امریکا غلامی سے آزادی تک
غلامی کی امریکی کہانی سولہویں اور سترویں صدی میں شروع ہوئی، جب امریکا اسپین، برٹش اور فرانس کے زیرانتظام تھا۔
ذہن ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ امریکا جیسا مضبوط ملک بھی کبھی غلامی کے دور سے گزرچکا ہے جی ہاں ! 4 جولائی امریکا بہادرکی آزادی کا دن جب پورے ملک میں ''امریکا پرخدا کی رحمت ہو'' والا گیت گونجتا ہے امریکی قوم وفاداری کا عہد کرتی ہے، امریکا کی اگر ستائش کی جائے تو ہم میں سے اکثریت خفا ہوتے ہیں بجا بھی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی پالیسیاں لاکھ خود غرضی پر مشتمل سہی لیکن ذاتی مفاد پرستی پر ہرگز مبنی نہیں ہوتی۔ ادارے اس شاخ کو نہیں کاٹتے جس پر بیٹھے ہوں، آزادی کے بعد سے آج تک عوام کی فلاح وبہبود ہر محکمے کی اولین ترجیح رہی ہے۔
امریکا کی سابق وزیرخارجہ نے کہا تھا کہ''امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے جس کے بغیر دنیا نہیں رہ سکتی،آج اکثر ممالک کو فکر لاحق رہتی ہے کہ کہیں امریکا ان کے معاملات میں دخل اندازی نہ شروع کردے، اپنی مضبوط اکانومی کے ساتھ دنیا میں غروروگھمنڈ لیے ،ایک شاندار ملک ! جس نے محض دو صدی میں غلامی سے سپر پاورکا اعزاز حاصل کیا یقین نہیں آتا۔
غلامی کی امریکی کہانی سولہویں اور سترویں صدی میں شروع ہوئی، جب امریکا اسپین، برٹش اور فرانس کے زیرانتظام تھا ان تینوں ممالک نے دنیا بھرکواپنی غلامی میں جکڑ رکھا تھا۔ امریکا تیرہ کالونیوں پر مشتمل تھا، جسے آزادی کے بعد ایک اسٹیٹ بنایاگیا، یہاں نیٹو امریکنز رہتے تھے جنھیں ریڈ انڈیزکہا جاتا تھا لیکن برٹش کراؤن کا راج تھا۔ ملٹری آفیسرز برٹش تھے تیرہ الگ کالونیوں پر مشتمل امریکا کا کوئی شہری کسی سرکاری عہدے کو نہیں حاصل کرسکتا تھا، قابضین کو اختیار تھاکہ جب چاہیں کسی بھی گھرکی تلا شی لے سکتے تھے، یہ وہ وقت تھا جب قابض ممالک اپنے آپ کو طاقتور بنانے کی دوڑ میں مصروف تھے۔
امریکا میں نیگرو آبادی کم تھی چناچہ افریقہ سے غلام یہاں لاکر بسائے جاتے تھے تاکہ افرادی قوت بڑھے۔ یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا میں صنعتی انقلاب کی بازگشت تھی، ایسے میں فرانس اور برطانیہ میںامریکا کے قبضے کی رسہ کشی جاری تھی۔ 1754ء سے 1763ء تک(seven years war) سات سالہ جنگ کے بعد فرانس ہارگیا اور اسے امریکا والا پورا علاقہ برٹش کو دینا پڑا، برطانیہ جیت توگیا مگر اس پر قرض بہت بڑھ گیا جنگ میں امریکن نیٹو نے اس کا ساتھ دیا تھا۔
امریکنزکو امید تھی کہ اب انھیں کچھ مر اعات حاصل ہونگی پورے ملک میں کاروبارکی اجازت مل جائے گی مگر برٹش حکومت نے قوانین مزید سخت کردیے، انھیں اپنی کالونیوں تک محدود کردیا، ٹیکس مزید بڑھا دیا ، تمام آبادی اجناس صرف برٹش سرکارکو بیچنے کی پابند تھی، مزید یہ کہ پہلے تمام سامان لندن جاتا پھر وہاں سے دوبارہ امریکن کالونی واپس آتا جس سے برطانیہ کو ٹیکس حاصل ہوتا ، مجبورا مقامی آبادی نے سامان اسمگل کرنا شروع کردیا تو برٹش سرکار نے مزید ٹیکس لگا دیے،کسی لیگل ڈاکومنٹس حتیٰ کہ اخبارات پر بھی برٹش اسٹمیپ کو لازمی قرار دے دیا گیا۔
فوجیوںکے سارے اخراجات کا بوجھ بھی عوام پر ڈال دیا گیا، یہ وہ دور تھا جب ریڈ انڈین ایک جانب کھیتی باڑی جسمانی مشقت میں مصروف تھے تو دوسری طرف ان کی ذہنی آبیاری کے لیے فلاسفر اور دانشورطبقہ بھی میدان عمل میں تھا۔ اس زمانے کے مشہور اہل علم کانٹ ، بینجمن فریکلن ، جان لوک اور تھامس پین و دیگر ان جیسے مفکروں و رہنماؤںنے عوام کو ایک نئی سوچ عطا کی باورکرایاکہ''طاقت کا سرچشمہ عوام ہیںہم اپنے سماج اپنی مرضی کا بنائیں گے عدل وانصاف ، تعلیم ، صحت سب کے لیے یکساں ہونی چاہیے کسی بادشاہ کا بیٹا یا راج شاہی کوکوئی اختیار نہیں، جمہوریت ہی کا قانون لاگو ہونا چاہیے۔،،
1765ء میں سیموئل آدم نے ایک کمیٹی تر تیب دی کہ تمام کالونیاں آپس میں رابطے رکھیں ، عوام میں جب آگاہی وشعور بیدار ہوا ، تو انھوں نے ٹیکس ادا کرنے سے انکارکردیا کہ ہمارا کوئی ممبر پارلیمنٹ میں نہیں ، قوم نے برٹش اسٹیمپ کو بھی مسترد کردیا۔ برٹش حکومت نے اسٹیمپ تو ہٹا دیا مگر قانون مزید سخت کردیے، آزادی کی جنگ جاری رہی، برٹش گورنمنٹ نے 1773ء میں تمام ٹیکس معاف کردیا مگر ایسٹ انڈیا کے منافعے کے لیے چائے پر ٹیکس لگا دیا اور صرف ایسٹ انڈیا سے چائے خریدی جائے گی ۔ ایک رات سیموئل آدم بھیس بدل کر چند دوستوں کے ساتھ شپ میں داخل ہوئے اور ساری چائے سمندر میں پھینک دی جس پر برٹش سرکار نے بوسٹن کی بندرگاہ کو بندکردیا اور سیموئل کو گرفتارکرکے لندن بھیج دیا گیا، تمام کالونیوں نے طے کیا کہ صرف اپنی بنائی اشیاء خریدیں گے، برٹش سرکار نے پبلک میٹنگ پر پابندی لگا دی تھی ۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے مقامی لوگوں نے جنگلوں میں جاکر لڑائی کی ٹریننگ بھی لینی شروع کردی ، نیدر لینڈ،اسپین نے ساتھ دیا، فرانس نے بھی فوجی ہتھیار اور پیسوں سے مدد کی ان کی رہنمائی کے لیے جارج واشنگٹن موجود تھے۔ اسی دوران تھامس پین کی تحریرکردہ 48 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز سامنے آئی، یہ پمفلٹ برصغیر سے لاکھوں کی تعداد میں پرنٹ ہوکر منگوایا گیا، جس میں واضح انداز میں اپنی آزادی کا مطالبہ کیا گیا تھا، یہ شرائط بہت زیادہ پڑھی گئی جو پڑھنا نہیں جانتے تھے، انھیں پڑھ کر سنایا جاتا، آخرکار برٹش سرکارکو اپنے تمام ججز،آفیسرزکو ہٹانا پڑا۔
4جولائی 1776ء کو فلا ڈیلفیا میں تھامس جیفرسن نے ڈیکلریشن پیش کیا، جس میں لکھا تھا کہ'' آپ کسی سے اس کی آزادی کا حق نہیں چھین سکتے، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں عوام کو اپنی خوشی سے جینے اور زندگی گزارنے کا پورا اختیار ہونا چاہیے'' آخرکار عوام کی طاقت کو تسلیم کرلیا گیا۔امریکن عوام نے دنیا کو بتا دیا کہ کس طرح مختلف کالونیوں میں تقسیم ملک آپس میں یکجہتی سے اکٹھا ہوئے بادشاہت کا خاتمہ ہوا، اپنی قابلیت سے آگے بڑھنے کی پوری آزادی ملی ایک مضبوط جمہوری ملک وجود میںآیا جہاں صدارتی نظام ہے آنے والے سالوں میں منتخب پارلیمنٹ نے امریکا کی ترقی میں بے حد محنت کی خاص کر ابراہم لنکن نے نسل پرستی اور غلامی ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔
آج امریکا سپر پاور بنا جس چوٹی پرکھڑا ہے، اس میں امریکی قوم کی بے مثال یک جہتی ، محنت ، ایمانداری اور ملک سے وفاداری جو قابل تکریم ہے ۔دوسرے ممالک کے لیے اس کی پالیسیاں لاکھ متضاد ، قابل نفرت اورمنافقت پر مبنی ہوں مگر اپنے ملک اور قوم کے لیے وفادارہونا یقینا قابل رشک ہے، افسوس ! ہم تو وہ قوم ہیں جو اداروں، ایوانوں میں آتے ہی اس لیے ہیں کہ صرف اپنی فلاح اپنا مستقبل محفوظ کرسکیں۔ ملک گروی ہوتا ہے تو ہوا کرے ہماری کرپشن کی طلسم ہوشربا داستانیں کے جس سے قارون و ہامان بھی شرمندہ ہوجائیں۔اسی لیے تو ہمیں امریکا کی پالیسیوں سے لاکھ انکار سہی مگر اپنی قوم کے لیے اس کی سچائی، ایمانداری ،خلوص نیت ، قابل ستائش تو ہے، سو اے امریکا جشن آزادی مبارک ہو۔