ناراض حسینہ اور بادلوں کی ملکہ

رواں سال ضلع حویلی کے سیاحتی مقامات لسڈنہ اور حاجی پیر کا سہولیات نہ ہونے کے باوجود لاکھ سے زیادہ سیاحوں نے دورہ کیا


لسڈنہ اور حاجی پیر قدرت کے حسین شاہکار ہیں۔ (تصاویر: بلاگر)

حسن، عشق اور وفا، جہاں لوک کہانیوں کا مرکزی خیال ہوتا ہے، وہیں شاعروں کے خیالات کا لٹو بھی انہی کے گرد گھومتا ہے۔ دریائے چناب کا علاقہ عشقیہ کہانیوں کا گڑھ ہے۔ یہاں انسانوں کی جگہ جنوں، پریوں اور دیومالائی داستانوں کا زیادہ رجحان ہوتا ہے۔ اس کی وجہ شاید آبادی کے بجائے بیابانوں کی کثرت ہے۔

آزاد کشمیر کا ضلع حویلی کہوٹہ جنگلات، بلندوبالا پہاڑوں، ندی نالوں اور میٹھے پانی کے جھرنوں کی خوبصورت وادی جام ہے۔ کیوں کہ یہ وادی پیالہ نما خوبصورت ہے۔ یہاں بھی بچوں کو دیومالائی داستانوں یا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبرو استبداد کے قصے سنا کر بڑا کیا جاتا ہے۔ آزادی سے قبل کے چند حیات بزرگ ڈوگرہ راج کے قصے بھی سناتے ہیں۔

وادی کے عوام کا صوفیائے کرام سے عشق ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر بلند وبالا پہاڑوں کو کسی بزرگ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ وادی میں داخلے کےلیے چند راستے ہیں، جن میں باغ کی جانب سے لسڈنہ، عباس پور کی طرف سے چڑی کوٹ اور محمود گلی کا راستہ، مقبوضہ کشمیر میں داخلے کےلیے دیگوار اور پیر پنجال کے راستے ہیں۔ یہ تمام علاقے سیر و سیاحت کے حوالے سے بھرپور جاذبیت کے حامل ہیں۔



باغ شہر سے داخلے کےلیے لسڈنہ کا خوبصورت پہاڑ ہے، دیوقامت درختوں پر محیط جنگلات سے بھرپور لسڈنہ قدرت کا حسین شاہکار ہے۔ باغ شہر سے 28 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ علاقہ دو اضلاع باغ اور حویلی کہوٹہ پر مشتمل ہے۔ جس کے ایک جانب تولی پیر کا خوبصورت سیاحتی مقام جبکہ دوسری جانب گنگاچوٹی دعوت نظارہ دے رہی ہوتی ہے۔ یہاں کا موسم بہت بے اعتبار ہے۔ سردیوں میں مہینوں برف سے ڈھکا رہتا ہے جبکہ گرمیوں میں اکثر اوقات یہاں بادل روزانہ ہی جم کر برستے ہیں۔ ہوا میں خنکی، فضا میں پاکیزگی اور روح کی تازگی کےلیے زندگی میں ایک بار ضرور اس سیاحتی مقام کا دورہ کریں۔ اس کےلیے باغ شہر کو اپنا بیس کیمپ بنایا جاسکتا ہے۔



لسڈنہ کے بعد اگلا سیاحتی مقام محمود گلی ہے، جس کا سارا راستہ گھنے جنگلات، عمودی چٹانوں اور ڈھلوان مگر کشادہ سڑک پر مشتمل ہے۔ سارا راستہ قدرتی مناظر سے بھرپور ہے، جو آنکھ کو خیرہ کردیتا ہے جبکہ قلبی اطمینان کا باعث بھی بنتا ہے۔ محکمہ جنگلات کے مطابق اس جنگل میں معدومی کا شکار ڈیڑھ درجن سے زیادہ پرندوں کی نسلیں پائی جاتی ہیں۔ جن کی بقا کےلیے جنگل کو نیشنل پارک کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ اس جنگل میں شکار پر پابندی کے باوجود غیرقانونی شکار کیا جاتا ہے۔ جس کی روک تھام کےلیے محمود گلی کے مقام پر پولیس چوکی بھی موجود ہے، لیکن وسائل کی کمی اور شکاریوں کے سیاسی اثرورسوخ کے باعث وہ اسے روک نہیں سکتے۔



محمود گلی سے ضلعی ہیڈکوارٹر فاروڈ کہوٹہ کا سفر 23 کلومیٹر ہے۔ یہ سفر بھی کشادہ سڑک پر مشتمل ہے، جو گگڈار، پلنگی اور پلاں سے ہوکر گزرتا ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف خوبصورت پہاڑ اور ان پر بنے ہوئے کشادہ اور سادہ گھر کسی انگوٹھی میں جڑے نگینوں کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔

لسڈنہ سے دوسرا راستہ حاجی پیر کی جانب جاتا ہے۔ یہ راستہ نسبتاً تنگ مگر پختہ سڑک پر مشتمل ہے۔ اس راستے پر کھلے سبزے سے بھرپور میدان ہیں۔ یہاں مختلف چراگاہیں بھی ہیں، جہاں گائے، بھینس، بکری اور بھیڑوں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ اسی راستے پر کہیں دور وادی میں یا پہاڑ کی چوٹی پر کوئی چرواہا اپنی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ نظر آئے گا۔ جو ترقی یافتہ اور تیز ترین دنیا میں بھی اخلاص کا نمونہ ہوتا ہے۔ جن کی بانسری کی مدھر آواز وادی کی خاموشی توڑتی ہے اور سیاحوں پر ایک سحر طاری کردیتی ہے۔ اسی راستے کا پہلا پڑاؤ شیرو ڈھارا ہے۔ جو کسی ناراض حسینہ کی طرح ساری وادی کو اپنے حصار میں جکڑے ہوئے ہے۔ تاحد نگاہ سبزہ ہی سبزہ، چیڑھ، دیودار اور صنوبر کے جنگلات اور ان میں اگے خودرو پودوں کے پھولوں کی خوشبو، جن کے سامنے پیرس کی عطر بھی مانند پڑجائے۔ سبزے کے قالین پر قدم رکھتے ہی راحت کا وہ احساس ہوتا ہے کہ ساری عمر اسی قالین پر بتانے کا جی کرتا ہے۔



شیرو ڈھارا سے حاجی پیر تک کا سفر سیاحوں کےلیے قدرتی نظاروں سے بھرپور ہے۔ حاجی پیر سے 10 کلومیٹر جبکہ ضلعی ہیڈکوارٹر سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر علی آباد کا تاریخی اور تفریحی مقام موجود ہے۔ جس کے چاروں جانب قیمتی درختوں پر مشتمل گھنا جنگل ہے۔ اس جنگل میں دیودار، کائل، اخروٹ اور صنوبر کے دیوقامت درخت پائے جاتے ہیں۔ جبکہ جنگلی جانوروں اور پرندوں کی بھی کثیر انواع اس جنگل میں موجود ہیں۔



پونچھ سری نگر شاہراہ بھی علی آباد اور حاجی پیر سے گزرتی ہے۔ یہ سڑک راجہ پونچھ نے 1920 کی دہائی میں تعمیر کرائی تھی۔ مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے اپنا بچپن اور جوانی کا لمبا عرصہ ضلع حویلی کہوٹہ میں گزارا۔ وہ علی آباد کے بارے میں لکھتے ہیں:

''اس جنگل کے دل میں ایک سپاٹ سطح مرتفع پر ایک عمدہ ڈاک بنگلہ تعمیر کیا گیا ہے۔ حاجی پیر سے آتے ہوئے یا پونچھ سے آتے ہوئے دونوں طرف سے آتے ہوئے نیم دائرے کی طرح موڑ کاٹ کر اس ڈاک بنگلے تک پہنچنا پڑتا ہے اور اسی طرح یکلخت یہ ڈاک بنگلہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ گھنیرے درختوں میں ایک انسانی خواب کی طرح چھپا ہوا۔ اس علاقے کے ڈاک بنگلے دو بیڈ روم کے ہوتے ہیں، لیکن یہ ڈاک بنگلہ بہت بڑا ہے۔ اس میں آدھا درجن سے زیادہ بیڈ روم ہیں۔''

مقامی روایات کے مطابق علی آباد کے گھنے جنگلات میں شکار کی غرض سے انگریز آفیسرز آئے تھے، جنہوں نے یہاں ایک ہفتہ قیام کیا اور ڈاک بنگلہ تعمیر ہوا۔ لیکن اس حوالے سے کوئی مستند روایت موجود نہیں۔ مؤرخین کے مطابق اکبر بادشاہ نے سری نگر پر یلغار کےلیے علی آباد میں اپنا بیس کیمپ لگایا تھا اور علی آباد کا نام بھی اس کے وزیر علی مروان کے نام پر ہے۔ علی آباد میں قیام کرنے والی اکبری سپاہ کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ انہوں نے کھانے میں 360 کلو یعنی 9 من ہینگ استعمال کی تھی۔ اکبری سپاہ کی موجودگی کی داستان علی آباد میں موجود ایک چٹان پر موجود ہے۔ لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس چٹان کی لکھائی بھی معدوم ہوگئی ہے۔ اکبر بادشاہ نے اس مقام پر ایک سرائے بھی تعمیر کرائی، جس کے آثار 1972 تک موجود تھے۔ لیکن بعدازاں آرمی کیمپ بننے کے باعث عام افراد کا داخلہ سرائے میں ممنوع قرار دے دیا ہے۔ راجہ پونچھ نے اپنی رانی کے اعزاز میں یہاں رانی باغ بھی تعمیر کرایا، جو کہ اپنی خوبصورتی اور سادگی کے اعتباز سے بہت لاجواب ہے۔



رواں سال سیاحوں کےلیے ضلع حویلی کے یہ سیاحتی مقامات خاص کشش کا باعث بنے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق سہولیات نہ ہونے کے باوجود ایک لاکھ سے زیادہ سیاحوں نے ان علاقوں کا دورہ کیا۔ یہ علاقے درحقیقت قدرت کے حسین شاہکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک جانب جہاں لسڈنہ، حاجی پیر کے پہاڑ بہار کے رنگ بکھیر رہے ہیں، تو دوسری جانب شیروڈھارہ کی ناراض حسینہ ہے، جس کے بغل میں ہر وقت بادلوں میں گھری حاجی پیر کی پہاڑی کسی ملکہ کے روپ میں نظر آتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔