سچائی اور اچھائی
سچائی کے اندر انسان کی نجات، فلاح، خیر و برکت، اطمینان و سکون، طاقت، خوشحالی پوشیدہ ہے.
ایک تاجر اپنی محنت اور سچائی سے کامیاب ہوا اور ایک بہت بڑے ادارے کا مالک بن گیا، جب وہ بوڑھا ہوگیا تو اس نے ادارے کے ڈائریکٹروں میں سے کسی کو اپنا کام سونپنے کی دلچسپ ترکیب نکالی۔ اس نے ادارے کے تمام ڈائریکٹروں کا اجلاس طلب کیا اور کہا میری ہمت مجھے زیادہ دیر تک اپنی ذمے داریاں نبھانے کی اجازت نہیں دیتی، اس لیے میں آپ میں سے ایک کو اپنی ذمے داری سونپنا چاہتا ہوں، میں آپ سب کو ایک ایک بیج دوں گا، اسے بونے کے ایک سال بعد آپ اس کی صورتحال سے مطلع کریں گے، جس کی بنیاد پر میں ذمے داریاں سونپنے کا فیصلہ کروں گا۔ کچھ عرصے بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج سے اگنے والے پودوں کی تعریفیں کرنے لگے، سوائے زید کے جو پر یشان تھا، وہ خاموش رہتا اور اپنی خفت کو مٹانے کے لیے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا۔ دراصل زید نے نیا گملا خرید کر اس میں نئی مٹی ڈال کر بہترین کھاد ڈالی تھی اور روزانہ پانی بھی دیتا رہتا تھا مگر اس کے بیج میں پودا نہ نکلا۔
ایک سال بعد ادارے کے سربراہ نے پھر سب ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا اور کہا سب لوگ گملے لے کر آئیں جن میں انھوں نے بیج بویا تھا۔ سب خوبصورت پودوں والے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر زید جس کا بیج اگا نہیں تھا، خالی ہاتھ ہی اجلاس میں شریک ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دور والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا، اس امید سے کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے۔ سب کی تقاریر سننے کے بعد سربراہ نے کہا ایک آدمی کم لگ رہا ہے، اس پر زید جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا، کھڑا ہوکر سر جھکائے بولا جناب مجھ سے جو کچھ ہوسکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج نہیں اگا۔ اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے زید کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ چائے کے بعد ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اس کے بعد زید ادارے کا سربراہ ہوگا۔ اس پر حاضرین مجلس حیران رہ گئے۔ ادارے کے سربراہ نے کہا، اس ادارے کو میں نے بہت محنت اور دیانتداری سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیے اور وہ زید ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ دیانتدار اور سچا بھی ہے۔ میں نے آپ سب کو ابلے ہوئے بیج دیے تھے، جو اگ نہیں سکتے، سوائے زید کے آپ سب نے بیج تبدیل کردیے۔
سچائی کے اندر انسان کی نجات، فلاح، خیر و برکت، اطمینان و سکون، طاقت، خوشحالی پوشیدہ ہے، ساری اچھائیاں سچ کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ ہمیں اس قدیم مقولے میں چھپی دانائی پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اچھائی بجائے خود ایک ایمان ہے۔ مولانا رومیؒ نے ایک روز اپنی مجلس میں حاضرین سے سوال کیا کہ نماز سے فاضل تر کیا ہے، پھر خود ہی جواب دیا کہ نماز سے فاضل تر روح نماز ہے، یعنی حضور قلب اور خلوص دل ہے، اس کے علاوہ ایمان بھی نماز سے فاضل تر ہے، چونکہ نماز پانچ وقت فرض ہے جب کہ ایمان ہمیشہ کے لیے فرض ہے کیونکہ نماز کسی عذر کی بنا پر ساقط بھی ہوجاتی ہے لیکن ایمان کبھی اور کسی صورت میں بھی ساقط نہیں ہوتا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ نماز پر ایمان کی ایک اور بھی فضلیت ہے کہ ایمان نماز کے بغیر بھی مفید ہے لیکن نماز بغیر ایمان کے بیکار ہے۔
ہیوریس کہتا ہے کہ عظمت چاہتے ہو تو سچائی کو تلاش کرو، اس تلاش میں دونوں چیزیں مل جائیں گی، جب کہ وینڈل فلپس کہتا ہے، سچائی ایک ایسا دائمی سورج ہے کہ تمام دنیا مل کر بھی اسے طلوع ہونے سے نہیں روک سکتی۔ جب کہ دوسری طرف ساری برائیاں اور خرابیاں جھوٹ کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، جھوٹ سے راکھ، تباہی، آنسو، بدصورتی، بانجھ پن اور ویرانی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ اسی جھوٹ نے پاکستان کو تباہ و بر باد کیے رکھا، اسے خون میں لت پت کیے رکھا، آہوں اور سسکیوں میں لپٹائے رکھا، راکھ اور کھنڈر بنائے رکھا۔ پاکستان میں وہی پرانی کہانی بار بار دہرائی جاتی رہی جو ہم سے پہلے فرانس، امریکا، انگلینڈ، جرمنی، روس، چین اور دیگر ممالک میں دہرائی جاچکی ہے۔
کہانی میں صرف کرداروں کے نام بدلتے رہے لیکن کردار ہمیشہ وہی رہے، عزائم اور مقصد ایک ہی رہا کہ ہمیشہ جھوٹ کے سہارے اقتدار پر قابض رہو اور عوام کو غلام بنائے رکھو، عوام کو تقسیم کرتے رہو، بدحال کرتے رہو، انھیں بھکاری بنائے رکھو، محتاج بنائے رکھو، ان کے ذہنوں اور سوچوں پر پہرے بٹھائے رکھو، سچ کو ہمیشہ چھپائے رکھو، بھوکا ننگا رکھو، ان کو ذلیل کرتے رہو، ان کو وحشت زدہ اور خو ف زدہ رکھو، انھیں اپنے اقتدار کے لیے کبھی خطرہ نہ بننے دو۔ اس کہانی میں ہمیشہ دو کردار نمایاں رہے، ایک استحصال کرنے والا اور ایک استحصال کا شکار ہونے والا۔ ظلم کرنیوالا اور ظلم سہنے والا، روز خوشیاں منانیوالا اور روز ماتم کرنیوالا۔ ظالموں، جابروں اور استحصال کرنیوالوں، جھوٹ بولنے والوں کا کردار ہمیشہ بادشاہوں اور آمروں نے ادا کیا، اور مظلوموں، بے کسوں، بے بسوں، ماتم کرنیوالوں کا کردار ہمیشہ عوام نے ادا کیا۔ کہانی میں ہمیشہ ظالموں، جابروں، جھوٹوں، بادشاہوں اور آمروں کا انجام ایک جیسا ہوا اور ہمیشہ آخری فتح سچ اور عوام کو ہی نصیب ہوئی۔ دنیا میں ہر جگہ آخرکار عوام نے ظلم، غربت، جھوٹ سے تنگ آکر اتحاد کرکے، جدوجہد کرکے اپنے نصیب خود ہی بدل ڈالے۔
ہمارے ملک میں بھی بار بار آمر جھوٹ کے سہارے اقتدار پر قبضہ کرتے رہے، اور اپنے ہی عوام کے نصیب میں غربت، بھوک، بیروزگاری، مہنگائی، بیماریاں، گندگی، ذلت، انتہاپسندی لکھتے رہے۔ اپنے عوام کی آزادی، خوشحالی چھین کر انھیں بھکاری بناتے رہے، جمہوریت کی گاڑی کو بار بار پٹڑی سے اتارتے رہے، عوام کے لیڈروں کو پھانسی پر لٹکاتے رہے، کبھی جلاوطن کرتے رہے، اقتدار کے چند بھوکے، سیاست دان ہر دور میں ان کا ساتھ دیتے رہے۔ ہمارے ملک کے آمر ہمیشہ ایک ہی غلط فہمی کا شکار رہے کہ ملک کے عوام انتہائی بدحال اور کمزور ہوچکے ہیں اور اب ان کے اقتدار کو عوام کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں۔ اور ہمیشہ ہمارا اقتدار اسی طرح چلتا رہے گا۔ لیکن بظاہر کمزور، لاغر، بدحال نظر آنیوالے عوام کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی بربادیوں، غربت، بھوک اور ان کے حقوق غصب کرنیوالوں سے اپنا بدلہ لے لیتے ہیں۔ ایسے ممالک جہاں تقریباً ہر شخص خوشحال ہے۔
انھوں نے سچائی کو بنیادی اصول بناکر ترقی کر لی ہے لیکن ہمارے ملک کو دنیا کے نقشے پر ابھرے 66 سال بیت چکے ہیں، کسی بھی ملک کے لیے 66 سال کا عرصہ اس کی ترقی اور استحکام کے لیے کافی بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ 66 سال میں ملک میں نظام حکومت مستحکم، عوام خوشحال، ادارے مضبوط اور جمہوریت جڑیں پکڑ چکی ہوتی ہے۔ منزل سامنے ہوتی ہے۔ رکاوٹیں اور مصیبتیں کم ہوچکی ہوتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے 66 سال بعد بھی ہمارے ملک کی وہی حالت ہے، ہم ہر وقت ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں، ہم جتنا فاصلہ طے کرتے ہیں منزل اتنی ہی آگے بڑھ جاتی ہے۔ 1947 سے لے کر آج تک اس ملک کی حالت ایک لیبارٹری کی مانند ہے جہاں روز نت نئے تجربے ہوتے رہتے ہیں، بے مقصد تجربے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ آخر ہم کرنا کیا چاہتے ہیں؟ مکمل کنفیوژن کا شکار ہو چکے ہیں، ہم ہمیشہ ایڈہاک ازم پر کام کرتے ہیں۔ 500 سال قبل از مسیح یونانی پرچار کیا کرتے تھے، بہترین چیزیں انتہائی مشکل ہوتی ہیں، ہماری نجات صرف سچائی میں ہے، اب بھی اگر ہم نے اپنے آپ سے اور قوم سے جھوٹ بولنا نہ ختم کیا تو مکمل تباہی ہمارے سامنے ہے۔