فائیو اسٹاراسپتالوں کی دردناک کہانیاں
حا فظ لقما ن یو سف خا ں میر اسب سے پیا ر ا بھتیجا،عین جو انی میں افق کے اس پا ر چکا ہے جہا ں سے کو ئی واپس نہیں آتا۔
ایک قیا مت گز ر گئی ہے، اپنے آپ کو سمجھا نے کی کو شش کر رہا ہو ں کہ حا فظ لقما ن یو سف خا ں میر اسب سے پیا ر ا بھتیجا ، عین جو انی میں افق کے اس پا ر چکا ہے جہا ں سے کو ئی واپس نہیں آتا، آنکھیں خشک ہو نے میں نہیں آرہی ہیں، یقین نہیں آرہا کہ وہ مٹھی میں بند ریت کی طرح ہا تھو ں سے پھسل کر مو ت کی اتھا ہ گہر ی وادیوںمیں کھو چکا ہے۔ وہ جس کا سینہ قر آن کے نو ر سے روشن تھا اور جس کو دنیا دار وں کا سا را خا ند ان اپنی بخشش کے لیے جنت کا ٹکٹ سمجھتا تھا ۔
میر ے بھائی یو سف نے ایک بیٹے کو دین کی سر بلند ی کے لیے وقف کرنا چا ہتے تھے اور ان کی نگہ انتخاب لُکی پر آکر ٹھہر گئی۔ اسے جناب سعید مجد وی صاحب کے درس میں داخل کر دیا گیا ۔جہا ں سے اس نے قرآن حفظ کیا ۔ عید الفطر پر لقما ن نے کا ن بند ہو نے اور الر جی کی شکا یت کی تھی، اپنے ہم دم دیر ینہ اور لا ہو ر کے ما یہ نا ز ریڈیو لو جسٹ ڈاکٹر تنو یر زیبری سے مشو رہ کر کے اسے ڈاکٹر منصور بصیر پال سے ملنے کا کہا ۔ یہ مختلف ما ہر معا لجوں سے اپنے مر ض کی تشخیص کر اتا پھر رہا تھا، اس سے بے خبر کہ حا فظ حسین محمو د اور عا طف تنو یربٹ کی طر ح جو اں مر گی اس کا مقد ر بن چکی ہے، جب تما م طا قتور ادویا ت بے اثر ہو نے لگیں تو لاہور کے ما ہر معا لجو ں کے دما غ میں خطرے کی گھنٹیا ں بجنے لگیں اور حا فظ کو شو کت خا نم ہسپتا ل کے جنا ب فیصل سلطا ن سے مشورہ کر نے کو کہا۔ بردارم خو اجہ نذیر نے ہمیشہ کی طر ح کر م فرمائی کی ۔ڈاکٹر فیصل سلطا ن نے چند ٹیسٹوں کے بعد یہ روح فر سا حقیقت پا لی تھی کہ میر ا پیارا حا فظ خو ن کے سر طا ن میں مبتلا ہو چکا ہے۔ ان ٹیسٹو ں کے تفصیلی نتائج نے یہ واضح کر دیا کہ خون کے سر طان کی سب سے مو ذی قسم M5حملہ آور ہو ئی ہے جو لا کھو ں میں سے کسی ایک بد نصیب کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ قدر ت کی ستم ظر یفی نے اس بار مو ت کو ہما ر ے گھر کی را ہ دکھا دی تھی ۔
اور پھر سا ت دن رات ہم لاہور کے فائیو اسٹار اسپتالوں میں فٹ بال بنے، ماہر معالجین کی ٹھوکروں کا نشانہ بنے رہے ، جنھیں مرض کے خاتمے سے زیادہ اسے طوالت دینے میں دلچسپی تھی کہ مریض کے لواحقین کے خون کا آخری قطرے تک نچوڑ لیا جائے۔ یہ کالم نگار کم از کم اپنے دودوستوں کو اس جاں لیوامرض میں علاج کے مراحل سے نبرد آزما ہوتے دیکھ چکا تھا۔ اپنے پیارے شاہ جی، جناب عباس اطہر کے ہمراہ سنگا پور شفا کی تلاش میں گیا تھا۔ جہاں کے انسان دوست معالجوں کے مشفق رویے آخری سانس تک قلب و ذہن پر نقش رہیں گے ۔ پاکستان میں سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ مرض کی تشخیص کا کوئی قابل بھروسہ طریق کار واضع نہیں کیا جا سکا جن خوش نصیبوں کی رسائی تشخیصی مرحلے تک ہوتی ہے، وہ اسی سفر میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
جنت آشیانی حافظ لقمان کے پھیپھڑے بدترین نمونیے کا شکار ہوچکے ہیں لیکن ایک فائیو اسٹار اسپتال کی سیون اسٹار ماہر معالج کو صرف کیمو تھراپی میں دلچسپی تھی کہ نمونیا اس کے دائرہ کار سے باہر تھا جب کہ چھاتی کے ما ہر امراض کا خیال تھا کہ پہلے نمونے کا علاج ہوگا پھر کیمو تھراپی کی جا سکے گی جس کی وجہ سے مریض کی قوت مدافعت بالکل ختم ہوجاتی ہے ۔ دونوں ماہر معالج دو مختلف اسپتالوں میں بیٹھتے ہیں ۔ان کا باہم رابطہ مر یض کے لو احقین کی ذمے داری ہو تا ہے، ان اسپتالوں کی ہو ش ربا فیسیں ، فائیو اسٹار ہوٹلوں سے بھی مہنگے کمرے جن کے کرایے ادا کرنا ناگزیر تھا ۔ ان اسپتالوںمیں اخراجات کا یہ عالم ہے کہ جو ٹیسٹ پاکستان کی بہترین لیبارٹریوں میں چند سو روپوں میں ہوتا ہے، وہی ٹیسٹ ان اسپتالوں میں ہزار گنا مہنگا کیا جا تا ہے ۔
بل بڑھانے کے لیے رجسٹریشن فیس ،معالج کے وزٹ کے ساتھ ساتھ نام نہاد ٹیموں کے وزٹ کی فیس بھی ہزاروں لاکھوں روپے میں وصول کی جاتی ہے اور ہزاروں روپے مالیت کی ادویات کا بے دریغ اور اندھا دھند استعمال۔۔ بے بس اور مجبور لواحقین یہ سب سہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ روزانہ کروڑوں روپے کمانے والے یہ فائیواسٹار اسپتال ٹیکس کتنا دیتے ہیں اور کون سا سرکاری ادارہ ہے جو ان کے معاملات پر نگاہ رکھنے کا ذمے دار ہے ۔ سرکاری اسپتال میں مریضوں کو لے جانے کا مطلب تو اسے موت کے حوالے کرنا ہوتا ہے لیکن نجی شعبے کے ان اسپتالوں میں وصول کی جانے والی فیسوں کو کسی حساب کتاب میں لانے کی اشد ضرورت ہے ۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ذمے داران اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان معاملات کا از خود نوٹس لینا چاہیے کہ لاچار اور بے بس پاکستانی قوم کابڑ ے جج صاحب کے سو ا کوئی والی وارث نہیں ہے ۔
حافظ لقمان یوسف کے تین معالجوں کے درمیان فٹ بال بنا یہ کالم نگار بے بسی سے یہ سب تماشے دیکھتا رہا ۔ تادم آخریہ فیصلہ ہی نہ ہوسکا کہ اس کا علاج کس طرح شر وع کیا جائے۔ پہلے نمونیا جدید آپریشن کرکے نکالا جائے ، کیمو تھراپی کی ڈوز کس طرح دی جائے گی، نجی شعبے کے شفاخانے جس طرح کی لوٹ مار پاکستان میں کررہے ہیں، اس کا تصور بھی مہذب دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ سنگا پور میں علاج پاکستان سے کہیں سستا ہے کہ ہر چیز کے نرخ مقرر ہیں ،کسی قسم کی من مانی فیس اورا جارہ داری کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا ۔
یو سف بھا ئی کا سب سے پیا ر اور چہیتا حا فظ لقما ن ، ان کے پہلو میں جا سو یا ۔آنکھیں ہیں کہ خشک ہو نے میں نہیں آرہیں، میر ے دما غ میں صر ف ایک آواز گونج رہی ہے، چا چا جی ! مینوں چھڈ کے اسلا م آبا د نہ چلے جا نا اور یہ بد نصیب خا مو شی سے آنسوئو ں کے گھو نٹ پیتا رہا ۔ اپنے خد مت گزاربھتیجے کو دھیر ے دھیر ے مو ت کی وادیو ں کی طر ف جا تے بے بسی سے دیکھتا رہا ،ہا تھ ملتا رہا اور یہ بھی نہ کہہ سکا کہ چا چا نیئںحا فظ تو جا ر ہیا ں ۔
بر دارم میا ں محمو د الر شید کے لخت جگر حا فظ حسین محمو د اور عا طف تنو یر بٹ کے بعد میرا ا پنا لا ڈلا ، پیا ر ا ، ر اج دلارا حا فظ لقما ن یو سف خا ں بھی جو اں مر گی کا کا ری زخم لگا کر چلا گیا ۔اور ہم بے رحم اور سنگ دل معا لجو ں ، فا ئیو سٹا ر ہسپتا لوں اور شفا فر وشوں کی کہا نیا ں سنا نے کو زند ہ رہ گئے ۔