انھوں نے جواب دیا کہ یہ ڈیماکریٹ اُصول کے خلاف ہے کہ میں اس معاملہ میں دخل دوں۔میں نے کہا پنڈت جی میں جانتا ہوں کہ آپکادماغ''میڈاِن انگلینڈ'' (ساختہ انگلینڈ) ہے، لیکن بعض حالات میں کچھ ''ایکسپشنرز'' (مستثنیات)بھی بے حد ضروری ہوتے ہیں۔میں جانتا ہوں کہ پرائم منسٹر سے کسی کے تبادلے کے منسوخ کرنے کامطالبہ ایسا ہے جیسے ہم کسی ہاتی سے کہیں کے میزسے ذرا ہماری دیا سلائی اُٹھالالیکن آج تو میں ہاتی سے دیاسلائی اُٹھوا کردم لوں گا۔ وہ ہنسنے لگے اورتبادلہ منسوخ کردیا''۔

وزیراعظم ہندوستان پنڈت نہروسے ملاقات میں نہرونے جوش کوکہا۔''ایک بارجب پاکستان سے رخصت لے کرمیں جب دہلی میں ان سے ملاتوانھوں نے بڑے طنز کے ساتھ مجھ سے کہاتھاجوش صاحب پاکستان کواسلام، اسلامی کلچر اوراسلامی زبان یعنی اُردوکے تحفظ کے واسطے بنایاگیا تھا لیکن ابھی کچھ دن ہوئے کہ میں پاکستان گیااوروہاں یہ دیکھاکہ میں توشیروانی اورپاجامہ پہنے ہوئے ہوںلیکن وہاں کی گورنمنٹ کے تمام افسرسوفیصدانگریزوں کالباسپہنے ہوئے ہیں۔مجھ سے انگریزی بولی جارہی ہے اورانتہایہ ہے کہ مجھے انگریزی میں ایڈریس بھی دیا جارہا ہے۔ مجھے اس صورتحال سے بے حدصدمہ ہوااورمیں سمجھ گیاکہ اُردو، اُردو، اُردوکے جونعرے(ہندوستان میں لگائے گئے تھے وہ سارے اُوپری دل سے اورکھوکھلے تھے اورایڈریس کے بعد جب میں کھڑاہواتومیں نے اسکااُردومیں جواب دے کرسب کو حیران وپشیمان کردیااوریہ بات ثابت کردی کہ مجھ کو اُردو سے ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ محبت ہے ۔''

سروجنی نائیڈوکے متعلق لکھتے ہیں،''زندگی کے آخری دورمیں وہ بارباربیمارپڑنے لگی تھیں اورمیں باربارپوچھتا تھا کہ اس بارباربیمارپڑجانے کی علت کیاہے،وہ ہربارمختلف اسباب بتاکرٹال دیاکرتی تھیں لیکن جب ایک مرتبہ میں نے زوردے کربارباربیمارپڑجانے کی پھرعلت پوچھی تووہ اُداس ہوکرکہنے لگیں،جوش صاحب آپ نہیں جانتے مجھے یہ کہناپڑرہاہے کہ اسکاسبب ہے میرابڑھاپا۔عورت کے منھ سے اعتراف شیب سن کرمیرادل غمگین ہوگیا،انھوں نے میری افسردگی کوبھانپ کرکہاآپ رنجیدہ نہ ہوں۔میرے بال توسفیدہورہے ہیں مگرآپ یقین رکھیں کہ میرادل ابھی تک سیاہ ہے اورجب تک دل سیاہ ہے جوانی باقی ہے''۔

نقوی صاحب جو1955میںچیف کمشنرکراچی تھے۔ جوش کوپاکستان آنے کے متعلق قائل کررہے تھے۔یہ کمال کی گفتگوتھی۔نصف صدی پہلے کی یہ گفتگو،آج بھی سو فیصدسچ ثابت ہے۔''انھوں نے میرے شانے پرہات رکھ کر پوچھا اور نہروکے بعدکیاہوگا،یہ بھی کبھی سوچاہے؟میں نے کہا،خدانہ کرے کہ میں ان کے بعدزندہ رہوں۔انھوں نے کہاشاعرکی یہ بڑی بدبختی ہے کہ وہ زندگی کے سنجیدہ مسائل کو بھی جذبات کی ترازومیں تولاکرتاہے۔میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر نہرو صاحب آپ کی زندگی میں سدھار گئے، تو پھرہندوستان میں آپکاچاہنے والاکون رہ جائیگا،آپکی یہ نوکری آپکی یہ فراغت وعزت کیاان کے بعدختم نہیں ہوجائیگی؟ اور تھوڑی دیرکے واسطے یہ بھی فرض کرلیجیے کہ پنڈت نہروکے بعدبھی ہندوستان آپکوسرآنکھوں پربٹھائے رہے گالیکن یہ بھی توسوچیے کہ خدانہ خواستہ،آپکے بعدوہاں آپکے بچوں کا کیا حشر ہوگا؟

دیکھیے جوش صاحب آپکے بعدہندوستان میں آپکے بچے دردرمارے پھریں گے،اورایک متنفس بھی ان کے سرپرہات نہیں رکھے گا۔جوش صاحب آپکے بچے اُردوبھول جائینگے، ہندی انکا اوڑھنابچھوناہوگی۔وہ آپکے کلام کاترجمہ ہندی میں پڑھیں گے اورتہذیبی،روایتی اور ثقافتی اعتبارسے آپکی پوری نسل میں اس قدرزبردست و عبرت ناک تبدیلی پیدا ہوجائیگی،کہ آپ سے اسکاکسی نوعیت کا بھی تعلق باقی نہیں رہے گا،کیایہ عظیم لسانی،مزاجی اورروایتی بربادی آپکو منظورہے؟اوراگرآپ یہاں نہ آگئے توکیااس کے یہ معنی نہیں ہونگے کہ آپ اپنی وقت فراغت وعزت کی قرباں گاہ پراپنے پورے خاندان کو بھینٹ چڑھادینے پر تلے ہوئے ہیں۔آج کاہندوستان صرف اورصرف ہندو مذہب ماننے والوں کے لیے دامن کشادہ کرتاہے''۔

جوش ملیح آبادی کی کتاب''یادوں کی برات''واقعی یادوں کی برات ہے۔کمال نثر،کمال خاکے اورمکمل سچ پرمبنی تحریر۔یقین فرمائیے۔کہ سیاست اورسیاسی خبروں سے دل اُچاٹ ہوچکاہے۔کس رہنماکابلڈپریشرکتناہے۔کس کو فشارِخون کامرض ہے۔کون دل کے عارضے میں مبتلاہے۔ ان معاملات کوخبریت کہنا،انسانی شعورکی توہین ہے۔باقی کسربے معنی ٹاک شوزنے پوری کردی ہے۔جن میں زبان کی کمزوری سے لے کرنحیف بیان تک،اورمبالغہ سے لے کرجھوٹ تک،ہرعنصرشامل ہے۔اس صورتحال سے اُکتاکرکتابوں میں کچھ مدت کے لیے سرچھپانا،ہوش وحواس برقراررکھنے کاواحدطریقہ ہے۔مگریہ شوق انسان کومزیدتنہاکردیتاہے!

جفائے زندگی کومختصرکرناہی بہتر ہے

مرے نزدیک اس جینے سے تومرناہی بہترہے

ہزاروں تجربوں کے بعدمیں یہ بات کہتاہوں

خوشی کے نام سے انسان کوڈرناہی بہترہے

فراغت دل کی ہے تومطمئن سینے کی خلوت میںجہاں تک بھی ہوارمانوں کاکم کرناہی بہترہے

(جوشؔ ملیح آبادی)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں