کل جماعتی کانفرنس میں طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ بہترین آپشن ہے

9 ستمبر 2013ء ملکی تاریخ اور میاں محمد نواز شریف کی سیاسی زندگی کا اہم ترین دن رہا۔


فیاض ولانہ September 10, 2013
دہشتگردی کے خاتمے کی غرض سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس ایک نہیں کئی اعتبار سے عوام کے لیے باعثِ اطمینان رہی. فوٹو: اے پی پی

9 ستمبر 2013ء ملکی تاریخ اور میاں محمد نواز شریف کی سیاسی زندگی کا اہم ترین دن رہا۔

دہشت گردی کے خاتمے کی غرض سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس ایک نہیں کئی اعتبار سے عوام کے لیے باعثِ اطمینان رہی کہ وطن عزیز کے 18 کروڑ عوام نے کھلی آنکھوں کے ساتھ دن کے اجالے میں یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت ملاحظہ کی کہ ہماری تمام عسکری و سیاسی قیادت ایک فورم پر اکٹھے بیٹھی ہے۔ دہشت گردی، قومی سلامتی، سندھ و بلوچستان میں امن عامہ کے مسائل ایسے اہم ترین قومی معاملات پر بات کر رہی ہے۔ کوئی رہنما دوسرے پر طعن و تشنیع کے تیر نہیں برسا رہا۔ سب کی رائے ایک نہیں متعدد امور کے حوالے سے یکساں ہے۔

سب ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ اور امن چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں کہ آپ نے سب کو مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے لائحہ عمل طے کرنے کا موقع دیا۔ ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک سوچ، ایک رائے، ایک فیصلے کے بعد ایک متفقہ قرارداد کی منظوری کے بعد ایک دوسرے کے گلے ملتے سیاسی و عسکری رہنما دیکھ کر لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ مکمل اتفاق رائے سے منظور کی گئی قرارداد کو دیکھا جائے تو طالبان سے مذاکرات اور ڈرون حملوں کا معاملہ اقوام متحدہ تک لے جانے کی منظوری، سندھ اور بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے وہاں کی صوبائی حکومتوں پر تکیہ کرنا ہی درحقیقت اپوزیشن سیاسی جماعتوں اور عوام کے مطالبے رہے ہیں۔

عوامی نبض پہ درست ہاتھ رکھتے ہوئے اپوزیشن کے مطالبات کے عین مطابق جب حکومتِ وقت قدم اٹھانے پر راضی ہو جائے اور عسکری قیادت بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو تو پھر اسے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی خوش قسمتی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ پاکستان کی دوسری مقبول ترین سیاسی جماعت تحریک انصاف کے کارکنان اور ان کے قائد عمران خان بھی بجا طور پر خوش ہیں کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرنے اور طالبان سے مذاکرات کے مطالبات تو وہ ایک مدت سے کر رہے تھے جس کی بناء پر انہیں طالبان قرار دیے جانے تک کے طعنے سننے پڑے۔

آج ان کی خواہش کے عین مطابق طالبان سے مذاکرات کا متفقہ فیصلہ کیا گیا۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی ایسی سیاسی جماعتیں جو اس سے قبل طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر قدرے مختلف اور سخت رویہ اپنائے ہوئی تھیں اب کی بار وہ بھی تمام دیگر سیاسی جماعتوں کی ہمنوا نکلیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بطن سے یہ بھی خوش آئند حقیقت سامنے آئی کہ پہلی بار ہماری تمام قیادت کو اس بات کا یقین کی حد تک احساس ہو گیا کہ بیرونی دنیا بشمول امریکہ سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں۔

ہم نے اپنے مسائل خود ہی حل کرنا ہیں۔ خطے کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ یادیگر عالمی طاقتوں کو اب پاکستان میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں سے کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔ ہر دو صورتوں میں ہمارے لیے مستقبل کے حوالے سے کیے گئے متفقہ فیصلوں پر عملدرآمد کے راستوں کی تلاش میں بھی ایسا ہی اتفاق رائے ظاہر کرنا ہو گا۔ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ طالبان کے کن کن گروپوں سے مذاکرات کیے جانے ہیں حکومت کی جانب سے کون یہ ذمہ داریاں نبھائے گا اور رابطہ کار کون ہوں گے۔ جب مذاکرات شروع ہو جائیں تو ان کی شرائط میں سے کس کس شرط کو ماننا ہے اور کون کون سی شرط ان سے منوانا ہے اس سارے عمل کو پبلک نہ بھی کیا جائے مگر قومی سیاسی قیادت کو ہر مرحلے پر اعتماد لیا جانا انتہائی ضروری ہے۔

ہماری حکومت، اپوزیشن اور تمام سیاسی قیادت کا ہماری عسکری قیادت کے ساتھ ایک چھت تلے بیٹھ کے اتفاق رائے سے مسائل کے حل کے لیے راہیں تلاش کرنا ہماری 66 سالہ تاریخ کا وہ خواب ہے جسے دیکھنے کی حسرت لیے ہمارے آباؤ اجداد اس دنیا سے ہی چلے گئے آج اگر یہ تاریخی لمحہ آ گیا ہے تو وزیراعظم نواز شریف نے جیسا کہ کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے، معیشت کی بحالی اور توانائی کے بحران کے حل معاملات میں سیاست نہ کریں گے۔

انہیں چاہیے کہ وہ بلوچستان کے مسئلہ کے حل کے لیے تجویز کردہ آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے بعد توانائی کے بحران کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کے لیے آل پارٹیز کانفرنسیں بلائیں اور اتفاق رائے سے کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے کمربستہ ہو جائیں، اس سے جہاں اندرون ملک یہ تاثر عام ہو گا کہ آئی پی پیز کو اربوں روپے کی ادائیگیوں سمیت انہیں کسی ذاتی پسند و ناپسند کا سامنا نہیں۔ وہاں بیرون ملک پاکستان کی طرف دیکھتے سرمایہ کاروں کو بھی یہ پیغام ملے گا کہ پاکستان میں جو بھی فیصلے ہو رہے ہیں وہ مکمل اتفاق رائے اور دیرپا استحکام ترقی و خوشحالی کے لیے ہو رہے ہیں۔

اگر سیاسی جماعتوں کے منشور دیکھے جائیں تو یہی مقصد اوّلین ہے مگر ضرورت تمام قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے اور میاں نواز شریف نے اس کی ابتداء کرکے اہم قومی فریضہ سرانجام دیا ہے۔ توقع ہے کہ وہ اس سے مثبت نتائج بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہماری تمام سیاسی و عسکری قیادت ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی قومی مفادات کی خاطر خلوص نیت سے حکومت کا دست و بازو بنیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور صدارت کے اختتام پر ایوانِ صدر سے ان کی رخصتی اور نو منتخب صدر پاکستان ممنون حسین کی تقریب حلف برداری کے موقع پر ہماری قومی تاریخ کے ایسے یادگار مناظر دیکھنے کو ملے کہ قومی جذبے سے سرشار ہر درد مند دل میں طمانیت کی لہر اور آنکھوں میں خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں اظہار تشکر کی نمی محسوس کی گئی۔ قوم کو یقین ہو چلا ہے کہ بحیثیتِ قوم ہم ایک دوسرے کو برداشت کرنے لگے ہیں۔آصف علی زرداری کی ذات سے ہزار اختلاف کے باوجود اس بات کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے کہ تمام تر اختیارات کے باوجود ان کی ذات پر تنقید کرنے والوں کو انہوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔

نو منتخب صدر مملکت ممنون حسین کاتقریب حلف برداری کے بعد واشگاف الفاظ میں یہ اعلان ہی انتہائی خوش آئند ہے کہ میں غیر جانبدار رہوں گا اور اپنی غیر جانبداری ثابت کروں گا۔ قوم کو بھی ان سے یہی توقع ہے کہ وہ غیر جانبداری سے ملک وقوم کی خدمت کریں گے۔

16 ستمبر سے تین روزہ دورے پر وزیراعظم نواز شریف چین کے بعد اپنے دوسرے سرکاری غیر ملکی دورے پر ترکی جا رہے ہیں جہاں وہ اپنے ہم منصب طیب اردگان کے ساتھ ساتھ دیگر اہم سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے جن میں شام کی صورتحال بالخصوص ستمبر کے آخری ہفتے میں اقوام متحدہ میں ہونے والے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے حوالے سے اہم ترین گفتگو کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں