خانہ بدوش بنجارے
تاریخ کے تناظر میں علم و ادب اور ثقافتی رنگ پر جب بھی ریاستی رنگ چڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
''خانہ بدوش'' کی مہلاؤں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی تھی کہ وہ اپنی شعوری سوچ کے دائروں سے منڈلیاں بنائیں، روشن خیال افکارکے افراد کا میلہ ٹھیلا سجائیں یا راگ رنگ کے ذریعے نئے ذہنوں میں شعوری سرکے سازندوں سے نئی نسل کو سوچنے پر مجبورکریں۔
ان آزاد سوچ کی مہلاؤں نے تو حیدرآباد کے سیاسی اور ثقافتی شعورکو سوچ کی ایک ایسی شاہراہ پر ڈال دیا ہے، جس سے بند سوچ کے سوتوں میں توانا زندگی دوڑنے لگی ہے، جوکہ کسی طور قابل قبول نہیں، ان بنجارن مہلاؤں کو معلوم ہونا چاہیے کہ غلام ریاست میں شعور دینے والی ہر''نس کوکاٹنا ''ریاست کی قومی سلامتی کا اہم مسئلہ ہے۔
لہذا ان بنجارنوں کو اس بات کی اجازت کیونکر دی جا سکتی ہے کہ وہ تنبورے، بانسری، طبلے یا ہارمونیم کی مدد سے راگی کی سریلی آوازوں سے انسانی شعور اور سوچ میں زندگی کے فطری زاویے پیدا کریں۔ یہ ان ''خانہ بدوش'' مہلاؤں کی حد سے تجاوز کرنے کی وہ جرات ہے جس کی آزادی کم ازکم قومی سلامتی برقرار رکھنے کی غرض سے بالکل بھی نہیں دی جا سکتی۔ ریاست کے اپنے حکم نامے اور انداز ہوتے ہیں لہذا اگر ان ''خانہ بدوش'' مہلاؤں کو ریاست کے طور طریقوں کا علم نہیں تو بہتر ہے کہ ''خانہ بدوش'' کو مقفل کرکے ان کی آگے بڑھتی ہوئی انسانی سجاگ کی سوچ پہ تالے ڈال دیے جائیں اور ان کو ریاست کی قومی سلامتی نہ سمجھنے پر سماج کا مجرم قراردیا جائے۔ اب اگر سندھ حکومت بنجارن مہلاؤں کی نافرمانی کے جرم کے شعور میں روشن خیال فکر کو عام کرنے کے جرم ''خانہ بدوش'' کیفے کو بند کر رہی ہے تو اس پر اسقدر واویلا کیوں؟
کچھ دنوں سے سندھ حکومت کی وزارت ثقافت کے ہرکاروں کی باتیں خبروں کی گردش میں ہیں،حکومتی ترجمان کا بیانیہ ہے کہ حیدرآباد میں رانی باغ سے متصل محکمہ ثقافت کی زمین جوکہ شہید بینظیر پارک کی صورت میں تھی،اس پر ثقافتی رنگ کے تسلسل کی غرض سے چند سر پھری بنجارن مہلاؤں کی درخواست پر پارک کے ایک حصے میں باقاعدہ معاہدے اور کرائے کی شرط کے تحت انھیں اس کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنی سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں کرسکتی ہیںجب کہ جگہ کا کرایہ ہر ماہ حکومت سندھ کو دینے کی پابند ہوگی، حکومتی وزیرکا بیانیہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے معاہدے کی پاسداری نہیں کی جا رہی اور نہ ہی وقت پرکرایہ ادا کیا جا رہا ہے، لہذا معاہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد ''خانہ بدوش'' کی ان مہلاؤں کو مزید اپنی سر گرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اسی طرح حیدر آباد سے ملکی سطح پر تہذیب، ادب، موسیقی اور ترقی پسند سوچ کے فکر آمیز موضوعات کے ذریعے سندھ کی ثقافتی سرگرمیوں کو ملکی سطح پر روشناس کرنے میں سر گرم ''امر سندھو'' سے رابطہ کیا گیا تو ان کا تو خاطر خواہ جواب نہ آیا البتہ حیدرآباد کے معروف سینیئر صحافی اور دوست اقبال ملاح نے حالات کی عکاسی کرتے ہوئے یہ ضرور بتایا کہ دراصل بات کرائے نہ دینے یا جگہ خالی کروانے سے زیادہ ان ترقی پسند اور روشن خیال تحریکی دوستوں کی آمد یا ایک چوپال بنانے کی ہے جو حیدرآباد کے اس ''خانہ بدوش''کیفے سے علم و فکر اور جمہوری رویوں کی بات کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افسوس اس بات کا نہیں کہ جمہوریت کی دعویدار پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی زمین خالی کیوں کروانا چاہتی ہے، بات دراصل یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ایسی سر گرمیوں کو روکنا ضرور چاہتی ہے جو سماج میں سیاسی اور معاشرتی شعور پیدا کرنے کا سبب ہوں۔ اقبال ملاح کے خیال میں دراصل ''خانہ بدوش'' کے بند کرانے میں پس پردہ سب سے اہم بات وومن ایکشن فورم کا وہ مضبوط بیانیہ ہے جو سماج میں فکر کی آزادی اور خواتین کی ذہنی آزادی کا علمبردار ہے، ان کے خیال میں شاید حکومت سندھ اور چند ریاست کے چاپلوس ادیب و نام نہاد مفکر نہیں چاہتے کہ ان کی مرضی اور منشا کے بغیر''خانہ بدوش'' کی روشن خیال فکر اور سرگرمیاں بحال رہیں ۔
نہ میں امر سندھو سے واقف ہوں اور نہ میری شناسائی عرفامہ ملاح اور''خانہ بدوش'' کی متحرک بنجارنوں کے ساتھ ہے،البتہ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ جب ''خانہ بدوش'' کی سرگرمیوں کا حصہ میری اپنی بیٹی لیلی رضا، میرے سینئر سیاسی ساتھی جام ساقی کی بختاور جام، حبیب جالبؔ کی بیٹی طاہرہ، عالیہ بخشل، میرا مان پروین مگسی اور بہت سے تحریکی ساتھی ہیں تو یقینا سماجی شعورکا کوئی ایسا گوشہ ضرور موضوع گفتگو بنتا ہوگا جہاں سے قومی سلامتی کے سونگھتے افراد اسے ریاست کے لڑکھڑاتے ڈھانچے کے خلاف تصور کر کے چند آسائشات کے لیے اپنے مطلب کی رپورٹنگ کرتے ہوں۔ سوال کسی ادارے کے بننے یا بند ہونے سے زیادہ اس بات کا ہے کہ ہم اب تک ایسے سماج کے رہواسی کیوں بنائے جا رہے ہیں جہاں سوچنے،سمجھنے،گفتگو کرنے اور سوال اٹھانے کی آزادی نہ ہو،اس سے زیادہ مہلک بات یہ ہے کہ کیا سماج کے مختلف رنگ سوچ ساز راگ کو ریاست اپنی مرضی و منشا سے چلاسکتی ہے اور آخرکب تک؟
تاریخ کے تناظر میں علم و ادب اور ثقافتی رنگ پر جب بھی ریاستی رنگ چڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، وہ سماج ہمیشہ تباہی وبربادی کا ہی مرکز بنے ہیں، تاریخ سے سبق لینے والی ریاستیں سوچنے کی آزادی سے سریلے فنکار اور فکری سوچ کے وہ سائنسدان، فلاسفر اور تاریخ دان پیدا کرتی ہیں، جو انسانوں کی تعمیری سوچ کے ساتھ ترقی کا زینہ بنا سکیں، حیدرآباد کی ٹھنڈی سڑک کی مانند ٹھنڈی ٹھنڈی سوچ کے اس تاریخی شہر میں اگر چند بنجارن نما ''خانہ بدوش'' سر پھری مست و مگن زندگی میں دھت نئی نسل میں روشن خیال اور تعمیری سوچ کے رنگ بھرنے میں مصروف عمل ہیں تو زندگی کے ان مفاہیم اور رنگوں کو ایک جبریہ ذہن کا سردار آکرکیوں روندنا چاہتا ہے۔
حیدرآباد کے وہ سوچنے اور فکرکی تعمیر کرنے والے صاحب ثروت کیوں نہیں آگے بڑھ کر دولت کے پجاری سردار کو پیسے دے کر خاموش کرا رہے ہیں جو ہمہ وقت راگ رنگ کے لیے لاکھوں لٹاتے پھرتے ہیں؟ مگر شاید کہ اب کسی نے سوچ لیا ہو کہ سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور مذہبی افراد ہی کے ذریعے تو سماجی ابھار اور روشن خیال سوچ کی ''نس بندی'' کی جا سکتی ہے۔ اسی خاطر ایک غلام ذہن کے سردار ذریعے ثقافتی رنگ اور آزاد سوچ کے پھیلنے کو روکا جا رہا ہے، یہ بات ذہن میں رہے کہ وہی حکمران تاریخ کا روشن حوالہ رہتے ہیں جو فرد کی آزادی کے ساتھ اس کے فطری جذبوں کو سمجھنے اور ان کو آگے بڑھانے کا سبب ہوتے ہیں، وگرنہ ثقافتی تہذیب سے خالی اقوام ''دہشت گرد اور شاہ دولہ کے چوہے'' تو پیدا کرسکتی ہیں مگر زندہ معاشروں کو آگے لے جانے کا سبب ہرگز نہیں۔
سندھ اور خطے کی ثقافت و تہذیب اور ادبی رنگ کو پھیکا کرنے کا سندھ حکومت کا یہ عمل دوبارہ حکومتی غورکا طالب ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ ان بنجارنوں کی ''خانہ بدوشی'' کا احترام کرو کہ ان کا رہنا گانا بھنگڑے ڈالنا اور مست و مگن رہنا ہی تو سر سنگم اور زندگی کی حرارت اور رنگ ہے، وگرنہ نظیر اکبرآبادی کے بقول۔
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ