جی ٹوئنٹی ہمارے کس کام کی
جی ٹوئنٹی جس مقصد کے لیے متحرک ہے کیا وہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے؟
حال ہی میں ہونے والی جی ٹوئنٹی جو جاپان کے اوساکا شہر میں منعقد کی گئی بہت سی اہم وجوہات کی بنا پر دنیا بھر کی نظروں میں رہی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا میں منتخب ہونے کے بعد جس طرح سے تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں اس کا دنیا بھر میں خاصا اثر پڑا ہے۔
یہ اثر مثبت ہے یا منفی لیکن اسے کسی حد تک جارحانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ غالباً ٹرمپ اپنے تئیں امریکا کو سب سے آگے، مضبوط ترین ، اہم ترین ، ناقابل تنسیخ جیسے الفاظ کے دائروں میں رکھنے کے لیے ٹھوس پالیسیاں اختیار کرنے کے عمل پر یقین رکھتے ہیں ، اسی لیے انھوں نے بہت سے اپنے دوستوں کو بھی ناراض کرنے کو خاص اہمیت نہیں دی۔
1999ء میں اس انٹرنیشنل فورم کی بنیاد رکھی گئی تھی، یہ دراصل ان مضبوط اور طاقتور ممالک اور یورپی یونین کے درمیان ایک ایسی میٹنگ ہے جو دنیا بھر میں معاشی استحکام کو دیکھتا ہے کیونکہ دنیا کی بڑی تجارت اور حدود اربعہ ان ممالک کے پاس ہے لہٰذا یہ دنیا بھر میں سے منتخب ممالک بھی لیے جا سکتے ہیں جو نہ صرف ایک دوسرے کے درمیان تجارتی معاملات پر بات چیت کرتا ہے بلکہ دنیا بھر میں ہونے والے دوسرے معاملات و تنازعات پر بھی بات کرتا ہے۔ مثلاً تجارتی معاملات کے علاوہ دہشت گردی۔ پر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی اس میٹنگ میں کشمیر کے ایشو پر بھی بات ہو سکتی ہے۔
بھارت اور امریکا کے بیچ گزشتہ دو سال سے تجارتی معاملات میں ایک تناؤ سا پیدا ہو گیا تھا جسے مزید شدت کے ساتھ اب زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے، امریکا اور بھارت کے درمیان تجارت کی قیمت 2018ء میں 142 بلین ڈالرز تھی جس میں 5.6 بلین ڈالرز کی اشیا کی امریکا میں ڈیوٹی فری تھی بھارت نے ان کھانے پینے کی اشیا پر فری ڈیوٹی کے باعث ان تجارتی کمپنیوں کو خاصا فائدہ حاصل تھا لیکن ٹرمپ حکومت کے آتے ہی امریکا نے بھارت میں امپورٹ کیے جانے والے اسٹیل اور المونیم پر ٹیکس بڑھا دیا، مودی سرکار نے پہلے تو دھیمے لہجے میں احتجاج کیا اور جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو بھارتی حکومت نے بھی بھارت میں امپورٹ کیے جانے والے مال پر ٹیرف بڑھا دیا۔
بھارتی حکومت کی یہ جرأت امریکا کو پسند نہ آئی لیکن یہ تناؤ دو برس پہلے سے چلتا رہا ہے ۔ امریکا کے عائد کیے جانے والے جی این پی ٹیکس یعنی امریکن جنرلائز پری فرینس سسٹم کے تحت بہت سے ممالک پر یہ ٹیرف لاگو کیا گیا جس میں بھارت بھی سرفہرست ہے، لیکن امریکا کی بھارت سے ناراضگی کی دو اور بھی وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ وہ ایران سے تیل خریدتا ہے جب کہ ایران امریکا کی ناپسندیدہ ممالک کی فہرست میں ہے اور اگر یہی تیل بھارت ایران کی بجائے امریکا سے خریدے تو اسے ایک نیا خریدار بھی دستیاب ہوجائے گا لیکن ایران اور بھارت کی دوستی کے باعث خریداری کا نیا سودا بن نہ سکا، دوسری ایک اور اہم وجہ روس سے بھارت کی جنگی طیاروں کی خریداری بھی ہے اگر یہی طیارے بھارت روس کی بجائے امریکا سے خریدتا تو امریکا میں جنگی طیاروں کی خریداری کے باعث منافع کے چانس پیدا ہوتے پر ایسا نہ ہو سکا، دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی کچھ اسی طرح کی ناراضگی چین سے بھی ہے، لیکن بھارت سے یہ روش کچھ سختی اختیار کر گئی ہے کیونکہ ٹرمپ نے جی ٹوئنٹی کی اس تقریب سے پہلے ایک ٹوئیٹ میں جو چھبیس جون کو کیا گیا، کہتے ہیں۔
''میں پرائم منسٹر مودی سے اس امر پر بات کروں گا کہ جو ہائی ٹیرف دو سال سے بھارت نے امریکا پر لگائے ہیں اب یہ مزید بڑھا دیے گئے ہیں جو ناقابل قبول ہیں ان ٹیرفس کو واپس لیا جائے۔''
اس کے بعد اٹھائیس جون کو ٹرمپ اور مودی اور روسی صدر پیوٹن ایک ساتھ مسکراتے ہاتھ ملاتے نظر آتے ہیں اور بظاہر ٹرمپ کی سختی محض ٹوئیٹ تک ہی رہی۔ بی بی سی نیوز کے مطابق جی ٹوئنٹی کی اس تقریب سے قبل صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے لان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا:
''بہت سے وہ جنھوں نے امریکا سے فائدے اٹھائے تھے لیکن اب نہیں۔''
گویا ان کے مطابق بہت سے ممالک نے امریکا سے فائدے اٹھا کر اسے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچایا لیکن اب امریکا ان ممالک کو مزید فائدے اٹھانے کا موقع نہیں دے گا، ان ممالک میں بھارت سرفہرست ہے جس کی ای ٹیکنالوجی خاصی ترقی کر چکی ہے ان کی کمپنیاں اب دنیا کی بڑی کمپنیوں کے مدمقابل کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور مودی بضد ہے کہ گوگل کے اکاؤنٹس کی معلومات ان کے ملک کے گوگل میں ہی محفوظ رہے۔
ٹرمپ جی ٹوئنٹی کی اس نشست کو اچھا قرار دیتے ہیں گو تجارتی مقابلے کے باعث بہت سے ممالک ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہیں لیکن پھر بھی امید ہے کہ اس طرح بڑے ممالک ان اہم معاملات پر بھی بات کرسکتے ہیں یہ ایک اچھا فورم ہے لیکن اگر مثبت انداز میں صرف بات چیت پر ہی نہیں بلکہ عمل پر بھی زور دیا جائے۔ بی بی سی نیوز کی خبر کے مطابق چین کے صدر زی چنگ کا کہنا تھا کہ باہمی اشتراک اور گفتگو ، اختلاف اور ایک دوسرے کو ملزم قرار دینے سے بہتر ہے کیونکہ امریکا چین کی ٹیکنالوجی کمپنی ہوائی کی وجہ سے ٹینشن میں ہے لیکن اس فورم کے باعث بہت سے مسائل اور ابہام پر سے گرد جھڑنے کے امکان تو ہیں۔
دنیا مسائل میں گھری ہے کچھ ممالک امیر سے امیر ترین ہو رہے تو کچھ غربت کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں جی ٹوئنٹی جس مقصد کے لیے متحرک ہے کیا وہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے؟ کیا چھوٹے ممالک جی ٹوئنٹی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا محض نیوز چینلز پر اس کی خبریں دیکھ کر خبر سمجھ کر ہی نظر انداز کر دیں۔