امریکا کا اعلان آزادی
حقوق کی بات انگریزوں کی ’’میگنا کارٹا‘‘اور امریکیوں کے ’’اعلان آزادی‘‘سے پوری دنیا میں مقبول ہوئی
امریکا کا آئین 1789میں نافذ ہوا' جارج واشنگٹن پہلے صدر منتخب ہوئے' لیکن آئین کے نفاذ سے بہت پہلے امریکی ریاستوںنے ''اعلان آزادی''4 جولائی 1776 کو پاس کیا'اعلان آزادی کے بعد امریکی ریاستوں نے برطانوی سامراج سے آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کی' اعلان آزادی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا اپنی یوم آزادی4 جولائی کو ''اعلان آزادی '' کی مناسبت سے مناتاہے' 4جولائی 2019 کو امریکا نے اپنا 243 واں یوم آزادی منایا' آج کچھ ذکر آزادی اور حریت کے اس عظیم دستاویز کا ہوجائے جس کو امریکا کا ''اعلان آزادی'' کہتے ہیں' ستم ظریفی دیکھیے کہ انسانی آزادیوں اور حقوق کی بات انگریزوں کی ''میگنا کارٹا''اور امریکیوں کے ''اعلان آزادی''سے پوری دنیا میں مقبول ہوئی' بعد میں یہی لوگ تھے جنھوں نے ملکوں اور قوموں کی آزادیوں کو سلب کیا اور اپنے اسلاف کے آدرشوں سے انحراف کیا۔ (The U.S.A from colony to worldpower)
امریکی تاریخ کی ایک بہترین کتاب ہے 'یہ کتاب O.P.Chitwood .F.L.Owsley اور C.Nixon. H کی مشترکہ تصنیف ہے'کچھ عرصہ قبل یہ کتاب میرے زیر مطالعہ تھی کہ اچانک ایک باب پر میر ی نظر رک گئی۔اس باب کا عنوان ہے ''امریکا کا ا علان آزادی ''(Declaration of Independence)۔ اس دستاویز کے مندرجات پڑھ کر امریکا کا موجودہ اور ماضی کا کردار ذہن کے پردے پر فلم کی طرح حرکت کرنے لگا۔ کتنا جمہوری اور ا نسان دوست ماضی اور کتنا انسان دشمن اور ظالمانہ حال ہے' امریکی سامراج نے جنگ عظیم دوم کے بعد ساری دنیا کے ا من پسند اور جمہوریت پسند عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے' ہیروشیما اور ناگا ساکی کے لاکھوں عوام کا قاتل' کوریائی عوام کی تقسیم اور ویت نام پر کارپٹ بمباری 'کیوبا 'چلی' ایکو اڈور' نگاراگوا' بولیویا اور وینزویلا سمیت پورے لاطینی امریکی عوام کی لوٹ مار کا مجرم' چے گویرا' صدر آلندے' عظیم شاعر پبلو نرودا' پیٹرک لومبا' سوئیکارنو'ڈاکٹر مصدق' ڈاکٹر نجیب'نیلسن منڈیلا کا گناہگار' اسرائیل اور صہیونیت کا سرپرست' تیل کی دولت پر قبضے کے لیے آمرانہ حکومتوں کا حامی' عراق' افغانستان' شام' لیبیا سمیت پورے مشرق وسطی کو بدامنی کے سپرد کرنے والا' گوانٹانا موبے' ابوغر یب اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے عقوبت خانوں کا انچارج ۔ ایشیا' افریقہ' لاطینی امریکا کے مفلس عوام کو نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے سیاسی اور معاشی غلام بنانے والا'ریاستی دہشتگردی کا سرخیل' مذہبی انتہا پسندی اور عالمی دہشتگردی کا سرپرست' تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا سودا گر' ایران اور شمالی کوریا کو پرامن ایٹمی ترقی سے بزور روکنے والا' آج کا امریکا جو عظیم فلسفی برٹینڈرسل اور پروفیسر نوم چومسکی جیسے غیر کمیونسٹ دانشوروں کی رائے میں بھی انسانیت کا مجرم ہے۔
اس کردار والے امریکا کا ماضی کتنا جمہوری اور انسان دوست ہے ا س کے بانیوں کا تیار کردہ ''اعلان آزادی'' ان ا علی و ارفع آدرشوں کا آ ئینہ دار ہے جس کے لیے ا نسان اول دن سے قربانیاں دے رہا ہے' اس ا علان آزادی میں پہلی بار تین امور کو انسان کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے یعنی ''آزادی' زندگی' اور حصول مسرت''۔ پہلی بار حکومت اور عوام کے حقوق اور فرائض کو آشکارا کیا گیا ہے' غلامی اور جبر کے خلاف حق خودارادیت کی حمائت کی گئی ہے' سول اداروں پر فوجی بالادستی اور آمرانہ حکومتوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف جد و جہد کو جا ئز قرار د یا گیا ہے 'آ ج کے امر یکی کر دار کو د یکھ کر یقینا تھا مس جیفر سن'جا ر ج واشنگٹن'ابراہام لنکن' بنجمن فر ینکلن اور جام ایوم کی رو حیں بے چین ہوںگی۔
امریکا کے ''ا علان آزادی'' کو تھامس جیفرسن نے لکھا' ان کے ساتھ کمیٹی میں بنجا من فر ینکلن' جان ایڈیم'روجرشرمن' اور رابرٹ لیو ینکسٹن شامل تھے۔4 جولائی 1776 کو یہ کانگریس سے منظور ہوا اور2 اگست کو تمام ممبران نے اس پر دستخط کردیے'اس کی بنیاد وہ قرارداد آزادی تھی جو 7جون1776 کو ریا ست ورجینا کے نمایندہ رچرڈ ہنری لی نے کا نگر یس میں پیش کی تھی اور جس کو بیک آواز منظور کیا گیا تھا۔ ''اعلان آزادی'' کی منظوری کے بعد امریکا میں برطانوی سامراج سے آزادی کی جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
اعلان آزادی۔جب بھی انسانی حالات کے دوران یہ ضروری ہوجائے کہ ایک ملک کے باشندے ان سیاسی رشتوں کو توڑ دیں جو ان کو کسی دوسر ے ملک کے باشندوں سے جوڑ ے ہوئے تھے تو ان لوگوں پر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ عالمی رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے ان اسباب کی وضاحت کریں'جن کی وجہ سے وہ علیحدگی پر مجبور ہوئے۔
ہم ان سچائیوں کو ابدی سمجھتے ہیں کہ تمام انسان پیدائشی طور پر مساوی ہیں اور خالق حقیقی نے ا نہیں چند ناقابل انتقال حقوق سے نوازا ہے جن میں'' زندگی' آزادی اور حصول مسرت'' کا حق بھی شامل ہے اور یہ کہ ا نہی حقوق کے حصول اور تحفظ کے لیے انسانوں کے درمیان حکومتیں قائم کی جاتی ہیںاور یہ کہ جب بھی کوئی طرز حکومت ان مقاصد کے لیے تباہ کن ثابت ہونے لگے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ ا سے تبدیل یا ختم کر دیں اور ایک نئی حکومت بنا لیں جنکی بنیاد ان اُصولوں پر قائم کی جائے کہ ان کے تحفظ اور مسرت کی زیادہ سے زیادہ ضمانت ہو سکے' یقینا مصلحت اندیشی کا تقاضہ یہی ہے کہ ان حکومتوں کو جو عرصے سے قائم ہوں معمولی اور عارضی اسباب کے بناء پر تبدیل نہیں کرنا چاہیے چنانچہ تجربہ شاہد ہے کہ بنی نو ع انسان اس وقت تک تکالیف برداشت کرتی رہتی ہے جب تک وہ قابل برداشت ہوتی ہیں لیکن جب ان غلط کاریوں اور حق تلفیوںکا سلسلہ طویل ہوجائے اور یہ ظاہر ہونے لگے کہ اس سب کا مقصد کسی باقاعدہ منصوبے کے تحت کلی استبداد کی راہ ہموار کرنا ہے تو لوگوں کا حق نہیں بلکہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ ایسی حکومت کا تختہ الٹ دیں اور نئے محافظ متعین کرلیں' یہ امریکی نو آبادیاں بھی بڑے صبر سے ان مصائب کو برداشت کرتی رہی ہیں اور ان کے لیے اب لازم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے حکومت کے سابقہ طریقوں کو تبدیل کر دیں' موجودہ شاہ برطانیہ کی تاریخ مستقل ناانصافیوں اور غاصبانہ حرکتوں کی تاریخ ہے اور ان سب کا مقصد ان (امریکی) ریاستوں پر مطلق آمریت نافذ کرنا ہے' اس کے ثبوت میں انصاف پسند دنیا کے روبرو چند واقعات پیش کیے جاتے ہیں۔
شاہ برطانیہ نے ان قوانین کی توثیق سے انکار کردیا ہے جو پبلک کی بھلائی کے لیے مفید اور ضروری تھے' اس نے کچھ اور اہم قوانین کے توثیق کرنے سے بھی انکار کردیا ہے' اس نے قانون ساز اداروں کے اجلاس ایسے مقامات پر طلب کیے جو اس مقصد کے لیے نہایت ناموزوں' غیر آرام دہ اور ان جگہوں سے بہت دور تھے جہاں سرکاری دستاویزات مہیا ہوں' ایسا محض لوگوں کو تھکانے کے لیے کیا جاتا ہے' اس نے ان نمایندہ اداروں کو بار بار برطرف کیا ہے جنھوں نے لوگوں کے حقوق پر اس کے حملوں کا مردانہ استقامت سے مقابلہ کیا۔
اس نے ایسے برطرف شدہ اداروں کی جگہ دوسرے اداروں کے انتخاب میں تاخیر کی ہے تاکہ قانون سازی کے اختیارات جو ناقابل تنسیخ ہیں دوبارہ عوام کے ہاتھوں میں نہ آجائیں۔ اس نے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کی قوانین کی توثیق میں رکاوٹ ڈالی' اس کے ساتھ ہی نئے زمینیں حاصل کرنے کے شرائط سخت کر دیں۔ اس نے عدالتوں کے اختیارات کے قانون کی توثیق نہ کرکے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی' اس نے ججوں کی مدت ملازمت' تنخواہوں اور دیگر مراعات کو اپنے اختیار میں رکھ کر ججوں کو اپنی مرضی کے تابع بنایا' اس نے زمانہ امن میں بھی ہمارے قانون ساز مجلسوں کی مرضی کے بغیر ہم پر مستقل فوج مسلط کر رکھی ہے' اس نے فوج کو سول اداروں سے بالاتر بنا دیا ہے۔اس کے ناروا ظلم کے ہر مرحلے پر ہم نے بڑی عاجزی کے ساتھ ا س کے مداوے کے درخواستیں کی ہیں لیکن ہماری ہر درخواست ناقابل اعتناء ٹھہری' ایک مطلق ا لعنان آمر کو ہم جیسے آزادی پسند لو گو ں کا حا کم بننے کا کوئی حق نہیں ہے
ہم پر یہ ا لزام عا ئد نہیں ہو سکتا کہ ہم نے ا پنے برطانوی بھائیوں کی تو جہ اس طرف مبذول نہیں کرائی 'ہم نے ان کے قا نو ن سا زوں کے نا جا ئز اقدامات سے انکو خبردار کیا ہے جو ہمارے اُوپر مسلط رہے ہیں' ہم نے ان کے نام بار بار انصاف کی اپیلیں کیں ' لیکن انھوں نے بھی یگانگت اور انصا ف کی آ واز پر اپنے کان بند کر رکھے ہیں لہذا ہم بھی حالات سے مجبور ہو کر اور و قت کے ضرورت کے تحت اس علیحدگی کو قبول کرتے ہیں۔
لہذا ہم ریاست ہائے متحدہ امریکا کے نما یندگان جو اس عام کا نگریس میں جمع ہوئے ہیں 'دنیا کے انصاف پسند عوام کے ضمیر کو اپنے نیک ارادوں کا گوا ہ بنا کر ان نو آبادیو ں کے شریف عوام کے نام پر اور اُن کے تفویض کردہ اختیارات کے تحت باضابطہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ ''نوآبادیات اپنی پیدائشی حق کے بناء پر آج سے آزاد اور خود مختار ہیں اور رہیں گی اور یہ کہ ا نہوں نے تاج بر طانیہ سے تمام تعلقات ختم کردیے ہیں اور اب ایک آزاد اور خود مختار ریاستوں کے حیثیت سے ان کو یہ کامل اختیار ہے کہ وہ جنگ کا اعلان کریں، امن قائم کریں' باہمی معاہدے اور تجارت کریں اور ا یک خود مختار ریاست کے طور پر تمام امور سر انجام دیں' اس اعلان کی تائید میں فضل خداوندی کے تحفظ و تائید پر مکمل بھروسہ کرکے آپس میں عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی جان مال اور عزت سب کچھ قربان کرنے سے گر یز نہیں کریں گے۔