پنجاب بجٹ پر ایک نظر
ہمارے نیشنل میڈیا میں مرکزی بجٹ پر بہت بات ہوئی ہے لیکن صوبائی بجٹ کوئی خاص توجہ نہیں حاصل کر سکے ہیں۔
اس وقت ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لڑائی تیز ہو گئی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ گھمسان کی جنگ چل رہی ہے۔ اس جنگی ماحول میں بجٹ پاس ہو گئے ہیں۔ گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر آگئے ہیں تا ہم عام آدمی کو اس لڑائی سے کیا ملے گا۔ کہیں نہ کہیں حکومت کو یہ احساس کرنا ہو گا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔
یہ درست ہے کہ اداروں کی حمایت نے اس کمزور حکومت کو بھی طاقتور بنایا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔ اس تناظر میں بجٹ کے حوالے سے عمومی رائے یہ بن گئی ہے کہ اس بار یہ حکومت عوام دوست بجٹ پیش نہیں کر سکی ہے۔ بجٹ عوام کے لیے سخت تھا۔ جس کا اپوزیشن فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ بجلی گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عوام بھی خوش نہیں ہیں۔
آپ سب نے مرکزی بجٹ کے بارے میں تو بہت سنا ہو گا۔ پڑھا ہو گا۔ ہمارے نیشنل میڈیا میں مرکزی بجٹ پر بہت بات ہوئی ہے لیکن صوبائی بجٹ کوئی خاص توجہ نہیں حاصل کر سکے ہیں۔ حالانکہ صوبائی بجٹ انسانی ترقی اور عام آدمی کی فلاح میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد عام آدمی کی بہتری کے لیے وسائل بھی صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں تا ہم فوکس مرکزی بجٹ پر رہتا ہے۔ اس لیے میں نے پنجاب کے بجٹ کو دیکھا تو اس میں انسانی ترقی اور فلاح کی بہت چیزیں مجھے نظر آئیں۔
موجودہ حکومت نے پناہ گاہیں بنانی شروع کی ہیں۔ جہاں بے سہارا لوگوں کو کھانا اور ہائش دی جاتی ہے۔ کسی نہ کسی شکل میں پیسہ غریب پر خرچ تو ہو رہا ہے۔ آیندہ سال مزید نئی پناہ گاہیں بنائی جا رہی ہیں۔
پنجاب احساس پروگرام کے تحت '' با ہمت بزرگ پروگرام'' شروع کیا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت اس سال 65 سال سے زائد عمر کے بزرگوں کی مالی معاونت کا پروگرام شروع کر رہی ہے۔ پنجاب کے بجٹ میں ''ہم قدم'' پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ جس میں پنجاب کے دو لاکھ معذور افراد کی ماہانہ مالی معاونت شروع کی جا رہی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بھی ایک اورنج لائن ہے۔ بس اس کا شور نہیں ہے۔ معذور افراد کا بھی پنجاب کے وسائل پر حق ہے۔ ان کو ان کا حق لوٹانا چاہیے۔ اسی کے ساتھ ایک ''سرپرست پروگرام'' شروع کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت پنجاب کی بیواؤں اور یتیم بچوں کی کفالت کا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے، اگر عام آدمی کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ کسی میگا منصوبے سے کم نہیں۔
پنجا ب کے اس بجٹ میں خواتین کو مالی طور پر خود مختار بنانے کے لیے آٹھ ارب روپے کی لاگت سے ایک مربوط پانچ سالہ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد پنجاب کی خواتین کو نہ صرف مالی طور پر خود مختار بنانا ہے بلکہ انھیں معاشرہ کا ایک کارآمد شہری بنانا ہے۔ پنجاب کے فنکاروں اور ہنرمندوں کی مالی معاونت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ خواجہ سراؤں کی مالی معاونت کے لیے مساوات پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ یہ تمام منصوبے عام آدمی اور محروم طبقوں کی فلاح کے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان منصوبوں پر عملدرآمد بہت مشکل ہے۔ ان میں رکھے گئے فنڈز ضایع ہو جاتے ہیں۔ عام آدمی اور محروم طبقوں تک پہنچ نہیں پاتے۔ لیکن ان منصوبوں کی ڈیلیوری ہی عثمان بزدار کی حکومت کا سب سے بڑا امتحان ہو گا۔ اگر وہ ان منصوبوں کو سو فیصد ڈیلیو ر کر گئے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
پنجاب کے بجٹ میں صحت کے بجٹ میں بیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پنجاب میں نو بڑے اسپتال بنائے جا رہے ہیں۔ لاہور میں بھی نیا اسپتال بنا رہے ہیں۔ ورنہ اس حکومت کے بارے میں رائے یہ بھی ہے کہ یہ لاہور مخالف حکومت ہے۔ تاہم مجھے بجٹ میں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جہاں لیہ، میانوالی، رحیم یار خان، بہاولپور، راولپنڈی، ڈی جی خان، راجن پور اور ملتان میں نئے اسپتال بنا ئے جا رہے ہیں۔ وہاں لاہور میں بھی نیا اسپتال بنایا جا رہا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ عثمان بزدار کی پنجاب حکومت کا کوئی میگا منصوبہ نہیں ہے۔ ان کی نوعیت فرق ہے۔ ملتان میں نشتر ٹو اسپتال۔ رحیم یار خان میں آئی ٹی یونیورسٹی II اور شیخ زائد اسپتال فیز II۔ ڈی جی خان میں انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی۔ ٹیکنالوجی یونیورسٹی اور سیف سٹی پراجیکٹ، لیہ میں 200 بستروں کا زچہ بچہ اسپتال۔ بہاولپور میں چلڈرن اسپتال۔ تونسہ اور مظفر گڑھ جیسے پسماندہ علاقوں میں روزگار اور صنعتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے انڈسٹریل اسٹیٹ کا قیام بھی میگا منصوبے ہیں۔
مجھے تعلیم کے شعبہ میں شروع ہونے والا انصاف اسکول پروگرام اچھا لگا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت پنجاب کے ہر اسکول میں شام کی شفٹ شروع کی جا رہی ہے۔ اس ایک پروگرام سے پنجاب کے اسکولوں کی تعداد یک دم دگنی ہو جائے گی۔ کوئی نئی بلڈنگ نہیں بنانی پڑے گی۔ بغیر نئے وسائل خرچ کیے ہزاروں نئے اسکول بن جائیں گے۔ پنجاب میں 63 نئے کالج بنائے جانے کا پروگرام ہے۔ 68پرانے کالجوں میں سہولیات مکمل کر نے کا منصوبہ ہے۔ مری، چکوال، میانوالی، بھکر، راولپنڈی میںچھ نئی یونیورسٹیاں بنا رہے ہیں۔ بابا گورونا نک یونیورسٹی بنا ئی جا رہی ہے۔ آپ اس پر بحث کر سکتے ہیں کہ یہ کم ہے یا زیادہ۔ ترجیحات پر بھی بحث ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔
آپ اگر پنجاب کے بجٹ کو دیکھیں گے تو آپ کو جنوبی وسطی اور شمالی پنجاب کو ساتھ لے کر چلنے کا ایک آئیڈ یل فارمولہ نظر آئے گا۔ سب کے لیے ترقی کے برابر مواقعے نظر آئیں گے۔ اگر تونسہ اور مظفر گڑھ میں صنعتی ترقی کے مواقعے نظر آئیں گے تو فیصل آباد میں 23 ارب کی لاگت سے علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کے نام سے ایک بڑے صنعتی مرکز کے قیام کا منصوبہ بھی نظر آئے گا۔ شیخو پورہ میں قائداعظم اپیرل پارک کو فعال کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ مری اور چکوال میں یونیورسٹیاں اور اسپتال بھی شامل ہیں۔
عثمان بزدار نے اس بجٹ میں زراعت کے لیے مختص ترقیاتی بجٹ میں سو فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ فصل ربیع پروگرام کے لیے بڑی رقم رکھی جا رہی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر فصل اچھی ہو بھی جائے تو کسان کو اس کی فصل کی اچھی قیمت نہیں ملتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ماڈل آکشن مارکیٹس بنائی جا رہی ہیں۔ کسانوںکو برا ہ راست سبسڈی دینے کے لیے ایگری اسمارٹ کارڈ شروع کیا جا رہا ہے۔
عثمان بزدار کا پہلا بجٹ ایک مختلف بجٹ ہے لیکن مرکزی حکومت کے بجٹ کے شور میں یہ بجٹ دب گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے بجٹ کے شور میں لوگوں نے پنجاب کے بجٹ پر توجہ نہیں دی ہے۔ ویسے کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں کچھ اپنا بھی قصور ہے۔ عثمان بزدار نے کام کرنے کے ساتھ ساتھ شور مچانے کا فن ابھی نہیں سیکھا۔ جو انھیں سیکھنا ہو گا۔ لیکن شائد ہمیں بھی خاموشی سے کام کرنے والے لوگ پسند نہیں ہیں۔ ہمیں بھی شور مچانے والے ہی پسند ہیں۔ اور ہم عثمان بزدار کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔