ہم ایک دوسرے کے لیے عذاب ہیں

آنکھیں بندکرکے غور کیجیے۔ کیایہ نظامِ عدل اوراس سے منسلک لوگوں کی اکثریت عام لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث نہیں ہے۔


راؤ منظر حیات July 06, 2019
[email protected]

سول سروس میں میرے سے پانچ سال سینئر افسرکے ساتھ ایک سانحہ پیش آگیا۔جب بلوچستان میں ڈی سی تھے توایک سڑک بنوائی گئی۔ اس وقت ضلع کونسل کے انچارج بھی تھے۔ٹھیکیدارکی کوتاہی کی بدولت سڑک کی تعمیرمیں کئی نقائص رہ گئے۔بلوچستان کے ایک ادارے نے تحقیق کی۔ اس طرح افسر مصیبت کاشکارہوگیا۔انھیں گرفتارکرلیا گیا اور کوئٹہ جیل منتقل کر دیاگیا۔ اس حادثے سے پہلے انھیں بالکل نہیں جانتا تھا۔ صرف نام سن رکھاتھا۔

ضمنی بات کرتا چلوں۔ اس افسرکاتعلق لاہورسے تھا۔ابتدائی تعلیم کے لیے ایچیسن کالج میں پڑھتا رہا تھا۔حددرجہ لائق انسان۔ذاتی محنت کی بدولت اسکول میں ہمیشہ بہترین نمبرحاصل کرتا رہا۔یہی صورتحال گورنمنٹ کالج لاہوراورپنجاب یونیورسٹی میں رہی۔ دونوں جگہ ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کی۔مقابلہ کاامتحان یعنی سی ایس ایس دیاتواس میں بھی اول پوزیشن حاصل کی۔ عرض کرنے کامقصدیہ کہ کمال ذہین آدمی تھا۔

بات کوئٹہ کی ہورہی تھی۔کوئٹہ جیل میں دوڈھائی مہینہ قید رہا۔بلوچستان میں انھوں نے ہراچھی پوسٹنگ کررکھی تھی۔ گرفتاری سے پہلے وسیع حلقہ احباب تھا۔جب ضمانت پر باہر آیاتوپورے شہراورتمام دوستوں کی نظریں بدلی ہوئی تھیں۔ زیرِعتاب انسان سے تولوگ ہاتھ تک نہیں ملانا چاہتے۔اس کے ساتھ بھی بالکل یہی ہوا۔مشکل وقت تھاکہ فیملی اسلام آبادمیں تھی اورکوئٹہ میں ان کے پاس رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔

ایک دن اتفاق سے ملاقات ہوئی توباتوں باتوں میں کہنے لگاکہ آج کل ٹھہرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔یہ دراصل میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ اس زمانے میں، اکیلاکوئٹہ رہتاتھا۔سرکاری گھر ملا ہوا تھا۔ دونوں بیٹے اوراہلیہ لاہورمیں تھے۔وجہ صرف یہ کہ پورے پاکستان میں کسی بھی پوسٹنگ کے دوران بچوں کوتعلیم کے تسلسل کی وجہ سے کبھی لاہور سے باہرمنتقل نہیں کیا۔ خیر گھر میں اکیلاہونے کی بدولت، سینئر افسرمیرے پاس آگئے اور کافی عرصہ رہے۔ آہستہ آہستہ ان سے دوستی ہوگئی۔وطیرہ بن گیاکہ وہ اسلام آبادچلے جاتے تھے۔ کیس کی پیشی کے لیے کوئٹہ آجاتے تھے۔

ویسے ان پرمقدمہ بالکل جھوٹا بنایا گیا تھا۔بعدمیں اس میں باعزت بری ہوگئے تھے۔مشکل ترین وقت میں انھیں نزدیک سے جاننے کا وافر موقعہ ملا۔ان کی بذلہ سنجی اورشائستگی سے حددرجہ متاثر ہوگیا۔ ایک شام کو دونوں،بالکل اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔وہ گہری سوچ میں تھے۔کہنے لگے،میری ایک بات سنوگے۔بتانے لگے کہ کوئٹہ جیل کی سی کلاس میں ڈھائی مہینے رہے۔جیل میں جتنے قیدی تھے،ان سے بات چیت کرنی شروع کردی۔قیدیوں نے انھیں اپنی جگ بیتی سنانی شروع کردی۔جیل میں مقیم تقریباً تمام قیدی فرداًفرداً اپنے ساتھ ہونے والے واقعات سناتے رہے۔گہری سوچ سے نکل کرکہا،کہ ڈاکٹر،جیل سے بدترجگہ کوئی نہیں ہے۔

اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ وہاں پر سزا یافتہ لوگ اَسی فیصدکے لگ بھگ لوگ مکمل طورپربے گناہ ہیں۔انھیں دشمنی، تعصب اور نظام کے جبرنے سزادلوائی ہے۔انکاجرم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ گفتگوجاری رہی۔ اور ہاں،پھانسی چڑھنے والے ستر فیصد لوگ قاتل نہیں ہوتے۔ وہ بھی بے گناہ ہوتے ہیں۔ مگر نظامِ عدل میں انصاف نہ ہونے کی وجہ سے،بے گناہ ہونے کے باوجودپھانسی لگ جاتے ہیں۔دراصل ڈاکٹر،ہم اندازہ نہیں کرسکتے کہ یہ نظام اورہم تمام لوگ ایک دوسرے کے لیے دنیاوی عذاب ہیں۔ خداتوگناہ اورثواب کی ناپ تول کرکے جہنم اور جنت کافیصلہ کرے گا۔

مگراس ملک میں بالخصوص،ہم ایک دوسرے کے لیے حددرجہ عذاب درعذاب ہیں۔ہم کسی کو آسان زندگی دینے کے قائل ہی نہیں ہیں۔میں خاموش ہوگیا۔ بتانے لگے۔کوئٹہ جیل میں انھیں جاکرپہلی بار،اپنے سماج کے اس بھیانک پہلوکااندازہ ہوا،جس نے ان کی بعینہ زندگی اور سوچ کادھارابدل دیا۔ان کی یہ بات اس قدر نایاب، مختلف اورحیرت انگیزتھی کہ میرے ذہن میں مستقل طور پر گھر کر گئی۔اپنی سوسائٹی کودھیرے دھیرے،اس عذاب کے کلیہ کے ذریعے پڑھناشروع کردیا۔آپ یقین نہیں کرسکتے۔ اس افسرکی بات اگرسوفیصددرست نہ تھی تونناوے فیصدمکمل طور پر سچ تھی۔سچ یہی ہے کہ ہم تمام لوگ انجانے میں اور جانتے ہوئے بھرپورطورپرایک دوسرے کے لیے باعثِ آزار ہیں۔

اس نکتہ کوسامنے رکھتے ہوئے نظام کے کسی حصہ کوبھی دیکھیے۔آپکواس تلخ حقیقت کاادراک ہوجائے گا۔چلیے، نظامِ عدل سے شروع کرلیجیے۔چندروزقبل محترم چیف جسٹس نے ایک تقریرمیں کہاکہ جوبھی خوشی کی خبرآتی ہے،وہ صرف عدلیہ کی جانب سے ہی آتی ہے۔ہوسکتاہے کہ ان کے پاس حقائق اور ان کاتجزیہ بہت زیادہ ہو۔مگرنظامِ عدل کے ناکام ہونے کے ثبوت بہت زیادہ ہیں۔سول جج صاحبان سے لے کر اوپر تک جج صاحبان اس درجہ ناقص نظام میں کام کر رہے ہیں کہ فیصلہ تو دورکی بات،انصاف کامعیارحددرجہ تنزلی کاشکار ہوچکا ہے۔

طوالت،سائلین کے جسموں سے روح اورعزتِ نفس نکال دیتی ہے۔لوگ زندہ لاشوں کی طرح دہائیوں ایک عدالت سے دوسری اوراس کے بعدتیسری یا چوتھی عدالت تک پہنچتے پہنچتے رُل جاتے ہیں۔مگرفیصلہ نہیں ہوپاتا۔ ہاں ایک اوربات،آج تک دنیاکی کسی عدالت میں پاکستان ججزکے کیے ہوئے فیصلوں کوبطورمثال پیش ہوتے نہیں دیکھا۔لندن کی کرائون کورٹ کے فیصلے پڑھیے۔آپ کو ان فیصلوں سے سیکھنے کا حد درجہ میٹریل ملے گا۔زبان و بیان سے لے کرفیصلے کے بنیادی مضمون پربھی حددرجہ محنت ہوئی نظر آجائے گی۔

مگر ہمارے بدقسمت نظام میں فیصلوں کا معیار اکثراوقات اس درجہ پست ہوتاہے کہ انسان پریشان ہوجاتا ہے۔نظام عدل میں ہر چیز ہے،مگرانصاف نہیں ہے۔عدالتوںکااسٹاف جس میں بیلف، ریڈر،نائب کورٹ، اسٹینو، تاریخ دینے والابابو،اس نظام عدل کی بنیاد ہیں۔یہ جج سے بھی حددرجہ اہم ہیں۔ اکثر کسی بھی عدالت کے اہلکار،آپکے ساتھ ہیں توآپ عدالت میں پیش ہوں،یا نہ ہوں،آپکے مقدمہ کوعدالتی بابو،لسٹ میں اس درجہ نیچے رکھے گا،کہ آپ کے کیس کی کبھی باری نہیں آئے گی۔آپ کا مخالف، پورادن ہونقوں کی طرح کمرہ عدالت کے باہربینچ پربیٹھے بیٹھے سوکھ جائے گا۔مگرشام کوکیس التوامیں ڈالنے کی بدولت، نامراد اپنے ٹھکانے پرواپس چلاجائے گا۔

آنکھیں بندکرکے غور کیجیے۔ کیایہ نظامِ عدل اوراس سے منسلک لوگوں کی اکثریت عام لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث نہیں ہے۔بالکل ہے۔ کرسی پر بیٹھے ہوئے بابو، جو چاہیں کرسکتے ہیں۔آپکے مقدر کو برباد کر سکتے ہیں۔آپکی پگڑی کواس طرح اُچھال سکتے ہیں کہ پوری زندگی کسی کومونہہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔یہ تماشہ اس ملک میں ہر روزتسلسل سے ہوتا ہے اورہوتا رہے گا۔ سائلین عذاب کا شکار رہیں گے اوران کی بات سننے والاکوئی نہیں ہوگا۔

صرف نظامِ عدل تک بات محدودکرنی حددرجہ ناانصافی ہوگی۔ملک کی بیوروکریسی کی مثال سامنے رکھیے۔اگرکسی سرکاری دفترمیں کام پڑگیاتوآپ اس حدتک ذلیل کردیے جائیں گے کہ کئی باراپناجائزکام چھوڑڈالیں گے۔دفاترکے چکرلگاتے لگاتے،جوتیاں ہی نہیں،آپکی روح کے پیچ وخم گھس جائیں گے۔مگرکام نہیں ہوپائیگا۔اگریقین نہیں آتا تو پاکستان کے کسی بھی دفترکے باہرکھڑے ہوئے سائلین سے پوچھیے کہ آپ کب سے یہاں انتظارکررہے ہیں اورافسرسے کتنی بار ملے ہیں۔ انتہائی بے چارگی سے اکثریت جواب دیگی کہ وہ سالہاسال سے آرہے ہیں۔مگرایک دوبارہی افسرسے ملنے کا شرف حاصل ہواہے۔

اگلی بارآئے تواسکاتبادلہ ہوچکاتھا۔ذلت کایہ سفران آدمیوں کے لیے ہمیشہ کی طرح جاری رہتا ہے۔ بے جواز میٹنگز، دارالحکومت کے پھیرے اوراس کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ اللے تللے،اپنی جگہ پر۔مگرعام لوگوں کی افسران تک رسائی حددرجہ مشکل ہے اورجائزکام ہونابھی ناممکن ہے۔ہاں ایک اور بات، ہر دفتر کے باہر،ٹائوٹوں کی کھیپ نظرآئیگی جوپیسے لے کر آپکاکام کروانے کادعویٰ کرینگے۔ان میں سے اکثریت فراڈئیے ہوتے ہیں۔وہ پیسے بٹورکرغائب ہوجاتے ہیں ۔

پوری سرکاری زندگی میں صرف ایک افسردیکھاہے جو اسسٹنٹ کمشنرسے لے کرچیف سیکریٹری پنجاب تک بغیر چٹ کے ہرایک سے ملتاتھا۔جوگرمیوں میں اپنے دفتر کا اے سی اس لیے بندرکھتاتھاکہ عام آدمی کے لیے اے سی کی سہولت موجودنہیں ہے۔ دفترآنے کے لیے چھوٹی گاڑی استعمال کرتا تھا۔ صرف اس لیے کہ بڑی گاڑی میں سرکاری پٹرول کاخرچہ بہت زیادہ ہوتاتھا۔دفتری اوقات کے بعد، اپنی چالیس سال پرانی فوکس ویگن گاڑی استعمال کرتا تھا۔ جسے وہ خود چلاتا تھا اور خودصاف کرتاتھا۔

بطورچیف سیکریٹری، پنجاب کی ہرتحصیل میں بذاتِ خوداوراپنی پوری ٹیم کولے کر گیا اورتحصیل کے معاملات کوبہترکرنے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ وہ کافی کام کرتارہا۔جیسے پنجاب کی سول سیکریٹریٹ میں سے تجاوزات ہٹاکراسے بالکل نیاچہرہ دیدیا۔مگرمحترم شہباز شریف،اس انسان دوست چیف سیکریٹری سے اس قدر نالاں ہوگئے کہ انھیں دوسال کے لیے اوایس ڈی بناکر رکھا۔ اس چیف سیکریٹری کولوگوں کے مسائل حل کرنے کی کڑی سزادی گئی۔اس ملک میں جوبھی لوگوںکی بہتری کے لیے کام کریگا، اسے قرار واقعی سزادی جائے گی۔

پورے ملک کے کسی بھی کونے میں چلے جائیے۔عوام آپ کوبنیادی ضروریات کے لیے ترستے نظرآئیں گے۔ جمہوریت اورجذباتی تقاریر،پلیٹ میں ڈال کرکسی بھوکے کاپیٹ نہیں بھر سکتی۔یہ صرف اورصرف بے مقصدنعرے ہیں۔ جسکے پیچھے ذاتی مفادات کے تاج محل بنے ہوئے ہیں۔کسی بھی طرح کی بنیادی تبدیلی توخیراب ممکن نہیں ہے۔مگرایک دوسرے کے لیے مسلسل عذاب بننے کی حقیقت کوجھٹلانابھی شائداب ممکن نہیں۔یہی کامیاب اورناکام ریاست میں فرق ہوتا ہے۔ کامیاب ریاستیں لوگوں کے مسائل حل کرتی ہیں۔ ناکام ریاستیں،لوگوں کے مسائل کوبڑھاتی اور پیچیدہ کرتی ہیں۔ فرق صرف سوچ کاہے جوہمارے جیسے ملک میں شائدکبھی نہ بدلے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں