وزیراعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام …شعبۂ زراعت میں انقلابی تبدیلیاں لائے گا

حکومت و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور زرعی ماہرین کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہارِ خیال


حکومت و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور زرعی ماہرین کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہارِ خیال

زراعت کسی بھی ملک کی معیشت میں انتہائی اہم کر دار ادا کر تی ہے۔ پاکستان کی معیشت میں زراعت بنیا دی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ ملکی آبادی کا 42.5 فیصد بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے وابستہ ہے جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 19.5 فیصد ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ شہروں میں نقل مکانی دوسرا بڑا خطرہ ہے جس سے شہروں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ کسان اپنا پیشہ چھوڑ کر دوسرے پیشوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔کسانوں کو اپنی فصل کا جائز منافع نہ ملنے کا مسئلہ بھی درپیش ہے جبکہ اسے جدید سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت نے کسانوں کے مسائل کا تدارک کرنے اور زرعی شعبے کی ترقی کیلئے حال ہی میں ''وزیراعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام'' کا اعلان کیا ہے جو ایک جامع منصوبہ ہے۔ اس پروگرام کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں زرعی ماہرین، حکومت اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوںنے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

صاحبزادہ محبوب سلطان
(وفاقی وزیر غذائی تحفظ )

وزیر اعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت 309ارب کے زرعی منصوبے تشکیل دیے گئے ہیں۔اس زرعی ایمرجنسی پروگرام میں صوبہ سندھ کو بھی شامل ہونے کے لیے بارہا کہا گیا لیکن وہ اس میں شامل نہ ہوئے۔ ہمارے دور حکومت میں زرعی سیکٹر کے بجٹ میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ 1993ء کے بعد اب ٹڈی دل کا سندھ اور بلوچستان میں بڑا حملہ ہوا،اس نے دونوں صوبوں کی فصلوں کو کافی متاثر کیا ہے۔ وفاقی حکومت نے صوبوں کے ساتھ مل کر ایریل سپرے کیا ہے جس سے کافی حد تک نقصان پر قابو پایا گیا ہے۔

باہر سے جو کپاس آرہی ہے اس پر ڈیوٹی لگانے کی تجویز پر کام ہو رہا ہے،بیج اور ادویات پر گزشتہ حکومت نے توجہ نہ دی۔ بیج کی کمپنیاں انڈیا سے زیادہ ہمارے ملک میں ہیں ،جو کمپنیاں صحیح کام نہیں کر رہی انہیں ختم کررہے ہیں۔ کوشش ہے اپنے کاشتکاروں کو بہتر بیج اور ادویات فراہم کرسکیں۔ ہم نے 309 ارب کا منصوبہ بنایا جس میں صوبوں کا بھی حصہ ہے۔ 13 منصوبے تھے جن کے لیے ورکنگ گروپ بنائے گئے تھے ۔ گزشتہ برس 4 ارب ڈالر کی زرعی امپورٹ کی گئی۔

زرعی ملک ہونے کے باوجو د زرعی اشیاء کی درآمدات کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ہم نے اپنی فی ایکڑ زرعی پید اوار کو بڑھا نا ہے ، وفاقی حکومت نے زراعت کا بجٹ 12 ارب کیا ہے،زرعی سیکٹر میں فنڈز بڑھائیں گے ، گزشتہ دس سال میں زراعت کیساتھ ٹھیک نہیں کیا گیا،18 ویں ترمیم کے بعد زراعت کو صوبوں کی ذمہ داری قرار دیا گیا مگر انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ زراعت پر خرچ 14 فیصد تک آگیا، اسی لیے ہم نے اس منصوبے کا نام ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام رکھا ہے ۔

ہم ایگریکلچر سیکٹر میں فنڈز بڑھائیں گے اور 4 سال میں 70 ارب پر زرعی بجٹ لے کر جائیں گے اور گندم، چاول، گنا ، آئل سیڈ کی فی کس پیداوار بڑھائیں گے۔ کاشتکار کو فائدہ دینے کیلئے مناسب اِن پٹ کاسٹ سے بہتر فائدہ دینا ہے۔ گندم کی پیداوارفی ایکڑ 40 من جبکہ چاول 10 سے 20 من پیداوار بڑھانے کا پروگرام ہے جو چھوٹے کاشتکار کیلئے ہے۔ اس کے علاوہ کھالے پکے کرنے کیلئے 220 ارب کا منصوبہ بھی موجود ہے جس سے 70 ہزار کھالے پکے کیے جائیں گے کیونکہ کھالے پکے نہ ہونے کے باعث بڑی مقدار میں پانی کا ضیا ع ہو تا ہے ، پانی کے ضیا ع کو روکنے سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہم زراعت کے فروغ کے لیے منی ڈیم سمیت واٹر سیکٹر کے دیگر منصوبے بھی قائم کریں گے اور جہاں پانی موجود ہے وہاں سولر ٹیوب ویل لگائے جائیں گے۔

اس منصوبے کے تحت خیبرپختونخوامیں 11 ہزار چھوٹے تالاب بنیں گے۔ سندھ حکومت کو بارہا بلایا گیا لیکن وہ ہمارے ساتھ شامل نہ ہوئے۔ میں سندھ کو کہنا چاہوں گا کہ آئیں ملک کی خاطر ہمارے ساتھ ملکر کام کریں۔ وفاق سندھ کوزرعی شعبے کی بہتری کیلئے 15 سے 18 ارب دینے کیلئے تیار ہے۔ ہم نے فشریز میں شرمپ فارمنگ اور کیج فارمنگ کو فروغ دینے کا منصوبہ بنایا ہے جس سے بڑے پیمانے پر لوگ مستفید ہوں گے۔ یہ ایک انتہائی آسان کاروبار ہے جس سے لوگ اپنا روزگار کما سکتے ہیں۔ اس سے بے روز گارنوجوانوں کو بھی روزگار ملے گا۔ دیہاتوں میںلوگ بچھڑے کو ذبح کر دیتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ فائدہ نہیں دیتا۔ اس لیے لائیو سٹاک میں سیو دی کالف پروگرام بنایا ہے تاکہ لوگ بچھڑا پالیں اور گوشت حاصل کریں۔

ہم گوشت کی ایکسپورٹ کیلئے پیداوار بڑھائیں گے جس سے معیشت کو فائدہ ہوگا۔ جانوروں میں منہ کھر کی بیماری ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی انٹرنیشنل ایکسپورٹ میں مسائل درپیش ہیں۔ ہم نے منہ کھر کی بیماری کے خاتمے کے لیے ایف اے او کے ساتھ بھی معاہدہ کیا ہے۔ ملک میں منہ کھر بیماری کے خاتمے کے لیے زون قائم کیے جائیں گے تاکہ اس بیماری کے مکمل تدار ک کو یقینی بنایاجا سکے۔ دیسی مرغی پروگرام کے تحت دیہاتوں میں لوگوں کو مرغیاں دی جائیں گی ، جن کا گوشت اور انڈے فروخت کرکے وہ روزگار کما سکتے ہیں۔ پاکستان میں زرعی مارکیٹوں کی تعداد بہت کم ہیں ہم یہ تعداد دوگنا کریں گے۔ چار نئی مارکیٹیں بن رہی ہیں۔ لاہور، ڈی جی خان، راولپنڈی اور فیصل آباد میں بھی نئی مارکیٹیں بنائی جائیں گی جبکہ 54 مارکیٹوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ 13 منصوبے بن چکے ہیں جو ایکنک میں منظور ی کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ہم چاہتے ہیں کہ بیج کی بہتری کیلئے دنیا کے بہترین ماہرین کو پاکستان لائیں، جس کے لیے کام جاری ہے۔

کپاس کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے آئندہ 2 سے 3 برسوں میں تبدیلی آئے گی۔ ہمارا ٹارگٹ کپاس کے معیار کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پیداوار کو دوگنا کرنا ہے تاکہ ہما ری ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنے بیرونی آرڈر پورے کرنے کے لیے کپاس ایکسپورٹ نہ کرنی پڑے۔ اس کے لیے صنعت کاروں کو بھی کاشت کاروںکا خیال رکھنا ہو گا اور انہیںکپاس کی مناسب قیمت دینا ہو گی۔ کاشتکار کو سپورٹ پرائزدلوانی چاہیے۔ ہماری حکومت نے سپورٹ پرائز کو یقینی بنایا جو بڑی کامیابی ہے۔ اس طرح کاشتکار کی جیب میں اربوں روپے آئے۔

ہم کپاس کے کاشتکار کو مناسب قیمت دلوانے کی کوشش کریں گے اور اس حوالے سے اپٹما کیساتھ بات کی جائے گی لیکن اگر انہوں نے بات نہ مانی تو ڈیوٹی لگائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کا بڑا قدم ہے کہ انہوں نے جہانگیر ترین کو زرعی سیکٹر کا انچارج بنایا۔ ہم پاکستان کے زرعی سیکٹر کی ترقی کے لیے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ دونوں اطراف میں توجہ دے رہے ہیں تاکہ آئندہ تین سے چار سالوں کے درمیان زرعی سیکٹر میں واضح بہتری لائی جاسکے۔ ہم نے کسان دوست پالیساں بنائی ہیں۔

ہم نے اپنے کاشتکا ر کو بروقت ادائیگی یقینی بنانی ہے۔ گندم کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ مگس بانی بھی انتہائی اہم ہے۔ وفاقی وزارت غذائی تحفظ و تحقیق قومی سطح پر اس کے فروغ کے لئے بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بیری کا شہد مشرق وسطی اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک کو برآمد کیا جاتاہے۔ سال 2017-18 ء میں پاکستان نے تقریباً 844.702 ملین شہد برآمد کیا۔شہد کی برآمد میں اضافے اور اس کادائرہ کار یورپی ممالک تک بڑھانے کے لئے جدید تکنیکوں کا استعمال ناگزیر ہے۔ مگس بانی کے فروغ سے عمل زیرگی کو تقویت ملے گی اور پیداوار میں 50% اضافہ ممکن ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی و دیگر تحقیقاتی اداروں کے ساتھ مل کر مگس بانی کے فروغ کے لئے نمایاں کام کریں۔

ڈاکٹر عمر فاروق
(زرعی ماہر )

زرعی شعبے کا حصہ ہماری معیشت میں کم ہو تا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباََ 18 فیصد ہے۔اس کے علاوہ جی ڈی پی میں20فیصد انڈسٹری اور 60فیصد سروسزکا حصہ ہے۔ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے اور زراعت ان کے روزگار کا اہم جزو ہے۔ اس وقت ملک کوجو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ پانی ہے۔ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ہمیں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت کے باعث کا شت کاروں کو فصلوں کی کاشت میں مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث ہر آنے والے سال میں یا تو فصلوں کی پیداوار میں کمی آرہی ہے یا پھر فصلوں کی کوالٹی متاثر ہو رہی ہے۔ اچھی فصل کے حصول کے لیے مناسب اور بروقت پانی بہت زیادہ ضروری ہے۔

موجودہ حکومت کی جانب سے زرعی سیکٹر کے لیے رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں 12ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ بڑھانے سے ہی ملک کے زرعی سیکٹر کی ترقی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ ریسرچ اور ترقیاتی منصوبے زرعی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں ۔ واٹر سیکٹر میں بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے کاشت کا ر کو خو د بھی موبلائز ہونا پڑے گا۔ پیداوار میں اضافے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی جاری ہے۔کسانوں کو موبائل فونز پر اردو میں پیغامات بھیجے جاتے ہیں تاکہ وہ فصلوں کو بیماریوں کے حملوں سے بچا سکیں اور زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں۔ پانی ذخیرہ کرنے سے زیادہ کسانوں کو یہ آگاہی فراہم کرنا اہم ہے کہ وہ پانی کا درست اور بہتر استعمال کیسے کریں۔ اچھے اور بیماریوںسے پاک بیج کے استعمال سے اور جڑی بوٹیوں کو تلف کر کے گندم کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ زرعی اجناس میں پاکستان خودکفیل ہے۔ ہمارا اگلا ہدف تیل دار اجناس میں ملک کو خودکفیل بنانا ہے تاکہ قیمتی زرمبادلہ کو بچایا جاسکے۔

کینولہ کے تیل کے حوالے سے صورتحال بہتر ہے۔ سورج مکھی،مکئی،زیتون کی کاشت پر کام ہورہا ہے۔ ہمارے کسانوں کو بھی اب روایتی فصلوں کو ترک کر کے پھل دار اور تیل دار اجناس کی طرف جانا چاہیے ۔ کاشت کاروںکو پانی کو محفوظ کرنے کے لیے لیز ر لینڈ لیولنگ اور ڈرپ ایری گیشن جیسے جدید طریقوں کی طرف جا نے کی ضرورت ہے تاہم دیکھنا یہ ہو گا کہ پانی کس قیمت پر بچایا جا رہا ہے۔ کسان اس وقت سولر سسٹم کو استعمال کر رہے ہیں جو اچھی بات ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ایسا نہ ہو کہ اوور پمپنگ کے ذریعے علا قے کا سارا پانی ایک ہی زمین کے لیے کھینچ لیا جائے۔ ریسرچ کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ہم اس وقت ملک کی زرعی ریسرچ پر جی ڈی پی کا پوائنٹ ایک فیصد خرچ کر رہے ہیں جبکہ دنیا بھر میں جی ڈی پی کا کم سے کم تین فیصد زرعی ریسرچ و ڈویلپمنٹ پر خرچ کیا جاتا ہے۔ بھارت زرعی ریسرچ و ترقی پر پوائنٹ 37فیصد خر چ کر رہا ہے۔

ہمارے ملک میں زرعی ریسرچ پر جی ڈی پی کا پوائنٹ ایک فیصد خرچ کرنا بہت کم ہے، کم از کم ایک فیصد ریسرچ و ڈویلپمنٹ کے لیے خرچ کیا جائے۔ ایک طرف ہمارے پاس گندم ، گنا وافر مقدار میں ہے تو دوسری طرف دالوں کی پیداوار کم ہونے کے باعث پاکستان کو دالیں درآمد کرنا پڑ تی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کا امپورٹ بل بھی بڑھتا ہے، اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

ہاؤسنگ سوسائٹیز ملک بھر میں بڑھتی جا رہی ہیں، ان پر قابو پانا ڈسٹرکٹ اتھارٹیز کا کام ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ کتنی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی ضرورت ہے اورکس طرح سے گھروں کی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے زرعی زمین کو بچایا جا سکتا ہے۔ فوڈ سکیورٹی ہما را بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ آئندہ چار برسوں میں گندم ، چاول ، گنا ، کپاس کی پیداوار میں 25 فیصد تک اضافہ کیا جائے تو ہما ری ضرورت پو ری ہو سکے گی۔اس کے علا وہ دالوں اور دیگر فصلوں کے لیے بھی جگہ مل جا ئے گی۔ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے اور ان کی مارکیٹنگ کا نظام بھی بہتر بنایا جائے تاکہ کاشت کاروںکو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ صرف کٹے پالنے سے کام نہیں چل سکتا ، مارکیٹنگ سٹرٹیجی بھی ہونی چاہیے تاکہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہو سکے۔

عامر وحید شیخ
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

ملک کی 80 فیصد غریب آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ دیہی علاقوں کے لوگوں کو علاج معالجے سمیت دیگر جدید سہولیات کے حصول کے لئے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے جس سے شہری علاقوں پر آبادی کا دباؤ بڑھتا ہے اور کاشت کا ری سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد شہروں کارخ کرتی ہے۔ہمیں ملک کی زراعت کی ترقی کے لیے کاشت کا ر کی زند گی کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے کاشت کاروں کو براہ راست مراعات دینی چاہئیں۔ ہمیں فصلوں میں توازن قائم کرنے کے لیے کاشت کاروں کو رضامند کرنا چاہیے۔

ملک میں گندم تو سرپلس ہے مگر دالوں کے لیے بیرونی ممالک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ بیرون ممالک سے دالیں درآمد کرنے سے امپورٹ بل بڑھ جا تا ہے ، حکومت کو چاہیے کہ وہ بیج کی ڈویلپمنٹ پر کام کر ے۔ ہما رے ملک میں اچھی پیداوار کے حصول کے لیے سیڈ ڈویلپمنٹ پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمیں کارپوریٹ فارمنگ کی طرف جانے کی ضرورت ہے۔

ڈرپ ایری گیشن ، سپرنکلر کے استعمال سے پانی کے استعمال میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔ گوکہ ہمارے ملک میں فصلوں کا بارانی ایریا بھی ہے تاہم ایک بڑا علا قہ ایسا ہے جہاں پانی کی قلت کا سامنا رہتا ہے جس کے باعث کاشت کاروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فصلیں بیلنس نہ ہونے کے باعث ملک میں غذائی قلت کا خدشہ ہے۔ گزشتہ سال بھی آلو سڑکوں پر پھینکا گیا لہٰذا اس کی ویلیو ایڈیشن پر جانا چاہیے۔ ایک چیز سرپلس ہو گئی تو اس کو سٹور کرنے کی طرف جا نا چاہیے نہ کہ اسے سڑکوں پر پھینکاجائے۔ حکومت کو چاہیے کہ کاشت کاروں کو اشیاء سٹور کرنے کے طریقے بتائے۔ آلو کا پاؤڈر بن سکتا ہے ،جو بین الاقوامی طور پر بھی بڑی بڑی فوڈ چینزکو ایکسپورٹ کیا جا سکتا ہے۔ آلو کا پاؤڈ ر چپس بنانے کے کام آتا ہے اسی طرح سبزیوں کو ڈی ہائیڈریشن کر کے سٹور کیا جاسکتا ہے۔

ڈی ہائیڈریشن کا طریقہ کا ر دنیا بھر کے بڑے بڑے ممالک میں پایا جا تا ہے لیکن پاکستان میں اس کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ڈی ہائیڈریشن کر لی جائے تو بہت سی ایسی سبزیاں اور پھل محفوظ کیے جا سکتے ہیں جو ضائع ہو جا تے ہیں۔ چھوٹی مشینوں کے ذریعے زرعی اجنا س کو محفوظ بنا یا جا سکتا ہے اور پھلوں وسبزیوں کو سیزن کے علا وہ بھی زیر استعمال لایا جا سکتا ہے لیکن اس کام کا کسانوں کو خو د معلوم نہیں ہو گا۔ اس کے لیے حکومت کی کاوش کی ضرورت ہے کہ کسانوں کو ویلیو ایڈیشن کے بارے میں تربیت دے۔

ویلیو ایڈیشن کے بغیر کسی بھی چیز کی بہتر قیمت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اگر کسان ویلیو ایڈیشن کرکے اپنی اشیا ء فروخت کرے گا تو وہ اس کی بہتر قیمت حاصل کر پائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیز پر قابو پائے اور ہائی رائز کی طرف جائے۔ ملک کے مختلف حصوں میں زرعی زمین کو ختم کر کے ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں۔ کسا ن بھی اپنی زمین صرف اس لیے فروخت کر دیتا ہے کہ اسے اس کام میں منا فع نظر آرہا ہو تا ہے جبکہ فصلوں کی پیداوار میں کسان کو یہ بات یقینی نہیں ہو تی ہے کہ اگر کوئی قد ر تی آفت آجا ئے تو کیا اس نے جو فصل لگائی ہے، اسے حکومت کی جانب سے اس کا معاوضہ ملے گا۔ اس لیے کسان یہ سمجھتے ہیں کہ قابل کاشت زمین کو فروخت کر کے کسی اور کاروبار کی طرف جا یا جائے جس میں انہیں زیادہ پیسے مل جائیں۔ اس کے علا وہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو آرگینک کھادوں کی طرف لے کر جا ئے۔ اگر آرگینک کھادوں کی طرف جائیں گے ، تو اس سے بہتر پیداوار حاصل کی جا سکے گی اور فصل بھی مہنگی فروخت ہوگی۔

لائیو سٹاک میں پاکستان دنیا کے بڑے ممالک میں شما رہو تا ہے۔ ہم دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں سرفہر ست ہیں لیکن ہم دودھ کی ویلیو ایڈیشن کی طرف نہیں جا رہے۔ بیلا روس کے ایک وفد نے مجھے بتایا کہ ہم دودھ میں ویلیو ایڈیشن کر کے1200 مصنوعات تیار کر تے ہیں جبکہ پاکستان میں دودھ کی ویلیو ایڈیشن کر کے 12 پراڈکٹس بھی حاصل نہیں کی جا رہی ہو ں گی لہٰذا اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فصلوں کے لیے علاقے مختص کر دے کہ کس ایریا میں کونسی فصل اگائی جا سکے گی ، اس کے علا وہ اس ایریا میں کوئی فیصل نہ لگائی جا ئے تاکہ فصلوں کی پیداوار میں توازن قائم کیا جائے اور کوئی ایک فصل سرپلس نہ ہو۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ کس چیز کی کتنی مانگ ہے، اس کے مطابق وہ فصل اگائی جائے تاکہ اسے ایکسپورٹ کر کے زر مبادلہ حاصل کیا جا سکے۔ زرعی زمین کے استعمال کے حوالے سے واضح پالیسی تیار کی جائے تاکہ زرعی زمین کو محفوظ کیا جا سکے۔

خورشید برلاس
( چیئرمین ریجنل کوآرڈینیشن کمیٹی راولپنڈی چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری )

جب تک زراعت کو کسان کی خوشحالی سے لنک نہ کیا جائے ملک میں زرعی ترقی ممکن نہیں ہے۔ زراعت میں کم منافع ہونے کی وجہ سے کاشتکار ہاؤسنگ سکیموں کے لیے اپنی اراضی دینے پر مجبور ہیں۔ حکومت کو ایسی ایگری کلچر پالیسی متعارف کرانی چاہیے جس میں کاشت کا ر کا منافع بڑھا یا جا سکے۔ زراعت میں بھی ہمیں جوائنٹ وینچر کرنے کی ضرورت ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت بھی زرعی ترقی کے منصوبے کیے جانے چاہئیں۔ ویلیو ایڈیشن کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔

دیگر ممالک آلو سے پاؤڈ ر بناکر ویلیو ایڈیشن کر تے ہیں اور وہ پاؤڈر بڑی بڑی فاسٹ فوڈ دچینز چپس بنانے و دیگر کاموں میں استعمال کرتی ہیں۔ ہمیں بھی اپنے ملک میں ویلیو ایڈیشن کے لیے کاشت کاروں کو تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ زراعت کو ہم نے ایکسپورٹ پر مبنی شعبے میں منتقل کرنا ہے تاکہ ملک میں زرعی شعبے سے وابستہ کاشتکاروں کی آمدنی بڑھنے کے ساتھ ساتھ برآمدات میں بھی اضافہ ہو سکے۔پانی کی قلت پر قابو پانا حکومت کا کام ہے کیونکہ اگر کاشتکا ر کو پانی کی دستیا بی نہیں ہو گی تو وہ بہتر فصل حاصل نہیں کر پائے گا ۔

کسان کو ویلیو ایڈیشن کی طرف جا نے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ڈیری فارمنگ اور لائیو سٹاک سیکٹر کی ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے بہترین جانور پالے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کی لائیو سٹاک مارکیٹ میں تھوڑی سی بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کے مویشی پال کسانوں کی غربت کے خاتمہ کا اہتما م کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے لیکن ویلیو ایڈیشن نہ ہونے کی وجہ سے اس بھر پور پیداوار کو منافع بخش سرمایہ کاری میں منتقل کرنے اور اس کے معاشی ثمرات لائیو سٹاک فارمرز تک پہنچانے میں مکمل کامیابی نہیں ہو سکی۔ حکومت کوویلیو ایڈیشن کے ساتھ ساتھ جانوروں کی صحت اور خوراک کے مسائل کے حل کیلئے نئی جدتیں اپنانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔