جمہوریت کی فتح
وزیراعظم میاں نواز شریف نے پی ایم ہاؤس میں سابق صدر کے اعزاز میں جمعرات کو باضابطہ ایک پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا۔
پاکستان کی چھ دہائیوں پر مشتمل مدوجزر کی کیفیات سے بھرپور جمہوری وسیاسی تاریخ میں ایسی کوئی تابندہ اورقابل فخرمثال موجود نہیں کہ کسی سربراہ مملکت کو اپنی 5 سالہ آئینی مدت پوری کرنے اور عزت و احترام کے ساتھ باوقارانداز میں ایوان صدر سے رخصت ہونا نصیب ہوا ہو۔ پاکستانی سیاست کے دربار میں تو جو بھی آیا وہ ''گیا ہاتھ مل کے'' یا یہ کہیے کہ ''بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے'' والی مثال ہر صاحب اقتدار پر صادق آتی رہی لیکن سابق صدرآصف علی زرداری اپنی 5 سالہ آئینی مدت پوری کرنے کا منفرد اعزاز حاصل کرنے والے ملک کے پہلے صدر بن گئے۔ وہ ستمبر 2008 میں جمہوری انداز سے منتخب ہوئے اور 8 ستمبر 2013 کو پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرکے پورے سرکاری اعزاز و احترام کے ساتھ رخصت ہوگئے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے پی ایم ہاؤس میں سابق صدر کے اعزاز میں جمعرات کو باضابطہ ایک پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آصف علی زرداری ملک کے پہلے جمہوری صدر ہیں جو آئینی مدت پوری کرکے احترام کے ساتھ رخصت ہورہے ہیں اور ہم انھیں پورے اعزاز اور باوقار انداز سے الوداع کہہ کر ایک تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے سابق صدر زرداری صاحب کے وژن، مفاہمتی سیاست اور ملک کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کی نہ صرف یہ کہ تعریف کی بلکہ کھلے دل سے آصف علی زرداری کے سیاسی تدبر اور فہم و فراست کا اعتراف بھی کیا۔
اس موقعے پر سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی ظہرانے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی مضبوطی اور ملکی استحکام کے لیے مل کر کام کریں گے انھوں نے واضح کہا کہ ملک کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے اگر متحد ہوکر پاکستان کو مضبوط نہ کیا تو مصر، لیبیا اور شام جیسا طوفان یہاں بھی آسکتا ہے۔ یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ نواز حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے اور سیاست 5 سال بعد کریں گے جب میاں صاحب انتخابات کا اعلان کریں گے۔ سابق صدر نے کہا کہ ان کے دل پر کوئی بوجھ نہیں وہ مطمئن ہوکر ایوان صدر سے رخصت ہورہے ہیں۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب نے انتہائی مشکل حالات میں منصب سنبھالا۔ فروری 2008 کے انتخابات سے ڈیڑھ ماہ قبل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوگئیں۔ اس سانحے نے پی پی پی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو غموں سے نڈھال اور کڑی آزمائش میں مبتلا کردیا۔ ملک میں سیاسی بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا اس نازک مرحلے پر آصف علی زرداری نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ لگایا۔ فروری 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پی پی پی نے اکثریت حاصل کی اور آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کے تحت ایم کیو ایم اور اے این پی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد آصف علی زرداری صاحب جمہوری انداز سے ملک کے صدر منتخب ہوگئے۔
وہ ملکی تاریخ کے واحد صدر تھے جنھیں اندرونی و بیرونی محاذ پر سب سے زیادہ سنگین چیلنجوں اور مشکل ترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ میڈیا سے لے کر ایوان عدل تک سابق صدر آصف علی زرداری، پی پی پی کے وزرائے اعظم اور رہنماؤں کو قدم قدم پر آزمائشوں، رکاوٹوں اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن صدر صاحب نے 5 سال تک بڑے ضبط و تحمل اور برداشت کے ساتھ گزارے ۔ ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہ لگا وہ مخالفین کی تنقیدوں کا نشانہ بنتے رہے لیکن خاموشی کے ساتھ ملک کی خدمت اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے مفاہمتی پالیسی پر عمل پیرا رہے اور بالآخر مخالفین مایوس ہوکر ناکام اور صدر زرداری اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ یہ ان کی سیاسی بصیرت اور فہم و تدبر کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں 1973 کا آئین بحال ہوا۔ صوبوں کو خودمختاری ملی، صوبہ سرحد کو خیبر پختونخواہ کے نام کی نئی شناخت ملی، صدر نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے۔ بعینہ ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی پھر عام انتخابات کے نتیجے میں پرامن اور مکمل جمہوری انداز سے اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا۔
آصف علی زرداری صاحب ملک کے پہلے منتخب جمہوری صدر تھے جنھیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے چھ مرتبہ خطاب کا اعزاز حاصل ہوا۔ انھوں نے پارلیمنٹ سے اپنے آخری خطاب میں بڑے مدلل انداز میں پر مغز باتیں کیں اور ریاستی مشنری کے اہم اداروں کو مثبت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں اور احتساب و شفافیت کے اصول سب اداروں پر یکساں طور پر لاگو ہوں۔
سابق صدر نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ چند لوگوں نے دوسرے اداروں کے اختیارات غصب کیے اور احتساب کا عمل بھی یکساں طور پر لاگو نہیں ہورہا۔ صدر کے آخری خطاب پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث بھی کی گئی۔ سینیٹر بابر اعوان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو صدر مملکت کے مشورے پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ شفافیت و احتساب کے مسلمہ اصولوں کے منافی طرز عمل سے اداروں کی بدنامی اور ان کے سربراہان کی نیک نامی پر حرف آتا ہے۔ سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ مختلف اداروں کے درمیان اختیارات کے توازن کی ضرورت ہے جیساکہ قرآن شریف میں بھی توازن قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ادارتی عدم توازن پر غوروفکر کرنا چاہیے۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بالکل درست کہا کہ صدر مملکت نے اپنا پانچ سالہ دور نہایت کامیابی کے ساتھ گزارا انھیں اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو دینے، مخالف آوازوں کو برداشت کرنے اور مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے والے منتخب صدر کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ بقول فرحت اللہ بابر کے خیبرپختونخواہ کے لوگ تو ہمیشہ سابق صدر زرداری کے ممنون احسان رہیں گے کیونکہ صدر مملکت نے اٹھارہویں ترمیم سے قبل ہی انھیں ان کی شناخت دینے کا اعلان کردیا تھا۔ فرحت اللہ صاحب کی اس بات میں موجود وزن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ زرداری نے صدر کے اعلیٰ منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا بلکہ درگزر اور معاف کر دینے کی پالیسی پر عمل کیا اور مخالفین کو بھی ہدف تنقید نہیں بنایا۔
عدلیہ کا بھرپور احترام کیا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی توہین کی اجازت نہ دی بلکہ اس امر کو یقینی بنایا کہ وہ اس وقت تک چیف جسٹس رہیں جب تک ان کی مدت ملازمت پوری نہیں ہوجاتی حالانکہ ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے ایک ہفتہ قبل برطرف شدہ ججز کو بھی بحال کردیا گیا تھا۔ فرحت اللہ بابر نے بجا طور پر کہا کہ صدر زرداری نے ہر کسی کی عزت کی جس کی وجہ سے ایوان صدر سے رخصت ہوتے وقت ہر شخص ان کی عزت کر رہا ہے۔ سینیٹر رضا ربانی اور اعتزاز احسن نے بھی صدر مملکت کے آخری خطاب اور ایوان صدر سے ان کی باوقار رخصتی پر سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سنہرا باب قرار دیا اور توقع ظاہر کی کہ آنے والے صدور بھی سابق صدر زرداری کی مثبت سوچ کی تقلید، جمہوریت کی مضبوطی اور پاکستان کے استحکام کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کریں گے۔