کیپٹل جسٹس اور مہنگائی کا بوجھ
جدید ریاستیں تو اپنے عوام کو نہ صرف ’’کپیٹل جسٹس‘‘ فراہم کرتی ہیں بلکہ تمام بنیادی سہولیات عوام کو پہنچاتی ہیں۔
جس وقت نئی حکومت بنی تو ہمارا خیال تھا کہ اب ملک کو جدید تقاضوں اور جدید دنیا سے ہم آہنگ بنایا جائے گا اور جس طرح جدید ممالک میں ''کیپٹل جسٹس'' ہوتا ہے، ویسے ہی ہمارے عوام کے لیے بھی ''کیپٹل جسٹس'' ہوگا۔ ایسا ساری دنیا میں ہوتا ہے ورنہ تو سرمایہ دارانہ نظام عوام کو پیس کر ،اس کا بھرکس نکال دے۔
ہمیں سخت حیرت ہے کہ حکومتی پالیسیوں میں ''کیپٹل جسٹس'' نام کی کوئی شے نہیں، جس کے باعث حکومتی پالیسیاں عوام کے لیے سخت اذیت کا باعث بن رہی ہیں یعنی ایک جانب تو ان پالیسیوں سے مہنگائی میں شدید اضافہ ہو رہا ہے، دوسرا عوام کو انصاف بھی نہیں مل رہا۔
ہمارے ایک پروفیسر دوست کا کہنا ہے کہ ان کا بجلی کا بل پندرہ ہزارکا آتا تھا مگر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اس ماہ تیس ہزار سے زائد کا آیا اور بل کے ساتھ یہ خبر بھی پڑھنے کو ملی کہ فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا گیا ہے، (یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اس قدر تیزی سے قیمتوں میں اضافہ کیوں کیا جا رہا ہے اور حکومت اس کی اجازت کیوں دے رہی ہے جب کہ اس ادارے کی فروخت کے وقت معاہدے میں قیمت بڑھانے سے متعلق کھلی چھٹی نہ تھی؟) اس کے بعد ہمارے دوست نے بتایا کہ کسی وجہ سے بل کی آخری تاریخ نکل گئی اور بل جمع نہ ہوسکا، چنانچہ ہمارے دوست نے سوچا کہ چلو تین دن بعد یکم کو تنخواہ ملے گی، تو لیٹ سرچارج کے ساتھ جمع کرا دیں گے، مگر اگلے ہی روز جب وہ اور ان کے اہل خانہ کہیں گئے ہوئے تھے، بجلی والے ان کے گھرکی بجلی کاٹ گئے۔
جب بجلی کے محکمے کے سروسز سینٹرگئے تو معلوم ہوا کہ چونکہ آج ہفتہ ہے، لہذا سروس سینٹر تو دوپہر بارہ بجے بند ہوگیا اب پیر کو صبح کھلے گا ، وہاں موجود سکیورٹی گارڈ نے کہا کہ آپ نے بل جمع نہیں کرایا، اس لیے آپ کی بجلی کاٹ دی گئی ہے، اب آپ بل جمع کرا کے پیر کو اس کی فوٹو کاپی جمع کرائیں پھر آپ کی بجلی بحال ہوگی۔ ہمارے یہ دوست شکوہ کرتے ہیں کہ جب لیٹ سرچارج لگ گئے تو پھر چوبیس گھنٹے ہی میں بجلی کیوں کاٹ دی گئی؟ آخر لیٹ سرچارج اس بات ہی کا تو ہوتا ہے کہ آپ بل تاریخ گزرنے کے بعد ادا کر رہے ہیں۔ نیز جب بجلی فوری کاٹ دی تو پھر بل جمع کرانے پر فوری طور پر بجلی بحال بھی کردینی چاہیے اس کے لیے دفتر بند کیوں؟ دو دن تک گھرکی بجلی بند کیوں رہے؟ یہ کیسا اصول ہے؟ اب انصاف کے لیے کہاں جائیں؟
یہ ایک واقعہ ہی نہیں،کیپٹل جسٹس یہاں ناپید ہے۔ ہمارے ایک ساتھی نے ٹیکس ریٹرن جمع کرایا تو ایف بی آرکی جانب سے جو بیلنس سامنے آیا، اس کے مطابق ان کا ٹیکس زیادہ کٹ گیا تھا، لہذا چالیس ہزار سے زائد ایف بی آر کی جانب ان کی رقم نکلتی تھی۔ یہ ساتھی بہت خوش ہوئے اور اپنے وکیل سے کہنے لگے کہ اس رقم کی واپسی کے لیے کلیم پروسس کردیں، وکیل نے کہا کہ کیوں مسائل اپنے سر لیتے ہو، اگر آپ سے مزید ثبوت اور تفصیلات مانگ لی گئیں تو مسئلہ نہ ہو جائے۔ یوں ہمارے یہ ساتھی اپنی جائز رقم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
بات یہ ہے کہ عوام کے حقوق کے تحفظ اور انصاف کے لیے یہاں کوئی باقاعدہ پلیٹ فارم نہیں ہے، جس کے باعث سارا بوجھ عوام پر آپڑتا ہے۔ مثلاً حکومت کی جانب سے جب بھی سیلز ٹیکس عائدکیا گیا یا اس میں اضافہ کیا گیا تو اشیاء تیارکرنے والی کمپنیوں نے یہ اضافہ اپنی پروڈکٹ کی قیمت میں کھلے عام لکھ کر خریدار یعنی عوام سے وصول کرلیا۔ اب حکومت کی پالیسیوں میں بجلی،گیس کی قیمتوں میں کیا جانے والا اضافہ بھی بالکل سیلزٹیکس کی طرح عوام سے وصول کیا جا رہا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ ریلوے کے وزیر نے بھی جب کرایوں میں اضافے کا اعلان کیا تو یہ کہا کہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس لیے وہ بھی کرایوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یوں غورکیا جائے تو اب حکومت کی جانب سے تاجروں پر ٹیکس عائد ہو یا کسی اور پر ، ان سب کی وصولی عوام سے ہی ہوگی۔
اب غورکریں نئی پالیسی کے مطابق ماہانہ پینتس ہزار روپے کمانے والا بھی ٹیکس ادا کرے گا، پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں پر فی نشست عائد ہونے والا ٹیکس، مالک مکان پر عائد ہونے والا ٹیکس، پٹرول، ڈیزل وغیرہ پر عائد ہونے والا ٹیکس اور اس کے نتیجے میں مہنگی ہونے والی اشیاء کی قیمتوں کا بھی بوجھ عوام ہی اٹھائیں گے جب کہ وہ پہلے ہی سیلز ٹیکس ادا کر رہی ہے، یہ کیسا نظام ہے کہ تاجروں اور کاروباری اداروں پر عائد ہونے والے ٹیکسز بھی عوام ادا کریں۔
حد تو یہ ہے کہ کراچی شہر میں ڈاؤ میڈیکل اسپتال نے بھی اپنے تمام لیب ٹیسٹ کی شرح میں اضافہ کردیا ہے، گویا میڈیکل کے معاملات میں بھی عوام کو اضافی بوجھ کا سامنا، یہ کیسا ''کپیٹل جسٹس'' ہے؟ یہ کیسی مدینے کی ریاست ہے؟ ایک غریب جو خستہ حال سی ایک موٹر سائیکل رکھتا ہے، جب بھی کہیں جاتا ہے، اس سے بیس روپے پارکنگ فیس لی جاتی ہے وہ بھی فٹ پاتھ اور سڑک پر قائم پارکنگ کے نام پر،کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جناب فٹ پاتھ تو پیدل چلنے والے عوام کا حق ہوتا ہے مگر اس پرکارپارکنگ قائم کرکے الٹا ان کی جیب سے رقم نکالی جا رہی ہے۔کیا کسی جدید ریاست میں کسی فٹ پاتھ پرکار پارکنگ کسی نے دیکھی ہے؟
جدید ریاستیں تو اپنے عوام کو نہ صرف ''کپیٹل جسٹس'' فراہم کرتی ہیں بلکہ تمام بنیادی سہولیات عوام کو پہنچاتی ہیں خاص کر صحت ، تعلیم اور رہائش کی سہولیات۔ یہاں عوام کوکوئی سہولت نہیں جو جس کو جتنا چاہے لوٹ لے، کھلی چھٹی ہے، اسٹیٹ ایجنٹ کرائے پر مکان دلوانے پرکرائے دار سے ایک مہینے کا کرایہ وصول کرتا ہے جو عموماً بیس سے تیس ہزار ہوتا ہے۔ کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں، اسی طرح ایک دل کے مریض کے آپریشن پر آٹھ سے دس لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں جب کہ اس پر خرچہ دولاکھ بھی نہیں آتا۔کل ہی کی خبر ہے کہ ایک بچہ کھلے مین ہول میں گر کر ہلاک ہو گیا، اس کا ذمے دار کون؟ اس کے والدین کو کون انصاف دلائے گا؟ ادارے کی نااہلی پرمیئر کراچی نے بھی جواز پیش کردیا مگر یہ جواز کیا انصاف ہے؟
سوال یہ ہے کہ عوام کے ساتھ یہ نا انصافی کب تک ہوتی رہے گی؟ کیا حکمرانوں کا کام صرف اور صرف عوام ہی پر بوجھ ڈال کر ٹیکس اکٹھے کرنا ہے یا عوام کو اس ظالمانہ نظام سے بچانا اور انھیں ''کیپٹل جسٹس'' فراہم کرنا بھی ہے۔آخر حکمران کب تک عوام کے صبرکا امتحان لیں گے؟