عمران خان کا دورہ امریکا کی گونج
عمران خان کا آنا واضح اعلان ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں بہتری آگئی ہے
ISLAMABAD:
میں اس وقت واشنگٹن میں ہوں اور یہاں عمران خان کے دورہ امریکا کی بہت گونج ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں بالآخر برف پگھل گئی ہے۔ گو اس دورے کے حوالہ سے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ ابھی کوئی تفصیلات نہیں بتا رہا۔ لیکن اس دورے کی تفصیلات زبان زد عام ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان 20 جولائی کو پانچ دن کے لیے واشنگٹن آرہے ہیں۔ وہ صرف واشنگٹن آئیں گے اور شیڈول میں نیویارک جانا نہیں ہے۔ واشنگٹن کے لیے پانچ دن کا سرکاری دورہ بہت بڑا دورہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت ساری ملاقاتیں طے ہو رہی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا مل رہا ہے اور واشنگٹن کیا چاہتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ارد گرد کوئی بااثر پاکستانی نہیں ہے۔ البتہ بھارتی لابی نے ان کے ارد گرد بہت گھیرا تنگ کیا ہواہے۔ تا ہم اس کے باوجود امریکا اور بھارت کے تعلقات بھی کوئی مثالی نہیں ہیں۔ اس پر پھر بات کریں گے تا ہم اس وقت پاک امریکا تعلقات اور عمران خان کے دورہ پاکستان کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس تناظر میں عمران خان کے دورہ امریکا کی تفصیلات حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ تا ہم میرے ذہن میں ساجد تارڑ کا نام آیا۔ ساجد تارڑ ایک پاکستانی ہیں جو منظر عام پر اس وقت آئے جب انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کی طرف سے نہ صرف تقریر کی بلکہ جیت کی دعا کروائی۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ پر مسلمان مخالف ہونے کا الزام تھا۔ پورے امریکا کے مسلمان ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف یکسو تھے۔ تا ہم ساجد تارڑ نے ٹرمپ کے حمایتی ہونے کا اعلان کیا۔ انھوں نے امریکی مسلمانوں کی ایک تنظیم بھی بنائی ہوئی ہے۔ اس تنظیم نے بھی ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ساجد تارڑ پہلے دن سے آج تک ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
میں نے ساجد تارڑ سے ملنے کا فیصلہ کیا اور واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے شاندار فائیوا سٹار ہوٹل ٹرمپ ٹاور میں ملاقات طے ہو گئی۔ ساجد تارڑ نے محتاط گفتگو شروع کی۔ میں نے کہا عمران خان آرہے ہیں۔ انھوں نے کہا میں نے بھی سنا ہے۔ میں نے کہا آپ کو اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے، آپ کیا جاننا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، دورہ کیا ہے کیوں ہے۔ کیا ہورہا ہے۔ کیا ہو سکتا ہے۔ یہ سادہ سوال ہیں جو ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا میں عمران خان کے دورہ واشنگٹن کے موقع پر اسی ہوٹل میں عمران خان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کر رہا ہوں۔ جس میں پورے امریکا سے پاکستانیوں کو دعوت دے رہا ہوں۔ یہ کوئی ری پبلکن پاکستانیوں کی تقریب نہیں ہوگی اس میں ڈیموکریٹ پاکستانی بھی مدعو ہوں گے۔ پھر مسکرا کر کہنے لگے، ری پبلکن میں پاکستانی ہیں ہی کتنے۔ سارے تو ڈیموکریٹ ہیں۔ یہی تو وجہ ہے کہ ہماری ٹرمپ انتظامیہ میں کوئی بات چیت نہیں تھی۔ سارے پاکستانیوں نے ٹرمپ کی مخالفت کی تھی۔ میں نے کہا آپ نے تو حمایت کی تھی۔ کہنے لگے میں اکیلا ہی تھا۔
میں نے کہا آپ کو دورہ کی تفصیلات کے بارے میں کیا علم ہے۔ کہنے لگے یہ دورہ کافی اہم ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے تعاون سے امریکا اور طالبان کے درمیان جو بات چیت جاری تھی وہ اب کسی نتیجہ پر پہنچ گئی ہے۔ یہ دورہ اسی بات چیت کی کامیابی کا اعلان ہے۔ امریکا میں 2020 میں صدارتی انتخابات ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس انتخابی مہم میں اس نعرہ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں کہ انھوں نے افغان جنگ ختم کر دی ہے اور وہاں سے فوجوں کا انخلا ہو گیا ہے۔ جنگ کے پر امن خاتمے کا اعلان ہی ٹرمپ کی دوسری مدت کے لیے انتخابی مہم کا بنیادی نقطہ ہوگا۔ اس لیے عمران خان کا یہ د ورہ امریکا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
میں نے کہا جب ٹرمپ منتخب ہوئے تھے تو پاکستان کے خلاف تھے۔ ابھی گزشتہ سال انھوں نے پاکستان کے آئی ایم ایف سے معاہدہ کی بھی مخالفت کی تھی۔ کیا اب برف پگھل گئی ہے۔ انھوں نے کہا ہاں برف پگھل گئی ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے کردار نے برف کے پگھلنے میں مدد کی ہے۔ اب امریکی پاکستان کے بارے میں مثبت بات کر رہے ہیں۔ پاکستان واپس گیم میں آگیا ہے۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی گیم کیسے کھیلتا ہے۔ ابھی تک ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔ ٹرمپ کوئی سیاستدان نہیں ہے۔ وہ 73 سال کا ایک کامیاب کاروباری انسان ہے جو منافقت نہیں کرتا۔ اگر وہ پاکستان کے خلاف تھا تو اس نے ٹوئٹ بھی کیا تھا۔ اب اگر حق میں ہے تو عمران خان کو بلایا جا رہا ہے۔ اس لیے عمران خان کا آنا واضح اعلان ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں بہتری آگئی ہے۔
میں نے کہا بھارتی لابی عمران خان کے اس دورہ کو ناکام بنانے کے لیے بھی متحرک ہے۔ کہنے لگے، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت تبدیلی آگئی ہے۔ آپ اس تبدیلی کو سمجھیں۔ یہ دورہ خارجہ پالیسی میں اسی تبدیلی کی وجہ سے ممکن ہو رہا ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں بھارت کے کردار کو تسلیم کیا ہے۔ اسی تناظر میں اشرف غنی پاکستان آئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ بھارت کی مرضی کے بغیر پاکستان آئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان افغانستان میں بھارت نواز حکومت کے خلاف ہے۔ ادھر بھارت افغانستان میں پاکستان نواز حکومت کے سخت خلاف ہے۔ اس لیے اب جو بھی سیٹ اپ آئے گا وہ پاکستانی ہوگا نہ بھارتی ۔ دونوں کے لیے غیر جانبدار ہوگا۔ اس لیے بھارت ابھی تک عمران خان کے دورہ واشنگٹن کے حوالے سے غیر جانبدار ہے۔ یہ درست ہے کہ و ہ خوش نہیں ہیں۔ لیکن ان کی طرف سے کوئی خاص ناراضگی کا اظہار بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔
ساجد تارڑ مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ پاکستانی ٹرمپ کو سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ ٹرمپ کوئی اوباما کی طرح بھارت نواز نہیں ہے۔ بھارت کے بھی اب امریکا سے ویسے تعلقات نہیں ہیں جیسے اوباما دور میں تھے۔ یہ ٹرمپ ہیں۔اوباما تو مکمل بھارت کے ساتھ تھے۔ ٹرمپ نے بھارت کی مصنوعات پر بھی ٹیرف لگایا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ امریکا کو اپنی برآمدات میں اضافے کی بات کر سکتا ہے۔ بھارت روس سے میزائل خرید رہا ہے جو بھی ٹرمپ کو پسند نہیں ہے۔ا س لیے واشنگٹن میں بھارت کے لیے کوئی خاص سازگار ماحول نہیں ہے۔اس بات کو بھی سمجھیں۔
میں نے کہا پاکستان کو مل کیا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا پہلے مرحلے میں فوجی امداد بحال ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد باقی چیزیں ہیں۔ میں نے کہا امریکا ناراض کیوں تھا؟ وہ کہنے لگے سی پیک۔ میں نے کہا، اب۔ وہ کہنے لگے اب مجھے کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔ آپ خود دیکھ لیں ۔ ویسے بھی گوادر پاکستان کو خود بنانا چاہیے تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اس حوالے سے تبدیلی آئی ہے ۔ جس کو اب محسوس کیا جا رہا ہے۔ بہرحال عمران خان کا یہ دورہ امریکا جہاں پاکستان کے لیے اہم ہے۔ وہاں ٹرمپ کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ ٹرمپ کی ساری انتخابی مہم کا دارومدار افغانستان میں فوج کے انخلا پر ہے اور اس میں پاکستان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔