جسٹس اور ’’کیپٹل جسٹس‘‘ سب ناپید
ہمارے ایک قاری نے کالم پڑھنے کے بعد شکوہ کیا کہ آپ ’کیپٹل جسٹس‘ کی بات کرتے ہیں
راقم کا گزشتہ کالم پاکستان میں ''کیپٹل جسٹس'' اور حکمرانوں کی پالیسیوں سے متعلق تھا جس میں راقم نے عرض کیا تھا کہ ملک میں جسٹس کا نظام فعال نہ ہونے کے سبب حکومتی پالیسیوں کا عوام پر حد درجہ منفی اثر پڑتا ہے اور ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے ایک دوست کینیڈا سے آئے تو انھوں نے بتایا کہ وہاں کے میئر نے ایک منرل واٹرکمپنی پر مقدمہ دائرکر دیاجو اپنے اشتہار میں یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ وہ صحت کے عالمی معیارکے مطابق پینے کا صاف پانی شہریوں کے لیے فروخت کر رہی ہے۔
میئرکا موقف تھا کہ ان کے ادارے کی جانب سے شہریوں کو پہلے ہی صحت کے عالمی معیار کے مطابق پینے کا پانی فراہم کیا جا رہا ہے جب کہ اس اشتہار سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ شہر میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ہمارے دوست نے یہ بھی بتایا کہ کینیڈا میں ہر ماہ حکومت کی جانب سے ہر شہری کا مفت چیک اپ کیا جاتا ہے، خواہ وہ صحت مند ہی کیوں نہ ہو اور کسی بیماری کے آثار نظر آنے پر مفت علاج کی سہولت دی جاتی ہے۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جدید ریاستیں جہاں اپنے شہریوں کو صحت کی تمام تر سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہیں اور وہاں 'کیپٹل جسٹس' بھی موجود ہے تب ہی کسی منرل واٹرکمپنی کو اس بات کی بھی چھوٹ نہیں کہ وہ اپنے اشتہار میں غلط بیانی کرکے اپنا بزنس بڑھا سکے۔
دوسری جانب ہماری ریاست میں کیا ہو رہا ہے؟ عوام کو لوٹنے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اور برق گر رہی ہے تو بچارے عوام پر ہی۔ ملک کے سب سے بڑے شہرکا حال یہ ہے کہ اکثر علاقوں میں پانی آتا ہی نہیں مگر پورے شہر میں پانی کے بل پابندی سے بھیجے جا رہے ہیں حالانکہ پانی کی قلت کے سبب شہری استعمال کے لیے چھوٹا ٹینکر بھی ڈھائی تین ہزار روپے میں خریدتے ہیں جس کا پانی صرف دو دن میں ختم ہوجاتا ہے، یہ ٹینکر شہر میں گلی محلوں میں کھلے آر او پلانٹ والے فروخت کر رہے ہیں۔ حکومتی ٹینکرجو بڑے سائزکا ہوتا ہے، اس سے کہیں مہنگا ہوتا ہے۔ اسی طرح منرل واٹرکے نام پر پانی کی بوتل تیس سے چالیس روپے میںفروخت ہو رہی ہے جس میں بمشکل ایک گلاس پانی ہوتا ہے،گویا اس شہر میں پینے کے پانی کاایک گلاس بیس، تیس روپے سے کم نہیں جب کہ پانی فروخت کرنے والے یہ پانی زمین سے مفت میں نکال کر فروخت کر رہے ہیں۔ کاروباری ٹیکس عائد ہونے کے بعد یہ پانی مزید مہنگا کردیا جائے گا مگر کوئی انھیں روکے گا نہیں،کیونکہ یہاں کیپٹل جسٹس نہیں۔کیا یہ عوام کے ساتھ کھلا ظلم نہیں؟
ہمارے ایک قاری نے کالم پڑھنے کے بعد شکوہ کیا کہ آپ 'کیپٹل جسٹس' کی بات کرتے ہیں یہاں توکسی قسم کا بھی جسٹس نہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک میڈیا کے دفتر میں بطور صحافی کام کرتے ہیں، ان کی تنخواہ میں اضافہ گزشتہ چار برس سے نہیں ہوا، اسی طرح ان کے ایک بھائی پاکستان اسٹیل ملز میں کام کرتے ہیں، ان کی تنخواہیں چارچار ماہ بعد ملتی ہیں، سات برس سے ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ مختلف بہانوں سے تمام مزدوروں کی تنخواہوں میں مزید کمی کر دی گئی ہے اور جو ملازمین ریٹائر ہوئے، انکو ان کی گریجویٹی سمیت تمام واجبات ابھی تک نہیں ملے۔
ہمارے قاری کا شکوہ بجا ہے پاکستان اسٹیل ملز میں اس وقت پچیس ہزار سے زائد ملازمین ہیں جنھیں نہ تو تنخواہ وقت پر ملتی ہے اور نہ ہی میڈیکل وغیرہ کی انکو سہولت حاصل ہے۔ بعض نجی اداروں میں بھی تنخواہیں بہت دیر سے دی جاتی ہیں ۔ سینئر ترین ملازمین کو پریشان کیا جاتا ہے کہ وہ ملازمت چھوڑکر چلے جائیںکیونکہ ادارہ اس کا کام نئے ملازم سے کم تنخواہ میں لے سکتا ہے، نجی اداروں میں مزدور یونین کا کردار اب نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ جو شخص بھی اس کردارکو فعال کرنے کی کوشش کرتا ہے،اسکوخریدکر خاموش کر دیا جاتا ہے یا مخالف وکیل کو خریدکر آواز بلند کرنیوالے کو نشانے عبرت بنا دیا جاتا ہے۔
نجی اداروں میں بڑی سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیموں کا وجود بھی نظر نہیں آتا جسکے سبب ملازمین کے حقوق کی حد درجہ پامالی ہوتی ہے۔ نجی اداروں میں 'کیپٹل جسٹس' دور تک نظر نہیں آتا۔ بظاہر اس ملک میں کیپٹل ازم نظرنہیں آتا مگر حقیقت تو یہ ہے کہ عوام نجی اور حکومتی اداروں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ عوام کے بنیادی حقوق مثلاً صحت ، تعلیم اور رہائش کا یہاں کوئی تحفظ نہیں۔ بڑے بڑے ادارے زمینیں کوڑیوں کے مول خرید لیتے ہیں اور پھر جنگل کی زمین جو ایک روپیہ گزکی ویلیو بھی نہیں رکھتی، عوام کوکروڑوں روپے میں فروخت کی جاتی ہے، حکومت بھی سوال نہیں کرتی کہ جو زمین اس سے کوڑیوں کے مول لی گئی،اس کی قیمت اس قدر بڑھا کرکیوں فروخت کی جا رہی ہے؟ اس قسم کا ظلم شہرکے گلی کوچوں میں چھوٹے اسٹیٹ ایجنٹوں نے بھی جاری رکھا ہوا ہے جسکے سبب کراچی جیسے شہر میں زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، ایک اسٹیٹ ایجنٹ کرائے پر مکان دلانے میں رابطہ کارکا کردار ادا کرتا ہے۔
جس میں اس کا کچھ سرمایہ نہیں لگتا مگر وہ کرائے دار سے ایک ماہ کا کرایہ بطور ''خدمت '' وصول کرتا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اس قدر زیادہ رقم وہ بھی بے گھر لوگوں سے کیوں لی جا رہی ہے؟ اسی طرح بجلی کے بل شہریوں پر ایک بڑا بوجھ بن گئے ہیں، بل میں پہلے ہی الیکٹرسیٹی، جی ایس ٹی ٹیکس اور ٹی وی لائسنس فیس وصول کی جا رہی ہے اب ''پیک آور'' کے نام پر یونٹ چارجز اور بھی بڑھا دیے گئے ہیں جب کہ 16 جولائی کی ایک خبر کے مطابق کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ ٹائم آف یوزر فارمولا نیپر ا کی جانب سے عائدکیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس فارمولے کے تحت صارفین سے وصول کی جانے والے زائد رقم تو کے الیکٹرک کے پاس جائے گی اس میں نیپرا کا کیا فائدہ؟ عوام کے ساتھ یہ عجیب قسم کا ظلم کیوں؟ ان اداروں کوکون من مانی کرنے سے روکے گا؟ نیپرا تو حکومتی ادارہ ہے جب کہ کے الیکٹرک ایک نجی ادارہ ہے پھر ایک حکومتی ادارہ کیوں عوام کی جیب سے رقم نکال کر ایک نجی ادارے کی جیب بھرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے؟ یہ وہ نا انصافیاں ہیں جو پاکستانی عوام پرمصنوعی مہنگائی کے بوجھ کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ اس قسم کے ایشوز پر حکمرانوں کو فوری توجہ دینی چاہیے ورنہ ان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے کی طرف گرتا رہے گا۔