’’غفران امتیازی لیاقت علی عاصمنثار ناسک ‘‘
غفران امتیازی پاکستان ٹیلی وژن کی اُن چند شخصیات میں سے ایک تھے جنھیں بلاشبہ اس کے معماروں کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ چند کالم دورہ چین کی نذر ہو گئے اور یوں یکے بعد دیگرے اس دوران میں تین پیارے انسانوں اور اچھے دوستوں کی رحلت پر اُن کو یاد کرنے اور اُن کی قبروں پر لفظوں کے دو پُھول چڑھانے کا موقع ہی نہ مل سکا، جو اُن کا حق اور ہم پیچھے رہ جانے والوں کا فرض بنتا ہے۔
اس ایک مختصر سے کالم میں ان تینوں معتبر اور نامور تخلیق کاروں کی کئی خدمات اور ذاتی یادوں کا احاطہ کرنا تو کسی صورت بھی ممکن نہیں کہ ان میں سے ہر ایک ، ایک سے زیادہ کتابوں کا حق دار ہے، سو یہ چند سطریں اگر اُن کی ایک جھلک بھی محفوظ کر سکیں تو یہ بھی بہت غنیمت ہو گا۔
غفران امتیازی پاکستان ٹیلی وژن کی اُن چند شخصیات میں سے ایک تھے جنھیں بلاشبہ اس کے معماروں کا درجہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ کم و بیش ابتداء سے ہی اس تاریخ ساز ادارے سے منسلک ہو گئے تھے اور جن کی ساری زندگی اسی کے حوالے سے نہ صرف گزری بلکہ انھیں اس عمارت کے بنیادی ستون بننے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ غفران بھائی سے میری پہلی ملاقات پنڈی ٹی وی کے اُس عارضی اسٹیشن میں ہوئی جہاں سے پی ٹی وی کی نشریات اسلام آباد ٹی وی اسٹیشن کے آغاز سے قبل دکھائی جاتی تھیں۔
وہاں کے اسکرپٹ ایڈیٹر یونس منصور مرحوم نے اُن سے میرا تعارف کرایا۔ انھوں نے نہ صرف میری شاعری کے بارے میں بہت اچھے کلمات کہے بلکہ ٹی وی اسکرپٹ رائٹنگ کے حوالے سے بھی کئی ایسی باتیں کیں جنہوں نے بطور اسکرپٹ رائٹر میرے لیے ایک بہترین تربیت گاہ کا کام کیا۔ وہ ''حوّا کے نام'' نامی اُسی سیزیز کے بھی ایگزیکٹو پروڈیوسر تھے جس میں میرے دو ابتدائی کھیل ''برزخ'' اور ''موم کی گڑیا'' ساحرہ کاظمی (اُس وقت ساحرہ انصاری) کے زیر ہدایات پیش کیے گئے ۔ یہاں سے اُن سے ایک ایسا تعلقِ خاطر قائم ہوا جو ہمیشہ تازہ اور سر سبز رہا۔
کوئی دو برس قبل جب انھوں نے مجھے اپنی آپ بیتی کے حوالے سے کچھ لکھنے کے لیے کہا تو جیسے چار دہائیاں خوشبو کی طرح چاروں طرف پھیل گئیں وہ ایک بہت دھیمی طبیعت کے انسان تھے اور اُن کی گفتگو میں ایک خاص طرح کی عاجزی اور انکساری تھی جس سے قطعاً یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنے کام کے سلسلے میں اس قدر سخت مگر اور اصول پرست ہوں گے کہ بڑے سے بڑا اداکار بھی اُن کی ریہرسل میں دیر سے آنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا ۔ ٹی وی ڈرامے کے حوالے سے اگرچہ بہت سے پروڈیوسرز نے بہت نام کمایا ہے مگر یاور حیات کے بعد غالباً غفران امتیازی دوسرے آدمی تھے جنھیں اس کے حوالے سے درسگاہ کا مقام دیا جا سکتا ہے۔ ایسے مخلص کردار اور باہنر لوگ اب ہمارے معاشرے میں صرف یادوں میں ہی زندہ نظر آتے ہیں۔
لیاقت علی عاصم سے پہلی بالمشافہ ملاقات دبئی کے کسی مشاعرے میں تقریباً تیس برس قبل ہوئی تھی اور اگر چہ اس درمیان میں لمبے وقفے بھی آتے رہے مگر وہ جب بھی ملے اُن کی آنکھوں میں وہی محبت کی روشنی اور کلا م میں وہی مخصوص تازگی تھی جس نے پہلی ملاقات میں ہی دل کو چُھو لیا تھا۔ اُس وقت بھی اُن کی صحت کوئی بہت زیادہ اچھی نہیں تھی لیکن بعد کی ملاقاتوں میں وہ ہر بار پہلے سے بھی زیادہ کمزور نظر آئے، یہ اور بات ہے کہ شعر پڑھتے وقت اُن کی آواز کی گرمی اور گونج میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی، اُن کو مصرعہ بنانے اور شعر کو سجانے کا وہ ڈھنگ آتا تھا جو اُن کے بیشتر ہم عصروں میں انھیں سے منفرد اور ممتاز کرتا تھا چند شعر دیکھئے:
عشق بارِ دگر ہُوا ہی نہیں
دل لگایا تھا دل لگا ہی نہیں
ایک سے لوگ ایک سی باتیں
گھر بدلنے کا فائدہ ہی نہیں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
......
کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا
مجھے اپنا ہاتھ بھی چُھو گیا تو خیال تیری طرف گیا
کوئی آ کے جیسے چلا گیا کوئی جیسے جا کے گیا نہیں
مجھے اپنا گھر کبھی گھر لگا تو خیال تیری طرف گیا
......
شام سے آنکھ چراتے ہوئے منظر کے قریب
ایک خورشید نکلتا ہے مرے گھر کے قریب
......
نہ کرے چشم خوباں پیش بینی
کوئی حالت نہیں دل کی یقینی
برا مت مان جانے دے مرے دل
یہ دنیا ہے ہمیشہ کی کمینی
پناہِ عشق میں محفوظ گزرا
قیامت خیز دورِ بے یقینی
نثار ناسک مرحوم کو عوامی شہرت اور پہچان گو جنید جمشید مرحوم، شعیب منصور اور اُن کی ٹیم کے بے مثال قومی گیت ''دل دل پاکستان'' سے ملی مگر ادبی حلقوں میں وہ اس سے بہت پہلے اپنا نام اور مقام کا بنا چکا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اوریئنٹل کالج میں ایم اے اُردو کے دوران اُس کا یہ شعر ہمارے حلقہ یاراں میں بہت مشہور اور مقبول تھا۔
میں سازشوں میں گھِرا اک یتیم شہزادہ
یہیں کہیں کوئی خنجر مری تلاش میں ہے
اسلام آباد کی ادبی محفلوں اور درجنوں مشاعروں میں ا س سے ملاقاتوں کا سلسلہ اگرچہ گزشتہ نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے مگر اتفاق سے حالیہ چند برسوں میں یہ بوجوہ ایک بے ارادہ سے تعطل کا شکار ہو گیا اُس کی بیماری اور آخری دنوں میں تنگ دستی کی خبریں تو ملتی رہیں مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس قدر خراب ہیں۔ اب اُس کی رحلت کی خبر ملی ہے تو بار بار اس بات پر شرمندگی ہو رہی ہے کہ ہم لوگ ایک ہی برادری سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے کیسی افسوسناک دُوری پر رہتے ہیں اور ایسی بے معنی مصروفیتوں میں اُلجھے رہتے ہیں جن کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب توجہ کا وقت گزر چکا ہوتا ہے اور اُس کی گرد میں صرف جانے والوں کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ کیسا بانکا اور صاحبِ نظر شخص تھا ان شعروں کا خالق نثار ناسک۔
ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسکؔ
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے
ماں مجھے بھی صورتِ موسیٰ بہا دے نہر میں
قتلِ طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں
دست و پابستہ کھڑا ہوں پیاس کے صحرائوں میں
اے فرات زندگی تُو نے یہ کیا بخشا مجھے
میں اکیلا حرف تھا کاغذ کی کشتی میں سوار
میری ہی تنہائیوں کا بوجھ لے ڈوبا مجھے
چند کرنیں جو مرے کاسے میں ہیں ، ان کے عوض
شب کے دروازے پہ بھی دینا پڑا پہرا مجھے
میں نے ساحل پر جلا دیں مصلحت کی کشتیاں
اب کسی کی بے وفائی کا نہیں کھٹکا مجھے