بریگزِٹ پاکستان کو کیا کرنا ہوگا
برطانیہ میں ان افرادکی بھی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ برطانیہ ای یو سے بغیر کسی ڈِیل کے نکل جائے۔
بریگزِٹ دو الفاظ برٹن یعنی برطانیہ اور ایگزِٹ یعنی باہر نکلنا کے مجموعے سے بنا ہے۔ اس سے پہلے جب یونان نے یورپی کرنسی یورو سے علیحدگی اختیار کی تھی تو اس وقت یونان کے نام ِگریس اور ایگزٹ کو ملا کر گریگزٹ کی ٹرم استعمال ہوئی تھی اسی کی پیروی میں برطانیہ کے یورپین یونین سے اِخراج کو بریگزٹ کہا جانے لگا۔
برطانیہ کو یورپین یونین کا ممبر رہنا چاہیے یا اس تنظیم سے نکل جانا چاہیے اس سلسلے میں عوام کی رائے جاننے کے لیے 23 جون 2016 کو ایک ریفرنڈم کرایا گیا جس میں برطانیہ کے عوام نے یورپین یونین سے اخراج کے حق میں 84.1 فی صد کے مقابلے میں 15.9 فی صد سے رائے دی اس طرح یہ طے ہو گیا کہ برطانیہ یورپین یونین سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔
یورپین یونین 8 2 ممالک پر مشتمل ایک معاشی، اقتصادی اور سیاسی سمجھوتے کے نتیجے میں معرضَ وجود میں آئی ایک تنظیم ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے فورًا بعد یورپی اقوام نے یہ سوچا کہ اگر وہ آپسی میل جول بڑھائیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کریں گے تو جنگ کا امکان بہت کم ہو جائے گا۔ اسی خیال کوعملی جامہ پہناتے ہوئے یورپین یونین کی ایک سنگل مارکیٹ وجود میں آئی جس میں افراد اور سامان کی آزادانہ نقل و حرکت ہو سکتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح کسی ایک ملک کے اندر ہوتا ہے۔ یورپین یونین کی اپنی کرنسی یورو ہے۔جس نے تمام ممبر ممالک کی انفرادی کرنسیوں کی جگہ لے لی ہے۔یونین کی اپنی پارلیمنٹ ہے۔ اس کا اپنا ایک کمیشن ہے جس میں ہر ممبر ملک سے ایک کمشنر تعینات ہوتا ہے۔یورپین یونین کا ہیڈ کوارٹر بلجیم کے شہر برسلز میں ہے۔
برطانیہ اور یورپین یونین کے درمیان علیحدگی سمجھوتہ طے پانے کے بعد اس معاہدے کو برطانوی پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے تین بار پیش کیا گیا لیکن تینوں بار یہ پارلیمنٹ سے منظور نہ ہو سکا۔ برطانوی پارلیمنٹ میں پہلی ناکامی کے بعد اخراج کی تاریخ آگے بڑھا کر12اپریل 2019 کر دی گئی تھی اور پھر پے در پے ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے برطانیہ کی درخواست پر اخراج کی تاریخ کو چھ مہینے کے لیے مزید موخر کر دیا گیا ۔اب برطانیہ یورپین یونین سے 13 اکتوبر 2019کو حتمی طور پر باہر ہو جائے گا لیکن اگر برطانوی پارلیمنٹ اس تاریخ سے پہلے یورپین یونین اور برطانیہ کے درمیان تھریسا مے کے عہد میں ہوئی ڈیل کو منظور کر لیتی ہے تو ڈ یل جس تاریخ کو برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہو گی اس کے بعد آنے والے مہینے کی پہلی تاریخ کو برطانیہ یورپین یونین سے علیحدہ ہو جائے گا۔ بہرحال اب تک کی صورتحال میںبرطانیہ کے پاس 13 اکتوبر 2019 کو رات 11 بجے تک یورپین یونین سے علیحدگی یا یونین میں رہنے کا موقع ہے اس کے بعد یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔
ایسے لگتا ہے کہ برطانیہ کے لیے اب بریگزٹ سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے۔ چونکہ ایک ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت یہ فیصلہ دے چکی ہے اس لیے اس کو نافذالعمل ہونا ہے۔ اب اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے ایک نئے قانون کی ضرورت ہے مگر برطانوی حکومت اور اپوزیشن دونوں اس وقت اس بات پر تیار نہیں ہیں کہ برطانوی قانون میں ضروری ترمیم لائی جائے یا اس کے لیے نیا قانون بنایا جائے۔ لیکن اگر لیبر اور ٹوری دونوں پارٹیاں کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچتیں تو پھر ممبران پارلیمنٹ کو بہت سے آپشنز پر اپنی رائے دینی ہو گی اور ایک آپشن نئے ریفرنڈم کا بھی ہو سکتاہے۔یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈیل کیوں ضروری ہے۔یہ ڈیل اس لیے ضروری ہے تاکہ حتیٰ الا مکان یہ طلاق کاروباری اور انفرادی سطح پر بہت اچھے، ہموار،اور خوشگوار طریقے پر ہو اور اس ڈیل کے نتیجے میںحکومتوں،کاروباروں اور افراد کو اتنا وقت مل سکے کہ وہ آنے والے وقتوں کے لیے ایک دیرپا تجارتی تعلق قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
محترمہ تھریسا مے کی ان تھک سعی و جدو جہد سے جو سمجھوتہ طے پایا مگر جسے برطانوی پارلیمنٹ کی منظوری حاصل نہ ہو سکی اس کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ 585 صفحات پر مشتمل ایک وِدڈرال ایگرِیمنٹ ہے جو قانونی طور پر نافذالعمل عبارت ہے۔ اس میں وہ تمام شرائط درج ہیں جن کے نافذالعمل ہونے سے برطانیہ اور یورپین یونین میں مکمل علیحدگی ہو جائے گی۔اسی دستاویز میں یہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ یورپین یونین میں رہنے والے برطانوی شہریوں کو کیا مراعات حاصل ہوں گی اسی طرح یورپین یونین کے وہ باشندے جو برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں یا کام کر رہے ہیں ان کو اس علیحدگی کے بعد کیا کیا مراعات حاصل ہوں گی۔ اس قانونی طور پر نافذالعمل دستاویز میں یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ بریگزٹ کے بعد شمالی آئرلینڈ کی سرحد پر مشکل اور سخت بارڈر سے کیسے بچا جا سکتا ہے کیونکہ دونوں طرف کے عوام یہ نہیں دیکھنا چاہتے کہ چیک پوسٹوں پر لمبی لمبی قطاریں لگی ہوں۔
دوسری دستاویز 62 صفحات پر مشتمل ہے۔یہ قانونی طور پر نافذالعمل تو نہیں ہے لیکن بہت اہمیت کی حامل ضرور ہے۔یہ برطانیہ اور یورپین یونین کے مابین تجارت، دفاع، سیکیورٹی اور دوسرے اہم شعبہ جات میں تجاویز پر مشتمل ہے جس سے ان دونوں کے درمیان طو یل المدتی روابط کی بنیاد فرہم کی گئی ہے۔
سمجھوتے میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ دونوں فریقین کے پاس ایک عبوری مدت ہو تاکہ نئے روابط استوار کرنے کے لیے کافی وقت موجود ہو ۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے 03 اکتوبر 2019 سے 13 دسمبر 2020 تک عبوری وقت رکھا گیا ہے جو ضرورت پڑنے پر مزید ایک ماہ بڑھایا جا سکتا ہے۔اس مدت کے خاتمے پر بریگزٹ کے تمام قوانین اور شرائط و ضوابط خود بخود لاگو ہو جا ئیں گے۔یہ عبوری وقت اس لیے دیا گیا ہے تاکہ برطانیہ بآسانی اور پورے اطمینان سے دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ دو طرفہ معاہدے کر سکے ۔
برطانیہ میں ان افراد کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ برطانیہ ای یو سے بغیر کسی ڈِیل کے نکل جائے۔ ان کی رائے میں اس طرح برطانیہ کو پاؤنڈ نہیں دینے پڑیں گے اور یہ برطانیہ کی سیدھی سادھی بچت ہوگی لیکن چونکہ دونوں طرف یہ قوی احساس موجود ہے کہ انھیں ان پرانے وقتوں میں نہیں لوٹنا چاہیے جب سرحدوں پر کیمرے اور واچ ٹاور لگا کر، سرحدی چیک پوسٹوں اور کسٹم عملے کی موجودگی میں لمبی لمبی قطاریں لگا کر پریشان کیا جاتا تھا۔اس طرح نہ تو آزادانہ تجارت ہو سکے گی اور نہ ہی باوقار عوامی رابطے ممکن ہوں گے۔آنے والے وقتوں میں ان تمام مشکلات سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں فریقین کے مابین ایک ڈیل بہت ضروری ہے لیکن یورپین یونین یہ واضح کر چکی ہے کہ وہ ایک نئی ڈیل کے لیے مذاکرات نہیں کرے گی۔
یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بریگزٹ کے سلسلے میں کسی بھی پیش رفت سے برطانوی پاؤنڈ کی قدر میں ہمیشہ کمی واقع ہوئی ہے۔ہمارے بہت سے افراد اور خاندان برطانیہ میں کما کر اپنے قریبی عزیزوں کو رقوم پاکستان منتقل کرتے ہیں۔بریگزٹ کے بعد پاؤنڈ کی قدر بظاہر گٹھے گی اس طرح ایکسچینج ریٹ میں منفی تبدیلی سے پاکستان میں رقوم حاصل کرنے والوں کو کم آمدنی پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔دوسرا اس ڈیل کے نتیجے میں برطانیہ باقی تمام ممالک کے ساتھ13دسمبر 2025تک تجارتی، معاشی، ثقافتی ، سیکیورٹی اور بہت سے دوسرے نئے معاہدے کرے گا، پاکستان کے پاس یہ ایک سنہری موقع ہے کہ آنے والوں متوقع معاہدوں کے لیے ابھی سے اپنا ہوم ورک مکمل کر لے تاکہ نقص سے پاک معاہدے ہمارے لیے فائدہ مند ہوں۔