ایک عظیم امریکی روز پیرٹ سینئر کی یاد میں دوسرا اور آخری حصہ
امریکی تاریخ میں پیرٹ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے آزاد امیدوار ثابت ہوئے۔
ISLAMABAD:
انھوں نے سیاسی پارٹیوں کو امریکی عوام کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی کرنے کا ذمے دار ٹھہرایا۔ دیکھا جائے تو پیرٹ 25برس قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے سیاسی بیانیے کے خدوخال واضح کرچکے تھے۔ پیرٹ کے حکومتی حجم کو کم کرنے اور عالمگیریت مخالف موقف ہی کو ٹرمپ نے ''سب سے پہلے امریکا'' کے نعرے کی شکل دی۔ آزاد حیثیت میں روز پیرٹ نے 1992کے انتخابات میں امریکی صدارتی امیدوار بننے کے لیے 39فی صد کی حمایت حاصل کی اور نہ جانے کیوں اچانک جولائی میں اس دوڑ سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔
ان کے حامیوں نے دوبارہ انھیں صدارتی دوڑ میں شامل ہونے پر آمادہ کیا اور یکم اکتوبر کو پیرٹ پھر اس دوڑ میں شامل ہوگئے لیکن 60دنوں کے وقفے نے ان کی مہم کی رفتار ماند کردی۔ پہلے صدارتی مباحثے میں پیرٹ کو مقابل امیدواروں پر واضح برتری حاصل رہی۔ صدارتی انتخابات میں پیرٹ مجموعی ووٹوں کا 19فیصد حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہے جب کہ انتخابات جیتنے والے بل کلنٹن نے 45فیصد اور دوسرے نمبر پر رہنے والے جارج بش نے 37.5 فی صد حاصل کیے۔
امریکی تاریخ میں پیرٹ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے آزاد امیدوار ثابت ہوئے۔ 1996میں پیرٹ نے سیاسی سرگرمیاں ترک کردیں اور 1988میں اپنی قائم کردہ پیرٹ سسٹمز کارپوریشن کی صدارت سے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔ وہ 2000ء تک کمپنی کے سربراہ کے عہدے پر رہے اور 70برس کی عمر میں یہ عہدہ بھی اپنے بیٹے روز پیرٹ جونیئر کے حوالے کردیا۔ لیکن اپنے ملک سے متعلق ان کی فکر مندی کبھی ختم نہیں ہوئی۔ امریکا کے قومی قرضوں سے متعلق وہ ہمیشہ پریشان رہے اور 2008میں انھوں نے اپنے ہم وطنوں میں اس حوالے سے آگاہی کے لیے ایک ویب سائٹ کا اجرا کیا۔ اگلے ہی برس امریکا کے ''ویٹرن افیئر ڈپارٹمنٹ'' نے انھیں افواج کی فلاح کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں خصوصی اعزاز دیا۔
1994میں اپنے بیٹے کی بوسٹن یونیورسٹی سے گریجویشن کے موقعے پر روز پیرٹ سینیئر کو پہلی بار دیکھا۔ 1992کا یہ صدارتی امیدوار انتہائی باوقار اور متاثر کُن مقرر تھا۔ پیرٹ خاندان سے میری قربت کا آغاز 2004میں ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ میں شمولیت کے بعد ہوا، روز پیرٹ کے صاحبزادے روز پیرٹ جونیئر اس ادارے کے بورڈ چیئرمین تھے اور بعدازاں ان سے میری گہری دوستی ہوگئی۔ روز جونیئر کی مہربانی سے مجھے 2013میں ڈیلاس میں مقیم قریبی دوست ڈاکٹر احسان الحق کے ہمراہ اس عظیم انسان سے ملاقات کا موقعہ ملا، اس وقت ان کی عمر 83برس ہوچکی تھی۔
یہ ایک نادر موقع تھا اور کئی اعتبار سے میرے لیے یہ ملاقات چشم کشا ثابت ہوئی۔ انھوں نے نہ صرف ہمیں اپنے جمع کیے گئے نوادرات کی تفصیلات بتائیں بلکہ ہمیں ڈیلاس ٹیکساس میں قائم اپنے وسیع و عریض دفتر کا دو گھنٹوں پر محیط دورہ کروایا۔ اس سے قبل جب روز جونیئر نے مجھے ہیلی کاپٹر کی سواری کی پیش کش کی اور ساتھ ہی مجھے ہیلی کاپٹر اڑانے کا کہا تھا تو میرا خیال تھا کہ وہ مذاق کررہے ہیں۔ مجھے اس وقت تک یقین نہیں آرہا تھا جب میں ان کے بیل 407کے دہرے کنٹرول والے ہیلی کاپٹر کی داہنی نشست پر نہیں بیٹھ گیا، ہم نے تقریباً ایک گھنٹے کی پرواز کی۔ اگرچہ میں نے 1975میں کمرشل پائلٹ کا لائسنس حاصل کرلیا تھا لیکن مجھے ہیلی کاپٹر اڑائے ہوئے 42برس ہوچکے تھے۔ روز میرے ہم سفر تھے اور مجھے شمالی ڈیلاس میں وسیع رقبے پر پھیلے ان کے رہائشی اور کمرشل علاقے دیکھنے کا موقعہ ملا۔
روز پیرٹ جونیئر کا مزاج بھی امیرزادوں جیسا نہیں۔ انھوں نے جب پیرٹ خاندان کے زیر ملکیت الائنس ایئرپورٹ سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا تو ان کا وژن اور موضوع پر عبور حیران کن تھا۔ ''سرکل ٹی رینچ'' کا زیادہ تر حصہ ''ہل ووڈ اسٹیٹس'' پر مشتمل ہے، 18ہزار ایکڑ کا رقبہ 25برسوں میں تعمیر کیا گیا(جس میں چار کروڑ اسکوائر فٹ پر ترقیاتی کام ہوچکے ہیں)۔ روز پیرٹ جونیئر نے خود کو اپنے باپ کا حقیقی بیٹا ثابت کیا ہے اور وہ اپنے والد کی طرح کاروباری وژن ، دیانت داری، باہمی احترام اور ٹیم ورک جیسی اقدار کا ورثہ آگے بڑھا رہے ہیں۔
روز پیرٹ سینیئر قسمت کے دھنی ہیں جو انھیں ایسا بیٹا ملا۔ ای ڈبلیو آئی کے لیے روز جونیئر نے جس یکسوئی کے ساتھ تزویراتی منصوبہ بندی کی اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں۔ اپنے والد جیسا پختہ عزم رکھنے والے روز جونئیر نے (جو کوبرن کے ساتھ) محض 21برس کی عمر میں 29دنوں میں ہیلی کاپٹر پر پوری دنیا کا چکر لگا کر ایک تاریخ رقم کی۔ وینڈربلٹ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد انھوں نے تقریباً نو برس امریکی فضائیہ میں بطور F-4پائلٹ خدمات انجام دیں۔
ہمارے ہاں کتنے ارب پتیوں کے بیٹے فوج میں جا کر ملک کی خدمت کرتے ہیں؟ ہمارے ہاں لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان جیسی مثالیں موجود ہیں ، جو رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ کے گریجویٹ ، ویٹرنز آف پاکستان کے موجودہ صدر ہیں اور پاکستان ایکس سروز مین ایسوسی ایشن سے بھی منسلک ہیں۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے مادر وطن کو بہت کچھ لوٹانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ آج ہمارے بزنس ٹائیکون اس سے بہت زیادہ کرسکتے ہیں (اور انھیں کرنا چاہیے) جو وہ اس وقت کررہے ہیں۔ روز جونیئر کے بیٹے ہل نے بھی امریکی فضائیہ میں خدمات انجام دی ہیں جس طرح احمد قلی(علی کے چھوٹے بھائی) نے پاک فضائیہ میں سورڈ آف آنر حاصل کرکے قومی فریضے کے لیے خود کو پیش کیا۔
گزشتہ کئی برسوں سے میرے لیے ڈیوس میں پاکستان بریک فاسٹ میں روز پیرٹ جونیئر کی شرکت بہت اہم ہوتی ہے۔ وہ2012اور 2013میں اس تقریب میں شریک تھے جب عمران خان نے پاکستان کے ممتاز سیاسی رہ نما کی حیثیت سے بطور مہمان خصوصی پاکستان بریک فاسٹ میں شرکت کی تھی۔ روز جونیئر نے اس وقت پیش گوئی کی تھی کہ عمران خان پاکستان کا وزیر اعظم بنے گا، ان کی یہ بات چند ہی برسوں بعد درست ثابت ہوئی۔ 2015 میں وزیر اعظم نواز شریف نے آخری لمحات میں بریک فاسٹ میں شرکت سے معذرت کی تو روز پیرٹ جوئنیر نے اس اجلاس کی صدارت کی۔ دو برس قبل ہم دونوں کے خاندان کو اردن میں ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ کی بورڈ میٹنگ میں یادگار وقت ساتھ گزارنے کا موقعہ ملا۔ روز پیرٹ کے پاکستان میں کاروباری مفادات نہیں لیکن میرے لیے ان کی دوستی اور قربت بتاتی ہے کہ وہ کس طرح اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ غیر مشروط وابستگی کی اپنی خاندانی اقدار پر کاربند ہیں۔
روز پیرٹ سینیئر کی موت پر پیرٹ خاندان کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بجا طور پر کہا گیا ہے '' کاروبار اور زندگی میں روزپیرٹ دیانت داری اور تحرک پر یقین رکھتے تھے۔ وہ کم یاب بصیرت، اصول اور ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے ایک محب وطن امریکی تھے ، انھوں نے جس استقلال کے ساتھ فوج اور سابق فوجیوں کی خدمت کے لیے فلاحی منصوبوں کی معاونت کی اس سے بے شمار افراد کی زندگی میں بہتری آئی۔'' ٹیکساس کے پیرٹ بلاشبہ امریکا کے عظیم خاندانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
میں اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جانب سے روز پیرٹ جونیئر کے ساتھ ان کے عظیم والد کے موت سے پہنچنے والے صدمے پر دلی اظہار تعزیت کرتا ہوں۔ یہ صرف ان کا نقصان نہیں، میرے لیے بھی ذاتی صدمے کا درجہ رکھتا ہے اور اسی طرح امریکا سمیت پوری دنیا کے لیے بھی۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)