حساب کتاب
یہ کون سا انصاف ہے کہ تنخواہ دار ٹیکس ادا کرے اور لا محدود آمدن والے تاجر ٹیکس چوری کریں
وقت کا گھڑیال ہر روز یہ منادی دیتا ہے کہ اے نادان گردش لیل و نہار نے تیری عمر کا ایک اور دن کم کر دیا ہے۔ عمر جتنی بڑھتی ہے اتنی ہی کم بھی ہوتی ہے اور اگر عمر مقرر ہو تو پھر اس کا احساس شدید ہوتا ہے۔
جدید دنیا میں حکومتوں کی عمر بھی مقرر اور محدودہوتی ہے ۔ہمارے ہاں جمہوری منتخب حکومت کی عمر آئین نے پانچ برس مقرر کر رکھی ہے۔ اگر چہ پاکستان میں ایسا بہت کم ہی ہوا ہے کہ کسی حکومت نے یہ آئینی مدت پوری کی ہوما سوائے گزشتہ دوحکومتوں کے جنہوں نے ملی بھگت کے ساتھ اپنی اپنی حکومت کی پانچ برس کی آئینی مدت مکمل کی گو کہ اس دوران وزرائے اعظم تبدیل ہوتے رہے لیکن جیسے تیسے کر کے حکومتی مدت مکمل کر لی گئی۔
موجودہ حکومت کی عمر بھی پانچ برس ہی ہے جس کا پہلا سال گزر بھی چکا ہے اس لیے حکومت نے جوکچھ بھی کرنا ہے باقی ماندہ عمرمیں کرلینا ہے۔ ہمارے عہد کی غالب دنیا جو کمزور ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت اپنا حق سمجھتی ہے، محسوس یوں ہوتا ہے کہ وہ ہم پاکستانیوں سے زیادہ متفکر ہے کیونکہ ان کے بہت سارے مفادات ہم سے وابستہ ہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت ہو جو ان کی خواہشات کے مطابق ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔
یہ مثل تو آپ نے سنی ہی ہو گی کہ غریب پر سے غصہ نہیں اترتا ۔ اور ہم پہلے سے زیادہ کمزور اور غریب ہو چکے ہیں اس لیے ہمیں اب یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ بااثر اور غالب دنیا کی مرضی کے بغیر کسی بھی قسم کی مہم جوئی برداشت نہیں کی جائے گی ۔کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ ہمارے ہاں ماضی میںسیاسی حکومتوں نے کیا اودھم مچائے اور ہم کن حالات کا شکار رہے ہیں۔ ہم نے اس دوران فوجی حکومتیں بھی بھگتی ہیں جن کا ان بااثر قوتوں نے پہلے تو بائیکاٹ کیا مگر بعد میں یہی حکومتیں ان کو بہت عزیز رہی ہیں۔
کچھ تو ستر برس کی خرابیاں ہیں جن کو درست کرنا ہے اور کچھ کام ہماری حکومت نے نئے شروع کر دیے ہیں جن کو ظاہر ہے کہ انھوں نے ہی مکمل کرنا ہے جن میں ملک میں ٹیکسوں کا نظام سر فہرست ہے ۔ حکومت اس بات پر مصر ہے کہ جو ٹیکس دے سکتا ہے وہ ضرور ٹیکس دے جب کہ ہم میں سے بیشتر اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ہم ٹیکس نہیں دیں گے۔ بلکہ آج کے اخبارات میں تو یہ بھی چھپا ہوا ہے کہ ہمارے تاجروں نے اپنے قومی شناختی کارڈ کے ذریعے لین دین سے بھی انکار کر دیا ہے گویا وہ اپنی پاکستانی شناخت سے انکاری ہو چکے ہیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بیٹوں کے ساتھ بھی ہے، کچھ عرصہ قبل جب ان کو پاکستان میں طلب کیا گیا تو ان کا جواب بھی یہی تھا کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں یعنی والد پاکستان کا تین مرتبہ وزیر اعظم اور اولاد پاکستان کا شہری ہونے سے انکاری ہے۔ ایسا ہی بیان اب تاجروں کی جانب سے آیا ہے کہ وہ اپنی شناخت کے بغیر اس ملک میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ بھی کل کلاں ماضی کے تاجر حکمرانوں کی طرح پاکستان کی شہریت سے انکاری ہوجائیں۔
ہمارے حکومت نے ٹیکسوں کے متعلق جو کام شروع کیا ہے اور جس میں پوری قوم ان کے ساتھ ہے وہ ہے کاروباری زندگی کی دستاویز بندی۔ کسی کو حساب کتاب دینا ہو یا نہ دینا ہوکاروبار میں حساب کتاب رکھنا ضروری ہوتا ہے اس کے بغیر کاروبار ہو ہی نہیں سکتا ۔ ہر کاروباری آدمی چھوٹا ہو یا بڑا باقاعدگی کے ساتھ حساب کتاب رکھتا ہے ۔بڑی کمپنیوں کے بارے میں تو یہ لطیفہ مشہور ہے کہ جب اکاؤنٹنٹ رکھنے کے لیے امیدواروں کا انٹرویو ہو رہا تھا تو ایک امیدوار نے اپنی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں بیک وقت تین قسم کے حساب رکھ سکتا ہوں ۔
ایک آپ کے لیے، ایک حکومت کے لیے اور ایک آپ کے دوسرے حصے داروں کے لیے۔ ہماری حکومت یہی کہہ رہی ہے کہ جو کاروباری لوگ صرف اپنا حساب رکھتے ہیں وہ اپنے دوسرے حصے داروں کے لیے حساب رکھیں نہ رکھیں حکومت کے لیے حساب ضرور رکھیںاور اپنے منافع میں سے حکومت کو بھی اس کا حصہ ادا کریں ۔
اسی میں مختلف ٹیکسز شامل ہیں جو تاجروں نے ہمارے جیسے مظلوم گاہکوں سے وصول کرنے ہیں ۔ تاجروں نے ان ٹیکسوں کے خلاف ہڑتال کی ہے اور حکومت کو آیندہ کے لیے خبردار بھی کیا ہے لیکن اگر حکومت نے اعصاب مضبوط رکھے اور عوام نے اس ضمن میںحکومت کی مدد کی تو یہ دھمکیاں محض گیڈر بھبھکیاں رہ جائیں گی۔
ہمارے تاجروں کو یہ نیا نظام قبول کرنا ہی ہو گا کیونکہ یہ کون سا انصاف ہے کہ تنخواہ دار طبقہ تو اپنی محدود تنخواہ سے حکومت کو مکمل ٹیکس ادا کرے اور لا محدود آمدن والے تاجر ٹیکس چوری کریں ۔ حکومت کے اپنے کارندے تاجروں کی ٹیکس چوری میں مدد کرتے ہیں اور انھیں ٹیکس سے فرار کے راستے دکھاتے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاجروں کی دستاویز بندی کا آغاز ہو گیا ہے۔
اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس نیک کام کو کس خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہے اور اس میں کتنی کامیاب ہو تی ہے۔ مشکل ترین تو اس کا آغاز تھا جو کر دیا گیا ہے اب تاجروں کی ناراضی کو راضی نامے میں بدلنے اور اس مفید کام کو جاری رکھنے میں حکومت کے معاشی ماہرین کا امتحان ہے جو بڑی تعداد میں موجود ہیں اوران میں مسلسل اضافہ بھی کیا جارہا ہے۔
بہر حال حساب کتاب کے اس نیک کام کو موجودہ حکومت نے اپنی آئینہ مدت میں مکمل کرنا ہے اور یہ عمر کسی عاشق کی عمر نہیں کہ
عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
یہ بڑی ٹھوس حقیقت ہے جس کا حکمرانوں اور پوری قوم کو سامناہے اور اسی مدت کے اندر اندر کچھ کر کے دکھانا ہے۔