سعادتِ حج بیت اللہ

حج، زندگی میں صرف ایک مرتبہ ان لوگوں پر فرض ہے جو اس کی اِستطاعت رکھتے ہیں۔


ایک مومن کے لیے اس سے بڑھ کر نہ کوئی متاعِ سفر ہوسکتا ہے اور نہ کوئی زادِ راہ۔ فوٹو: فائل

'' اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے وہی ہے جو مکّہ مُکرّمہ میں ہے اور جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت و برکت والا ہے۔'' ( آل عمران )

اللہ رب العزت نے اپنے اس گھر کو اس قدر عزت و عظمت سے نوازا ہے کہ اس نے رہتی دُنیا تک اسے مسلمانوں کا قبلہ بنا دیا، دُنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان ہیں وہ اسی کی طرف رُخ کرکے اپنی تمام نمازیں ادا کرتے ہیں اور قیامت تک اسی طرح ادا کرتے رہیں گے، صرف اتنا ہی نہیں بل کہ اِسلام کے پانچ ارکان میں سے حج کو بھی اس گھر کے ساتھ مربوط کیا گیا۔

حج، زندگی میں صرف ایک مرتبہ ان لوگوں پر فرض ہے جو اس کی اِستطاعت رکھتے ہیں، اِستطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس مکہ مکرمہ تک جانے اور واپس آنے کا خرچ ہو اور واپسی تک اس کے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے بھی مصارف موجود ہوں۔

وہ شخص بڑا خوش نصیب ہے جسے اسلام کے اس اہم رکن کی ادائی کی سعادت حاصل ہو اور اس سے بھی زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہے جو اس عبادت کو محض دنیوی نام و نمود کے لیے ادا نہ کرے بل کہ اس کا مقصد فرض کی ادائی کے ساتھ حج کی برکتوں، سعادتوں اور رحمتوں کا حصول بھی ہو اور وہ اس فرض کی تکمیل اس طرح کرے کہ اس کا حج، حجِ مبرور بن جائے، جس کی بڑی فضیلت وارد ہے۔

رسول کریمؐ نے اِرشاد فرمایا : ''حج مبرور کا ثواب صرف جنّت ہے۔'' شارحین حدیث کے مطابق حج مبرور وہ ہے جس میں حاجی سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور اس کے تمام کام سنّت کے مطابق انجام پائیں۔

مسافرانِ دیارِ حرم پا بہ رکاب ہونے سے پہلے کچھ دیر ٹھہر کر سوچیں کہ انہوں نے اپنے حج کو حج مبرور بنانے کے لیے کیا کچھ تیاری کی ہے؟ اگر آپ اس سعادت کے مستحق بن چکے ہیں تو جس طرح آپ قانونی تقاضوں کی تکمیل میں مصروف ہیں، اسی طرح روحانی تقاضوں کی تکمیل میں بھی کچھ وقت صَرف کریں۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کا ہر عمل اور اس کی ہر عبادت اللہ رب العزت کی خوش نُودی اور اس کی رضا کے لیے ہوتی ہے، اگر آپ حج اس لیے کررہے ہیں کہ آپ واپسی کے بعد ''حاجی'' کہلائیں گے اور لوگ آپ سے معانقے اور مصافحے کریں گے۔

دُعاؤں کی درخواست پیش کریں گے یا آپ اس لیے حج کر رہے ہیں کہ ان لوگوں کی تنقید سے محفوظ رہیں گے جو آپ کی مالی وسعت و اِستطاعت کے حوالے سے حج نہ کرنے پر مطعون کرنے والے ہیں، اگر حج کے پیچھے یہ ارادے ہیں تو یاد رہے کہ اللہ کو آپ کے اس حج کی ضرورت نہیں ہے، ہوسکتا ہے آپ کے ذمے سے فرضیت ساقط ہوجائے، لیکن ایسا حج ''حج مبرور'' نہیں بن سکتا، کیوں کہ حج کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ آپ کا حج محض اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ یاد رہے کہ تمام اعمال کی صحت اور قبولیت کا دار و مدار نیت کی دُرستی پر ہے۔

رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : ''تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیّت کے مطابق ہی اجر ملنے والا ہے۔'' اِخلاصِ نیت کے بعد ضروری ہے کہ حج کے لیے نکلنے سے پہلے اپنے سابقہ اعمال پر نگاہ دوڑائی جائے، زندگی میں کتنے فرائض و واجبات چھوڑے ہیں، کتنے گناہوں کا اِرتکاب کیا ہے، پھر ان گناہوں میں وہ گناہ کتنے ہیں جن کا تعلق بندگانِِ خدا سے ہے۔ غیبت، چغل خوری، حق تلفی، ظلم و زیادتی، نااِنصافی، بددیانتی، اذیّت کوشی یہ سب وہ گناہ ہیں جو ہم کسی احساس کے بغیر ہر وقت کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ہم ان گناہوں کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ یہ گناہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یوں تو ہر مسلمان کے لیے ان گناہوں سے توبہ کرنا اور آنے والی زندگی میں ان سے بچنے کا عہد کرنا ضروری ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :

'' اور اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو، تاکہ تم سب فلاح پاؤ۔'' (النور )

لیکن حجاج کرام کے لیے تو روح کی پاکیزگی اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ کے گھر اس کے مہمان بن کر جارہے ہیں۔ جیسے دُنیا میں مہمان صاف ستھرا ہوکر میزبان کے گھر پہنچتا ہے اسی طرح ان مہمانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تمام آلائشوں اور کدورتوں سے پاک صاف ہوکر اللہ کے گھر میں قدم رکھیں اور اس تزکیہ و تطہیر کا واحد ذریعہ توبہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے: '' گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس سے کوئی گناہ ہی سرزد نہ ہوا ہو۔'' ( سنن ابن ماجہ )

یہ تو ان گناہوں کا حال ہوا جو اللہ تعالیٰ سے متعلق ہیں اور اللہ اپنے فضل و کرم سے ان گناہوں کو معاف کرنے پر قادر ہے، دیکھا جائے تو یہ بندے اور اس کے خالق کے درمیان کا معاملہ ہے، لیکن ان سے بڑھ کر وہ کوتاہیاں اور لغزشیں ہیں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے، ان تمام کوتاہیوں کے لیے متعلقہ لوگوں سے معافی مانگنا (اگر وہ زندہ ہوں) ضروری ہے اور زندہ نہ ہوں تو ان کے لیے زیادہ سے زیادہ اِیصالِ ثواب کرنا چاہیے تاکہ قیامت کے دن وہ اپنے نامۂ اعمال میں آپ کے بھیجے ہوئے تحائف دیکھ کر نرم پڑجائیں۔

اس طرح کی معافی کا تعلق بھی ان کوتاہیوں سے ہے جو مالیات کے شعبے سے نہ ہوں، مثال کے طور پر کسی پر ظلم کیا ہو، اس کے سامنے یا پیٹھ پیچھے اسے بُرا کہا ہو، اس کی غیبت کی ہو، اس کو اذیت پہنچائی ہو، لیکن اگر کسی کو مالی نقصان پہنچایا ہو، اس کی زمین دبائی ہو، یا مکان غصب کیا ہو، یا کسی کو وراثت میں حصہ نہ دیا ہو، یہ تمام وہ گناہ ہیں جو متعلقہ لوگوں سے بہ راہِ راست معاف کرانے ہوں گے یا ان کی معافی کی صورت یہ ہوگی کہ جو کچھ مالی واجبات کسی دوسرے کے ہیں وہ پورے طور پر ادا کیے جائیں الاّ یہ کہ حق والے خود ہی اپنا حق چھوڑ نے پر راضی ہوجائیں۔ بسا اوقات حق کی ادائی میں اس قدر تاخیر ہوتی ہے کہ حق دار لوگ دُنیا سے رُخصت ہوجاتے ہیں، ایسی صورت میں اس کے تمام ورثا سے رابطہ قائم کرنا ضروری ہے، اگر ایک بھی وارث ایسا باقی رہ گیا جس تک اس کا حصہ نہیں پہنچایا گیا یا اس سے معاف نہیں کرایا گیا تو اس کے ذمے یہ حق بہ دستور باقی رہے گا اور کوئی صورت اس سے چھٹکارے کی نہیں ہوگی۔

آج کل حج پر جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ مسافرانِ حرم میں سے کتنے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا سفر ایسے مال سے ہورہا ہے جس میں کسی حرام کی آمیزش نہیں ہے؟ کیوں کہ حج ایسے مال سے کرنا چاہیے جو بالکل جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔ رشوت، غصب، چوری، غبن یا ایسے ہی غیر شرعی اور غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی جانے والی دولت کے ذریعے حج قبول نہیں ہوسکتا۔ ایک روایت کا مفہوم ہے: ''جب کوئی حاجی مال حرام لے کر نکلتا ہے اور سواری پر اپنا پاؤں رکھتا ہے اور لبیک کہتا ہے تو آسمان سے ندا آتی ہے تیری لبیک قبول نہیں ہے اور نہ تیرا یہ سفر خیر و سعادت کا باعث ہے، تیرا زادِ راہ حرام ہے، تیرا مال حرام ہے، تیرا حج گناہوں سے بھرپور اور غیر مبرور ہے۔'' (المعجم الکبیر للطبرانی)

اسی طرح کی ایک روایت کا مفہوم ہے: '' ایک شخص طویل سفر کرتا ہے، پریشان حال پراگندہ بال اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا ہے اے اللہ، اے اللہ! حالاں کہ اس کا کھانا اور پینا اور لباس حرام ہوتا ہے ایسی صورت میں اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے۔'' (صحیح مسلم )

یہ نیکی اور خیر و سعادت کا سفر ہے، جس طرح ہم دنیوی سفر کی نوعیت کے لحاظ سے مناسب زادِ راہ لے کر چلتے ہیں، اسی طرح اس سفر کے لیے بھی مناسب زادِ راہ کی ضرورت ہے اور زادِ راہ کا اِنتخاب خود قرآن کریم نے کیا ہے، ایک مومن کے لیے اس سے بڑھ کر نہ کوئی متاعِ سفر ہوسکتا ہے اور نہ کوئی زادِ راہ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

'' اور زادِ راہ لے کر چلو بلاشبہ تقویٰ سے بڑھ کر کوئی زاد راہ نہیں ہے۔'' (البقرۃ )

تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ دل میں اللہ کا خوف اور اس کی خشیت ہو۔ یہ خوف و خشیت ہی اِنسان کو ظاہر و باطن کے گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے اور حج کے سفر میں یہی مطلوب بھی ہے۔ اس سفر کا اصل توشہ تقویٰ ہے، آج کے زمانے میں سامانِ سفر کی زبردست تیاری کی جاتی ہے اور حاجی ضرورت سے زیادہ سامان اُٹھائے نظر آتا ہے، لیکن جو اصل زادِ راہ ہے اسے حاصل کرنے کی فکر بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے، حالاں کہ وہی مقصودِ حقیقی ہے۔ حج کی جان اور رُوح تقویٰ اور خوفِ اِلٰہی ہے، گھر سے باہر قدم رکھنے سے لے کر واپس آنے تک حاجی کے ہر عمل میں تقوے کی یہ کیفیت برقرار رہنی چاہیے، بعد میں بھی حج کی سعادت حاصل ہونے پر مغرور نہ ہو، اللہ کا خوف اس وقت بھی غالب رہے، گناہوں سے بچے، ایسا نہ ہو کہ گناہ نیکیوں کو ضایع کردیں اور ان کے اثرات کو ختم کردیں۔

حدیث شریف میں ہے کہ انسان حج کے بعد گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ قبولیت حج کی علامت ہی یہ ہے کہ حاجی کا دِل دُنیا کی محبت سے فارغ اور آخرت کی طرف راغب ہوجاتا ہے، اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اس کی دُعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ حج کے بعد تقوے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ شیطان دِل میں غرور پیدا کردیتا ہے، جس سے اس کا سارا عمل ضایع اور بے کار چلا جاتا ہے۔ حاجی کے پاس دُنیا کا زادِ راہ بہ قدرِ ضرورت ہو لیکن اِخلاص، للہیت، اِتباعِ سنّت، اِنابت اِلی اللہ اور خوف و خشیت کا توشہ اتنا ہونا چاہیے کہ وہ سفر حج کے دوران بھی ہر قدم پر کام آئے اور واپسی پر بھی اتنا بچ جائے کہ زندگی بھر کام آتا رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں