سانحہ بلدیہ کی برسی فیکٹری میں ہولناک آتشزدگی ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گئی

مرنے والوں میں زیادہ تر بلدیہ ٹاؤن کے رہائشی تھے، فیکٹری کے اطراف کے علاقے میں یہی المناک واقعہ زبان زد عام ہے


Raheel Salman September 11, 2013
سانحہ بلدیہ میں جاں بحق افراد کے غمزدہ لواحقین دعائیہ تقریب میں شریک ہیں۔ فوٹو : ایکسپریس

سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو ایک برس بیت گیا لیکن لواحقین کے آنسو خشک نہ ہوسکے ،ورثا کی آنکھیں اپنے پیاروں کی یاد میں آج بھی اشکبار ہیں۔

حکومت کی جانب سے مالی امداد بھی کی گئی لیکن انسانی جان کا نعم البدل کوئی نہیں ، لواحقین کا کہنا ہے کہ اس المناک حادثے نے ان سے ان کے پیارے چھین لیے، یہ حادثہ ان کے ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق 11 ستمبر 2012 کو انسانی تاریخ کا بدترین المیہ رونما ہوا جب بلدیہ ٹاؤن میں واقع گارمنٹس فیکٹری علی انٹر پرائزز میں ایسی آگ لگی جو اپنے ساتھ 259 افرادکی زندگیاں نگل گئی، اس حادثے میں سیکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے۔



مرنے والوں میں تمام ہی محنت کش تھے اور اپنے اپنے گھروں کی مالی کفالت کرتے تھے ، کئی ایسے بھی تھے جو اپنے گھروں کے واحد چشم و چراغ اورسہارا تھے لیکن آگ کے بے رحم شعلوں نے انھیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، ایک ہی خاندان کے کئی کئی افراد بھی اس واقعے میں جان سے گئے، حادثے سے مرنے والوں کے گھروں میں گویا آسمان پھٹ پڑا اور ان پر قیامت ڈھا گیا ،سیکڑوں گھرانوں میں صف ماتم بچھ گئی، مرنے والوں میں زیادہ تر بلدیہ ٹاؤن کے ہی رہائشی تھے۔

واقعے کو ایک برس بیت گیا لیکن فیکٹری کے اطراف کے علاقے کی ہر گلی میں یہی المناک واقعہ زبان زد عام ہے، کسی متوفی کے گھر میں قرآن خوانی، کہیں فاتحہ خوانی اور کہیں تعزیت کیلیے آنے والوں کا رش لگا ہوا ہے ، بلدیہ ٹاؤن میں بیشتر متوفیان کے ورثا کا کہنا ہے کہ کہنے کو تو واقعے کو ایک برس بیت گیا لیکن ان کے ذہنوں میں اس حادثے کے نقوش آج بھی تازہ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں