انیل یقینا تم اچھے مقام پر ہوگے

انیل دتہ کا شمارکراچی کے سینئر صحافیوں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انگریزی اخبارات میں گزارا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan July 10, 2019
[email protected]

اتوار30جون کی شام کراچی کے کیتھولک Trinty چرچ میں غیر معمولی گہماگہمی ہے، آج انیل دتہ کی میموریل سروس ہے۔ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس چرچ کے ہال میں نشستیں سنبھالی ہوئی ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت چرچ میں 95 فیصد افراد مسلمان صحافی ہیں، ان میں کچھ خواتین بھی ہیں جو اپنے ساتھی انیل دتہ کو رخصت کرنے آئے ہیں۔

انیل دتہ جمعہ کی شام دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ ان کی میموریل سروس میں کراچی پریس کلب اورکراچی یونین آف جرنلسٹس کے تینوں گروپوں کے عہدیداروں کے علاوہ خاصی تعداد میں صحافی بھی موجود تھے،ان میں کچھ صحافی تو ایسے بھی نظر آئے جوکبھی کسی اور صحافی کے جنازے میںشریک نہیں ہوئے۔ ان صحافیوں میں مذہب پرست بھی تھے، لبرل اور پروگریسو خیالات رکھنے والے سب شامل تھے۔

ان سب کو انیل دتہ کی موت کا صدمہ ہے۔ انیل دتہ کا شمارکراچی کے سینئر صحافیوں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انگریزی اخبارات میں گزارا۔ انیل نے اخبارات کے مختلف شعبوں میں فرائض انجام دیے۔ وہ سب ایڈیٹر، اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے اور برسوں رپورٹنگ بھی کرتے رہے، انیل کا تعلق لاہور سے تھا۔ ان کے والد لاہورکے ایف سی کالج میں فزکس کے پروفیسر تھے۔ انیل دتہ نے کچھ دوستوں کوبہت عرصے پہلے بتایا تھا کہ ان کے والد کا مذہب پہلے ہندومت تھا اور یہ وہ وقت تھا جب ہندو اور مسلمانوں کے درمیان شدید کشیدگی تھی مگر ان کے والدین کو اپنی شادی کے لیے عیسائی مذہب اختیارکرنا پڑا۔ ایک مشہور ادیبہ جن کے شوہر بھی معروف ادیب تھے ان کی سگی خالہ تھیں۔ انیل دتہ نے ایف سی کالج سے گریجویشن کیا۔

انھوں نے کچھ عرصہ لاہور میں ملازمت کی پھر کراچی کے انگریزی کے جرائد اور اخبارات میں فرائض انجام دیے۔ ان کا شمار ملک کے بہترین انگریزی لکھنے والے صحافیوں میں ہوتا تھا۔ انیل نے شعوری طور پر صحافت کا پیشہ اختیارکیا۔ وہ خبرکی حرمت کے امین تھے۔ خبرکو آسان انگریزی میں تحریرکرنا اور خبرکی روح کے مطابق اس کی سرخی لگانے کو وہ عبادت کا درجہ دیتے تھے۔ خبر میں ملاوٹ یا کسی دباؤکی بناء پر خبر میں کوئی حصہ شامل کرنے یا کوئی حصہ حذف کرنا ان کی ڈکشنری میں شامل نہ تھا۔

انیل نے کچھ برسوں سے رپورٹنگ شروع کردی تھی۔انھیں شہر کے مختلف حصوں میں ہونے والے سیمینار، ورکشاپ، ادبی اور تعلیمی تقریبات میں کوریج کا فریضہ انجام دینا پڑتا تھا۔ انیل دتہ رپورٹنگ کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہر تقریب میں خود جاتے اور تقریب کی تمام کارروائی کے نوٹس لیتے اور پھر انھیں خوبصورت اور آسان انگریزی میں خبرکی شکل دیتے تھے۔ انیل کے پاس نہ اسکوٹر تھا اور نہ کار۔ وہ رکشہ یا ٹیکسی میں سفرکرتے، کراچی پریس کلب سے دفتر پیدل آتے اور جاتے مگر اسائنمنٹ خود کورکرتے۔

انھیں مختلف نوعیت کے سیمینار ، جلسے اور تقریبات کو کور کرنا پڑتا اور ہر تقریب کے موضوع کی مناسبت سے مقررین مختلف اصطلاحات استعمال کرتے اور مختلف شخصیتیں ان سیمینار میں اظہار خیال کرتیں۔ انیل جب ان تقریبات کی خبر تیارکرتے تو متعلقہ شخص کے نام کے صحیح اسپیلنگ کے لیے مختلف لوگوں کو ٹیلیفون کرتے اور اصطلاحات اور ان کا مفہوم درست انداز میں تحریر کرتے۔ وہ کہتے تھے کہ ایک صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ درست نام اور درست اصطلاحات تحریرکرے۔

اگر کسی بناء پرکوئی ابہام پیدا ہو جائے تو جب تک ابہام دور نہ ہو رپورٹ کو حتمی شکل نہیں دی جاسکتی۔ انیل دتہ بنیادی طور پر کارل مارکس کے نظریہ سے متاثر تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ طبقاتی سماج کے خاتمے سے ہی دنیا میں استحصال کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صحافیوں کی تنظیم سازی کی اہمیت کو خصوصی اہمیت دیتے تھے۔ انیل دتہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے فعال رکن رہے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ یہ تنظیمیں متحد ہوکر صحافیوں کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کریں۔

انیل نے یورپ کی تاریخ کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا تھا۔وہ برطانیہ میں بادشاہ اور چرچ کی آمریت او رروشن خیالی کی جنگ کا ذکر زوروشور سے کرتے، انھوں نے برطانوی استعماریت کے اثرات کے بارے میں بہت کچھ پڑھا تھا۔ پھر انیل کو 20ویں صدی میں امریکی سامراج کی لاطینی امریکا ، ویتنام اور مشرق وسطیٰ وغیرہ میں ان کی استحصالی پالیسیوں سے نفرت تھی۔ جب کراچی پریس کلب کے ڈائننگ ہال میں کبھی لنچ پر بحث و مباحثہ ہوتا تو برطانوی استعماریت کا اس بنیاد پر دفاع کرتے کہ برطانوی استعمار نے تہذیب کو جلادی جب کہ امریکی سامراج نے تہذیب، شائستگی اور انصاف سب کچھ کچل دیا ہے۔ انیل کو پاکستان کے مظلوم عوام کی جدوجہد سے گہری دلچسپی تھی۔ وہ مظلوم طبقات کی جدوجہد سے وابستگی کو قابل فخر جانتے تھے۔

انیل دتہ کے دو بھائی اور بھی ہیں جو امریکا میں مقیم ہیں۔ انیل نے زندگی بھر شادی نہیں کی تھی، یوں وہ کراچی پریس کلب کے مستقل باسی تھے۔ وہ علی الصبح کراچی پریس کلب آتے، وہاں ناشتہ اور دوپہرکا کھانا کھاتے اور پھر رات کا کھانا کھاتے۔ شام کی چائے پیتے۔ کراچی پریس کلب میں ایک دلچسپ شخصیت تھے۔اکثر خاموش رہتے اور اپنی نشست پر چائے یا کافی پیتے مگر کلب میں آنے والے ہر رکن سے ان کی سلام دعا ہوتی۔ وہ ہر شخص کا احترام کرتے اور بہت شائستہ اور نرم لہجہ میںگفتگو کرتے۔ ہر بدھ کو لنچ پر سینئر صحافی غازی صلاح الدین ، پیرزادہ سلمان، ستارجاوید،آرٹسٹ ابڑو، مقتدا منصور، رضیہ سلطانہ اورنرگس خانم جمع ہوتے۔ اس محفل میں دنیا بھرکے موضوعات پر بحث ومباحثہ ہوتا۔ اس محفل میں کچھ لوگ زور سے دلائل دیتے مگر انیل عموما خاموشی سے بات سنتے۔ سینئر صحافی رضیہ سلطانہ نے انیل کے انتقال پر کہا کہ اس محفل کوکسی کی نظر لگ گئی۔

پہلے سینئر خاتون صحافی نرگس خانم کا انتقال ہوا، پھر مقتدا منصور دل کا آپریشن کرانے گئے اور واپس نہ لوٹ سکے اور اب انیل بھی اچانک چلے گئے ہیں۔ انیل ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے پریشان تھے۔ انھوں نے ایک دفعہ شکایت کی تھی کہ اب تو پریس کلب کے بیرے بھی انھیں مذہب تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ انیل پہلے YMCAکے ہاسٹل میں رہا کرتے تھے مگر اس ہاسٹل کے بند ہونے کے بعد انھیں کبھی کوئی مناسب فلیٹ نہیں ملا،انیل دتہ کو اپنی زندگی میں مختلف نوعیت کے تعصبات کا سامنا کرنا پڑا۔ نوے کی دہائی میں وہ صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ کینپ کے دورے پرگئے توانھیں داخلے کی اجازت نہیں ملی تھی مگر اس سلوک پر صحافیوں کی تنظیم کراچی یونین آف جرنلسٹ نے شدید مذمت کی تھی۔ اس زمانے میں ان کے شناختی کارڈ پر لاہور کا پتہ درج تھا، شناختی کارڈ والے ان کا کراچی کے پتے والا کارڈ بنانے کو تیار نہیں تھے۔ کمشنر کراچی کے افسر تعلقات عامہ ستارجاوید کی مداخلت سے یہ مسئلہ حل ہوا۔

میڈیا میں گزشتہ دو سال سے آنے والے بحران نے ان کو بھی شکنجے میں لے لیا تھا۔ جب ایک دن قبل ان کی طبیعت کچھ خراب ہوئی تو ایک صحافی نے انھیں پیشکش کی تھی کہ انھیں کسی اسپیشلسٹ کے پاس جانا چاہیے تو انیل نے اپنے دوست سے کہا تھا کہ اس کے پاس اسپیشلسٹ کی فیس کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انیل نے اپنے دل میں ہونے والے درد کو اہمیت نہیں دی تھی اور پھر اچانک اس درد دل نے ان کی جان لے لی۔ میڈیا کے بحران نے ایک اور ایماندار صحافی کو نگل لیا۔ اس انتہاپسندی کے دور میں کراچی پریس کے اراکین نے جس طرح اپنے ساتھی کو الوداع کیا، ان صحافیوں کا یہ جذبہ رواداری، خلوص اور روشنی کی امید ہے۔ انیل تم یقیناً اچھی جگہ پر ہوگے مگرکراچی کے صحافی تمہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں