سوشل میڈیا کی بے لگام مادر پدر آزادی
سوشل میڈیا کی بے لگام مادرپدر آزادی ہمیں کہاں لے جائے گی نہیں معلوم؟
MOSCOW:
دور جدید میں ٹیکنالوجی کی اہمیت اور افادیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں ہے لیکن اس کا انتہائی غلط اور بے محابہ استعمال ہر طرح سے نقصان کا باعث ملک بھر کے لوگوں کے لیے بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی بے لگام مادرپدر آزادی ہمیں کہاں لے جائے گی نہیں معلوم؟
اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہرکس و ناکس کی گھٹیا ذاتی کردار کشی اور خواتین خانہ کی قابل اعتراض تصاویر اور تحاریر کا سلسلہ جنرل ضیا الحق کے انتقال کے بعد جمہوری دور کے آغاز سے شروع ہوا تھا۔ ذومعنی فقرے اور غیر اخلاقی الزامات کا سہارا لے کر ووٹ بینک بنانے کا یہ سلسلہ خاصے عرصے تک جاری رہا اور اب تو ایسا غدر برپا ہوا ہے کہ ہر خاص و عام کا دامن بچا کر رکھنا مشکل ہوگیا ہے اور اس بداخلاقی اور گھٹیا پن کو آزادیٔ رائے کا نام دیا جا رہا ہے۔
حالانکہ مہذب معاشروں میں آزادیٔ رائے اخلاقی اقدار کی پابند ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں قومی سطح پر اس کے بالکل برعکس ہو رہا ہے۔ وطن عزیز کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں نے متعدد ذہین اور زرخیز ذہنوں کو سوشل میڈیا کے لیے ہائرکر رکھا ہے جو اپنے مخالفین کی کردارکشی کا سیل بھی کہلاتا ہے۔ یہ جب چاہتا ہے پاکستان کے کسی بھی منصب دار کے علاوہ اس کی فیملی کے معزز اہل خانہ کو بھی میڈیا کے حمام میں برہنہ کردیتا ہے۔ ہمارے بڑے سیاسی قائدین اور ان کے ''حواری'' اس طرح کے کارناموں سے نوجوان نسل کا اخلاق تباہ کر رہے ہیں اور انھیں کردار کشی کے نہایت گھٹیا طریقوں سے آشنا کر رہے ہیں۔
اکیسویں صدی کی سب سے موثر اور طاقتور ٹیکنالوجی ہمارے ملک کے معماروں اور ان کے مستقبل کے ذمے داروں کے ہاتھوں افواہ سازی اور اشتعال انگیزی کا سبب بن چکا ہے جس پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ یہ بھی بے جا نہیں کہ برقی آلات، الیکٹرانک میڈیا یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پو نوجوان نسل کی سرگرمیوں سے اب کسی کی عزت محفوظ نہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے تدارک یا سدباب کے لیے کوئی لائحہ عمل بھی طے نہیں کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر بے ہودگی، گالم گلوچ، جنسی لذتوں کے طریقے اور ان سے متعلق ادویات کے باتصویر لٹریچر آوارہ نظروں کے لیے ''تحفۂ خاص'' بنے ہوئے ہیں اور اہل دنیا کی آوارہ نگاہیں اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے سامان کی متلاشی رہتی ہیں۔ اس طاقتور میڈیم کے ذریعے اپنے مخالفین یا ناپسندیدہ لوگوں پر الزامات لگانے کا جو رجحان متعارف کروایا گیا تھا اب سبھی اس دو دھاری تلوار کی زد میں آ رہے ہیں۔
حال ہی میں فیس بک دوستی پر انکار سے ایک ادارے سے متعلقہ نوجوان نے جس طرح ایک لڑکی اور اس کے ماں باپ اور بھائیوں کو گولیاں مارنے کے بعد خود کو بھی ہلاک کر ڈالا، کم از کم ان اداروں کو ہی ملک کے اس حساس اور سنگین مسئلے (فیس بک کے مضر اثرات) پر جیمر لگانے جیسا کوئی موثر اور ضروری کام کرنا چاہیے۔
پاکستانی لڑکوں اور لڑکیوں کی غیر ممالک میں اپنی مرضی سے شادیاں اور بعدازاں ''بربادیاں'' بھی اسی سوشل میڈیا کے سبب ہو رہی ہیں۔ اس کڑوی سچائی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سوشل میڈیا بطور خاص نوجوانوں میں ذہنی دباؤ، نیند کی کمی اور شدید احساس کمتری و محرومی پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے اور اس مرض میں مبتلا افراد افواہیں، بدگمانیاں اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بھی بنے ہوئے ہیں وہ خود کو عقل کل بھی سمجھتے ہیں۔ وہ واٹس ایپ، فیس بک اور ٹوئیٹر کے ذریعے من گھڑت معلومات شیئر کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد اپنے حلقہ احباب میں خود کو سب سے زیادہ باخبر ثابت کرنا ہوتا ہے۔
اب سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی یا خودساختہ اطلاعات چند لمحوں میں دنیا کے ہر حصے میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ قیاس آرائیاں اور بدگمانیاں افراد اور خاندانوں کی کردار کشی کے علاوہ ملکی سالمیت اور اسلامی شعائر کو بھی بدنام کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات اور اطلاعات بغیر کسی تحقیق کے وائرل ہو جاتی ہیں اور اکثر اوقات مین اسٹریم میڈیا بھی ان کی دسترس سے محفوظ نہیں رہتا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ففتھ جنریشن وار میں سوشل میڈیا ہی بہترین ہتھیار ہے اور اس کا درست استعمال عالمی سطح پر پاکستان کا بہترین تاثر قائم کرسکتا ہے۔ لیکن افسوس اس کے انتہائی منفی استعمال نے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک خطرناک ملک کے طور پر نمایاں کردیا ہے۔ دراصل بدقسمتی سے دور حاضر میں جدید ٹیکنالوجی ہمارے احساسات، جذبات اور رویوں پر غالب آگئی ہے۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے بالمشافہ رابطوں میں بھی بہت فرق پڑا ہے۔ گو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تعلقات کا تاثر ضرور دیتی ہیں مگر اس تعلق داری میں کوئی گرم جوشی نہیں ہوتی۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے جہاں دنیا بھر کے باشندوں سے رابطہ قائم کرنا اور دنیا بھر کے علوم تک رسائی ممکن ہوگئی ہے وہیں اس ٹیکنالوجی نے فرد کو تنہا بھی کردیا ہے۔ آج ماں باپ، میاں بیوی، بہن بھائی اور بچے (ٹین ایجز) ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بے گانے ہیں۔ یہ برقی آلات آج انسانی رشتوں کے درمیان ایک بڑی خلیج اختیارکرکے خونی رشتوں اور بچوں کے درمیان ربط و ضبط کو کمزور کرنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔
عالم یہ ہے کہ موبائل یا اسمارٹ فونز یا ٹیبلٹ کے بغیر شیرخوار یا نونہال کچھ کھاتے پیتے نہیں اور ہر وقت وہ ان میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بینائی کمزور یا ختم کرنے پر کمربستہ ہیں۔ بچے اسی وجہ سے دیر سے بولنا سیکھ رہے ہیں اور یہ ساری صورتحال ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اسمارٹ فونز اور دیگر آلات سے بچے بڑے جوان بوڑھے دور دراز کے لوگوں سے جڑ تو گئے لیکن وہ خالص اپنوں سے دور ہوگئے۔
ہم انسانوں کی غالب اکثریت اپنے گھناؤنے یا داغی چہروں کے ساتھ فیس بک کو فیس کرنے کی پاداش میں عارضی خوشیوں کی تلاش میں اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ اسی فیس بک کے ذریعے ہی ہم اپنی مشکلات، ذلالت اور اخلاق سوز امور کو دعوت دینے کے بعد اپنے اہل خانہ کو ندامت اور شرمندگی فیس کرنے کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔ بلاشبہ سوشل میڈیا اب ایک گندی اور غلیظ دلدل بن چکی ہے جس میں ہر بڑا چھوٹا اپنے وجود کو ساتھ لیے ایک دوسرے کو گالیاں دے کر اپنی جھوٹی اور مجروح انا کی تسکین کرنے میں مصروف ہے اور اسی وجہ سے ہم دماغی اور دلی گھٹن والی قوم بن کر رہ گئے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ قوم کے سبھی طبقوں میں فرسٹریشن، ڈپریشن اور عدم برداشت کا زہر پھیلتا جا رہا ہے۔