’’شامِ غریباں‘‘
سر کی بازی لگانے والوں کی مجلس میں عمامہ و دستار کی گنجائش کہاں۔
سیاست کا بے رحم پہیہ اپنی پوری رفتار سے گھوم رہا ہے، یعنی اہل سیاست اپنی اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں، حکومت اپنا کام کیے جا رہی ہے۔ مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ حکومت مخالفین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
بڑے سیاسی مخالف پابند ِسلاسل ہیں۔ جب کہ چھوٹے اپنی سیاسی صفیں درست کرنے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی ایک رہنماء کی سربراہی میں اپوزیشن متحد نہیں ہو پا رہی۔ اور فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن کے آیندہ ہر اجلاس کی صدارت کسی نہ کسی ایک جماعت کا رہنما کرے گا۔ اپوزیشن کے اس کمزور اتحاد سے حکومت کو ریلیف مل رہا ہے ۔ جیل سے آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی کمزور آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
لیکن میں بطور اخبار نویس اس وقت کو یاد کر رہا ہوں جب بھلے وقتوں میں کوئی سیاسی رہنما جیل جاتا تھا تو وہاں سے وہ اخبار نویسوں سے رابطہ رکھنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ اس وقت موبائل فون یا ٹیلی ویژن کا دور نہیں تھا۔ عموماً پابند سلاسل رہنما اپنے کسی ملنے والے کے ذریعے کوئی پیغام بھیج دیتے تھے جو خبر بن جاتا تھا، یا پھر کسی کتاب کا تحفہ بھیج دیتے ۔
ہمارے سیاستدانوں کی کئی شہرہ آفاق کتب انھوں نے اپنی اسیری کے دوران لکھیں ۔ ہماری جانب سے ''رفتید ولے نہ از دل ما'' والا معاملہ رہتا۔ وہ ہمیں پھر بھی اپنی یاد کسی نہ کسی طرح دلاتے رہتے ۔ کبھی خط لکھ کر اور کبھی کسی تحفے کے ذریعے۔ شاید ان پابند لوگوں کے دلوں میں شک ہوتا تھا کہ ہم لوگ جو بظاہر آزاد پھرتے ہیں اپنی کھلی مصروفیات میں ان قیدیوں کو بھول جاتے ہیں جو ہماری آزادی کے لیے قید ہیں۔ عموماً نوابزادہ نصر اللہ خان اپنی اپوزیشن کی سیاست کی وجہ سے اکثر نظر بند رہتے ۔
ائر مارشل اصغر خان بھی اپنی سیاست کے آغاز میں حکومتی نظر بندی کا شکار رہے ان کے علاوہ دوسرے کئی سیاسی رہنما بھی اکثر حکومتی جبر کا شکار رہتے تھے۔ لیکن یہ دونوں سرکردہ رہنما ایسی شخصیات تھیں جن کی یاد ان کے تحفوں اور یاد دہانیوں کی محتاج نہیں تھی۔ نواب صاحب برسات کے اس موسم میں ہمیں ویسے بھی ہر سال یاد آتے ہیں۔ ان کا معمول تھا کہ برسات کے دنوں میں جب آم کی فصل اترتی تھی تو لاہور کی زندگی میں ایک توانا اور شائستہ آواز ضرور بلند ہوتی تھی ۔
یوں تو یہ آواز لاہور کی سیاسی زندگی کا ایک مستقل جزو بن گئی تھی لیکن بعض موسم اس آواز کے لیے ایک ایسی محفل کو بھی ساتھ لاتے جو لاہور کی ختم ہو جانے والی ادبی اور علمی محفلوں کی طرح اس سیاسی محفل کو یاد گار بنا دیتے۔ نہ صرف لاہور بلکہ دور دور سے سیاسی کارکن، رہنماء ، اخبار نویس اور سیاست سے محض علمی دلچسپی رکھنے والے اہل ذوق بھی اس محفل میں شریک ہوا کرتے ۔ کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے جاتے جو ترک سیاست کے بعد اپنی پرانی یادیں تازہ کرنے ادھر آ نکلتے ۔ ان محفلوں میں سیاسی زندگی کے کئی نازک مسائل بھی طے ہوا کر تے اور سیاست کے نئے رخ بھی متعین ہوتے ۔
علم سیاست پر درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہتا اور کسی تازہ سیاسی مسئلے پر گفتگو ہوتی تو ماضی کی کتاب سیاست کے اوراق الٹنے لگتے۔ جب پرانے سیاستدانوں کو کسی ایسے ہی مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انھوں نے کس طرح اس مشکل پر قابو پایا تھا۔ مثلاً کسی سیاسی حریف یا حکومت وقت سے مذاکرات کا سوال سامنے آیا اور حمایت اور مخالفت میں آرائیں آنا شروع ہوئیں تو دنیا کی معلوم سیاسی تاریخ کے ان تمام مذاکرات کا تذکرہ شروع ہو گیا جو کہیں بھی کسی ایسے موقع پر منعقد ہوئے تھے۔
قریبی احباب نے گپ شپ اور سیاسی گفتگو والی اس شام کی محفل کو ''شام غریباں'' کا نام دے رکھا تھا جو رات گئے تک برپا رہتی تھی ۔ اس محفل کے میزبان نوابزادہ صاحب ہوا کرتے تھے اور مہمان وہ سب لوگ جنھیں سیاست اور آموں سے رغبت ہوتی تھی ۔ رات کا کھانا بھی بازار سے آتا تھا یا کبھی وہیں کوئی ورکر نما باورچی تیار کر دیتا اور کبھی کوئی شریک محفل اپنے ساتھ بالٹی گوشت لیتا آتا لیکن آم نواب صاحب کے باغ کے ہوا کرتے اور اس باغ کے ہر پودے کی ایک تاریخ تھی اور شجرہ نسب تھا اور اس کے پھل کا ایک جدا گانہ ذائقہ تھا ۔ شرکاء محفل کو اس باغ کی اس ان دیکھی ''امبی'' سے عشق ہو گیا تھا جس کے پھل کی تعریف میں نواب صاحب گم ہو جاتے تھے اور اس کے آم چوس کر اہل محفل ان کی خوشبو پر حیرت کا اظہار کرتے تھے ۔ مرزا غالبؔ کی بد قسمتی کہ وہ اس ''امبی'' کا پھل نہ چکھ سکے۔
گزشتہ برسوں کی طرح جب بھی لاہور کا آسمان بادلوں سے بھر جاتا ہے اور برسات شروع ہو جاتی ہے تو مجھے وہ ''شام غریباں'' یاد آ جاتی ہے جو اب رفتہ رفتہ خواب و خیال ہوتی جا رہی ہیں اور کون کہہ سکتا ہے کہ نئے میر محفل اب کون ہوں گے کیونکہ ذوق رکھنے والے لوگ تو گزر گئے ۔ نئی محفلیں کون آراستہ کرے گا اور نہایت احترام کے باوجود بے تکلفی کی کیف ِ اعلیٰ رکھنے والی یہ فضا کب قائم ہو گی۔ اب تو رفتہ رفتہ وہ آزاد لوگ بھی کسی بیڑی کے مسافر کی طرح تتر بتر ہوتے جا رہے ہیں جو ان محفلوں کے مستقل شرکاء اور ان کی جان ہوا کرتے تھے۔
یہ محفل جو دنیاوی جاہ و حشم سے یکسر خالی سیاسی فقیروں اور درویشوں کی محفل تھی ہم نے رات کی تاریکی میں بچتے بچاتے سلطان وقت کے پیغامبر بھی حاضری دیتے دیکھے ۔ وزیر مشیر بھی دیکھے اور محتسب اور کوتوال بھی۔ مغل اعظم اکبر کے دربار کی شاہانہ شان و شوکت میں دن رات رہنے والے فیضی نے بھی کوئی ایسی ہی درویشانہ محفل دیکھ لی تھی کہ اس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا :
دریں بارگاہِ ادب سروراں
جوئند تاج از برہنہ سراں
عجیب ماجر ا ہے کہ برہنہ سر لوگوں کی اس بارگاہ ادب میں سردار اپنے لیے تاج تلاش کرنے آتے ہیں حالانکہ فیضی ہی کے بقول یہ محفل تو وہ محفل تھی کہ:
در مجلس سر بازاں عمامہ نمی گنجد
سر کی بازی لگانے والوں کی مجلس میں عمامہ و دستار کی گنجائش کہاں۔ بہر حال میں لاہور کی اور اس ملک کی سیاسیاست عالیہ کی اس یاد گارمحفل کو یاد کرتا رہتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ نکلسن روڈ کے اس حصے سے نہ گزروں جہاں کے ایک مکان میں نواب صاحب ڈیرہ ڈالتے تھے اور شام غریباں کی مجلس برپا ہوتی تھی۔