جرات مند صحافی اور جیل یاترا
آج بھی پاکستان میں صحافتی جدوجہداپنی تمامترکمزوریوں کے باوجودماضی کی صحافتی جدوجہدکی ان حوصلہ مند نشانیوں کی امین ہے۔
میرے سامنے میرے محترم سینئر صحافی احفاظ الرحمن کی صحافتی آزادی اور اظہارکی صحافیانہ ترسیل پر مبنی کتاب ''سب سے بڑی جنگ'' ہے، جس میں مارشل لاء کے دوران عوام کی سیاسی، معاشی اور سماجی آزادی کی جنگ میں صحافیانہ قربانیوں کی وہ داستانیں رقم ہیں، جن کے مطالعے سے ہماری صحافت کے سر اب تک کسی نہ کسی طرح اٹھنے کے قابل ہیں۔
مذکورہ کتاب میں احفاظ الرحمن نے تاریخی طور پر وہ کام کیا ہے جو شاید ادارے کیا کرتے ہیں، احفاظ الرحمن کی کتاب ''سب سے بڑی جنگ'' میں مارشل لاء کے بعد صحافیانہ آزادی کو سلب کرنے کے خلاف صحافیوں کی جدوجہد کے وہ گوشے تاریخ کا حصہ بنا دیے گئے ہیں جن کا مطالعہ موجودہ نئی صحافتی نسل کو کرنا بہت ضروری ہے۔
سب سے بڑی جنگ کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے یک لخت خیال آیا کہ،کیا ہم ایک ایسے ملک کے باسی بنا دیے گئے ہیں، جہاں عوام کے معاشی قتل کے ذمے دار ادارے ''آئی ایم ایف'' کو اپنا پورا بیانیہ اور ہدایات شہہ سرخیوں میں دینے کی ''مکمل آزادی'' ہے، جس میں واضح طور پر عوام کو بتایا گیا ہے کہ موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کی نگرانی میں ان کی مطلوبہ شرائط پر بنا اور آیندہ بھی معاشی طور پہ ''آئی ایم ایف'' کی کڑی شرائط کا شکار ملک کے عوام ہونگے، جس پر کسی بھی سیاسی اور عوام تک خبر کی رسائی کے بیانیے کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔
وہ تو بھلا ہو دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کے ذرایع کا کہ جس نے عوام تک دنیا کے آخری کونے کی خبر تک رسائی کو ممکن بنا دیا ہے،جس ٹیکنالوجی کی ابتدائی شکل آسٹریلیا کے ''جولین آسانج'' کا افغانستان اور عراق کی جنگ میں عالمی طاقت کے نشے میں چور امریکا کی عوام دشمن منصوبوں اور وسائل پر قبضے کرنے کے ہولناک طریقوں سے پردہ اٹھانا اور دنیاکے عوام کو امریکی چیرہ دستیوں کی اطلاعات بہم پہنچانے کے لیے '' وکی لیکس'' نامی سیریزکا اجرا کرنا ہے،گو عوام تک خبر پہنچانے کی پاداش میں جولین آسانج عالمی طاقت کے ہرکارے برطانیہ کی قید میں ہے مگر باحوصلہ ہے۔
آزادی اظہار کے جدید وسیلے استعمال کرتے ہوئے ہمارے دیس میں بھی آج کل ''وڈیو لیکس'' کا کاروبار جدید ٹیکنالوجی کا مرہون منت خاصا اثر پذیر ہو چلاہے، مڈ نائٹ جیکال سے لے کر پناما لیکس اور پھر نیب چیئرمین لیکس کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ لیکس،جس کو مسلم لیگ کی تمام قیادت کے سامنے مریم نواز نے عوام تک پہنچایا،جب کہ صحافتی اخبارات اور چینلز نے اس زوردار دھماکہ خیز مبینہ''جج لیکس'' کی خبر کو عوام تک پہنچانے کا فریضہ ادا کیا،جو کہ صحافتی اداروں اور صحافی کی بنیادی ذمے داری اور عوام تک خبر کی رسائی کا بنیادی آئینی اور قانونی حق ہے۔
''جج لیکس'' پر مختلف رائے اور سیاسی نکتہ نظر دینا بھی صحافت کے بنیادی اصول کا ایک اہم حصہ ہے،مگر ان خبروں کی مکمل رسائی کو عوام تک پہنچنے نہ دینے کی کوششیں ایک قابل مذمت غیر جمہوری عمل ہے، آجکل خبر کی عوام تک رسائی نہ دینے کے لیے مختلف غیر آئینی وغیر قانونی ہتھکنڈے ریاست کی جانب سے اختیارکیے جارہے ہیں ، جوکسی صورت نہ سیاست اور نہ ہی اظہار کی آزادی کے لیے نیک شگون ہے۔
مذکورہ واقعے کی حقیقت کیا ہے اسے جاننا ملک کے عوام کا بنیادی آئینی حق ہے ،جس سے کسی طور ریاست عوام کو آگہی کے حق سے محروم نہیں کرسکتی، حال میں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھائے جانے والے شاید ابھی اس امر سے نا واقف ہیں کہ مارشل لاء کے جبر اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی اہل صحافت نے جہاں اپنی جان کے نذرانے دیے ہیں وہیں انھوں نے حکومتی جبر کے آگے جھکنے کے بجائے قید و بند کی صعوبتیں بڑی فراخدلی اور حوصلہ مندی سے جھیلی ہیں۔
آج بھی پاکستان میں صحافتی جدوجہد اپنی تمامترکمزوریوں کے باوجود ماضی کی صحافتی جدوجہد کی ان حوصلہ مند نشانیوں کی امین ہے، جس سے نئی صحافت نئے عزم کے ساتھ پھر ایک جوالا بن سکنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، لہذا آج کی آزاد صحافت اپنے صحافیانہ فرائض اور معاشی قتل سے نئے عزم اور نئے راستے تو تلاش کر سکتی ہے، مگر قطعی طور سے عوام کو خبر تک رسائی سے محروم نہیں کیا جا سکتا ، یہی آج کی وہ حقیقت ہے جسے سمجھنا اہل اقتدار کا کام ہے ،جب کہ عوام سب سمجھ رہے ہیں ۔
ہمارے سینئر صحافی ساتھی احفاظ الرحمن نے اپنی کتاب''سب سے بڑی جنگ'' میں یوں تو صحافتی تحریک کے سیاق و سباق پر تفصیل سے دس ابواب قلمبند کیے ہیں، مگر آج کے نوجوان صحافیوں کے عزم و ارادے کو جلا بخشنے کی خاطر کتاب کے چوتھے باب میں ان صحافی دوستوں کے اسیری کے دوران خطوط کا چنیدہ ذکر ضروری ہے،جن سے نئے حوصلے اور عزم کے نمو ہونے کے امکانات ہیں، یہ صحافت کی آزادی اور عوام کی جمہوری آزادی کی بقا کے وہ کردار ہیں جنھوں نے معاشی تنگ دستیوں کے باوجود جیل یا ترا کے دوران نہ صرف اپنے حوصلے بلند رکھے بلکہ ان صحافیوں کے عزم کو بھی زندہ رکھا جو اپنے ساتھیوں کی جدائی پر مسلسل پریشان اور فکر مند رہتے تھے۔
احفاظ الرحمن کی کتاب میں جیل سے خطوط میں پہلا خط سینیئر صحافی حبیب خان غوری کا ہے، جس میں وہ جیل سے باہر کے ساتھیوں کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے رقم طراز تھے کہ''سینٹرل جیل کراچی میں آج ہمارا چھٹا دن ہے اورپروفیسر عادل بھٹی کی سربراہی میں گرفتاری دینے والا مجاہدین صحافت کا ایک اور دستہ جیل پہنچا ہے،گزشتہ روز جو دستہ مولانا خورشیدکی قیادت میں پہنچا تھا، اس میں شمیم اصغر بھی جیل پہنچا دیے گئے ہیں جنھیں نا معلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے، شام جی، اشرف شاد اور دیگر نو ساتھیوں کی حیدرآباد منتقلی سے اگرچہ پہلی والی چہل پہل نہیں رہی ، تاہم دوسرے دوستوں کا دم غنیمت ہے،جیل میں قید بامشقت کے قیدیوں کوکوڑے مارے گئے لیکن میں نے ان کے حوصلوں کو پست نہیں پایا ، وہ اب بھی پر جوش ہیں ،انھوں نے جیل میں مختلف گیت ، نغمے اور جگنیاں تیار کر رکھی ہیں، رات کے وقت محفلیں سجاتے ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں ہونے دیتے کہ ہم نظر بند ہیں۔''۔
ایک سینیئر اور حوصلہ مند صحافی طاہر نجمی کا نواب شاہ جیل کی بیرک نمبر 8 کا ایک خط ، جس کا عنوان'' ہم موت سے بھی نہیں ڈریں گے'' ہے ۔ اس میں طاہر نجمی تنہائی کے عذاب میں بھی پرعزم ہوکر ساتھیوں سے مخاطب ہیں کہ '' ، جیل میں آزاد اخبارات وجرائد کا داخلہ بند ہے البتہ مودودی اینڈ کمپنی کے جرائد کی آمد پر جیلر صاحب کوکوئی اعتراض نہیں،لانڈھی جیل سے منتقل ہونے کے بعد اب نواب شاہ جیل میں بالکل تنہا ہوں ، تاہم وقت گزر رہا ہے، وہ ساتھی خوش قسمت ہیں جو دیگر جیلوں میں با جماعت نطر بندی یا سزائیں کاٹ رہے ہیں، معلوم ہوا ہے کہ قائد صحافت منہاج برنا آزادی صحافت کے لیے تادم مرگ بھوک ہڑتال کریں گے، اگر ایسا ہوا تو پھر نواب شاہ کا یہ تنہا اسیر صحافی بھی پیچھے نہیں رہے گا ، ہم جیلوں ،کوڑوں اور فوجی عدالتوں کی سزاؤں سے نہیں ڈرتے اور موت سے بھی نہیں ڈریں گے۔''
مذکورہ دونوں سینئر صحافیوں کے اس وقت کے حوصلے آج بھی صحافتی تحریک کو جلا دینے سمیت مصائب و ابتلا اور گروہی کمزوریوں میں گرفتار صحافت کو ایک نئے عزم کے ساتھ یکجا کرنے کی مکمل طاقت رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ صحافت کے قلم اور معاشی آزادی کی جنگ ہی عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق دلانے کا آخری مورچہ ٹہرے گی کہ،
صعوبتیں جو پڑی ہیں مٹا کے دم لیں گے
جو مشعلیں نہیں روشن جلاکے دم لیں گے